کوویڈ، بھارت اور انسانیت 

وسعت اللہ خان  ہفتہ 8 مئ 2021

پاکستان انچ انچ لاک ڈاؤن کی جانب بڑھ رہا ہے۔بھارت میں جب گزشتہ برس کوویڈ کی پہلی لہر آئی تو حالات اتنے خراب نہیں تھے مگر پھر بھی چار گھنٹے کے نوٹس پر بائیس مارچ دو ہزار بیس کو قومی لاک ڈاؤن نافذ کر دیا گیا اور اپنے آبائی علاقوں سے ہزاروں میل دور لاکھوں مزدور اس کے شکنجے میں پھنس گئے اور ایک سنگین انسانی بحران نے جنم لے لیا۔

کوویڈ کی دوسری لہر کے سبب بھارت اس وقت سب سے متاثر عالمی ملک کا درجہ حاصل کر چکا ہے۔ روزانہ ساڑھے چار لاکھ کے لگ بھگ نئے متاثرین سامنے آ رہے ہیں۔ ساڑھے چار ہزار اموات ہو رہی ہیں اور سانس دلانے والی آکسیجن سونے کے بھاؤ بھی دستیاب نہیں۔حزبِ اختلاف جامع لاک ڈاؤن کا مطالبہ کر رہی ہے اور مودی حکومت اس کی مزاحمت کر رہی ہے۔

حالات قابو میں رکھنے کا بس ایک ہی طریقہ سمجھ میں آ رہا ہے۔جو بھی سرکاری بدانتظامی اور بے حسی کے خلاف منہ کھولے اسے ہراساں کرو ، منہ بند رکھنے کے لیے پالتو میڈیا اور ٹویٹر بریگیڈ پیچھے لگا دو ، اسے غدار بتاؤ اور خاموش کرا دو۔اگرچہ لوگ اس جبر سے خوفزدہ ہیں  مگر پچھلے ایک ماہ میں بالخصوص ہر جن بچے کو معلوم ہو چکا ہے کہ ’’ بادشاہ ننگا ہے ‘‘۔ایسی قیامت ٹوٹنے کے بعد بھی مودی حکومت ہندوتوا ایجنڈے کو نہیں بھول پائی۔ ہزاروں احتجاجی کسان آج بھی دلی کے مضافات میں دھرنا لگائے بیٹھے ہیں مگر کوویڈ کے زمانے میں یہ دھرنا خبری اعتبار سے فی الحال بے معنی ہو گیا ہے۔

ہندوتوا بریگیڈ کے لیے مسلمانوں کو اس بار کوویڈ کی دوسری لہر پھیلانے کا الزام دینا قدرے مشکل ہو رہا ہے۔ چار و ناچار سرکاری بدانتظامی کے موجودہ عروج میں غیر ملکی ذرایع ابلاغ میں مثبت فلاحی کہانیاں شایع ہونے کے بعد جی حضور میڈیا بھی سکھ گوردواروں اور تنظیموں کی جانب سے بلاامتیاز سیوا اور ان مسلمان مخیروں اور رضاکاروں کی تھوڑی بہت مثبت کوریج پر مجبور ہو گیا ہے جنھیں نارمل حالات میں  دیش دروہی (ملک دشمن ) کے طور پر جانا جاتا ہے۔

ریاست مغربی بنگال کے ضلع مالدہ کے گاؤں شیخ پورہ میں صرف ایک گھرانہ ہندو ہے۔اس خاندان کا واحد کفیل وسوا جیت مزدوری کرتا تھا۔وہ کوویڈ کا لقمہ بن گیا۔ ہندو روایت کے مطابق اس کے جسد کو شمشان گھاٹ تک ’’ رام نام ست ہے ’’ کا ورد کرتے ہوئے مسلمان ہمسائیوں نے پہنچا کر گنگا کنارے کریا کرم کیا۔

بھوپال میں کوویڈ کی حالیہ لہر کے سبب بڑی تعداد میں ہلاکتوں کو دیکھتے ہوئے دانش صدیقی اور ذیشان قریشی نے ایک جواں سال گروپ بنا لیا۔اب تک یہ گروپ اکہتر ہندوؤں اور مسلمانوں کی آخری رسومات ادا کر چکا ہے۔

لکھنئوکے قدیم علاقے گول گنج میں تینتیس سالہ گرافک ڈیزائنر امداد امام کا فلاحی گروپ سرگرم ہے۔ایسے خاندان جن کے مرد روزگار کی خاطر لکھنئو سے باہر ہیں یا پھر خاندان کے بیشتر افراد کورونا کی چپیٹ میں ہیں۔کسی اہلِ خانہ کے مرنے کی صورت میں امداد امام کو وٹس ایپ پر پیغام بھیجتے ہیں اور یہ امدادی ٹیم پی پی ای کٹ پہن کے تجہیز و تکفین یا کریا کرم کے انتظامات میں جٹ جاتی ہے۔اب تک یہ ٹیم دس ہندوؤں اور تیس مسلمانوں کی آخری رسومات ادا کر چکی ہے۔

پریاگ راج ( الہ آباد ) میں ہائی کورٹ کے ڈپٹی رجسٹرار ہرن سنگھ تنِ تنہا تھے۔ان کا دنیا میں ایک ہی دوست تھا سراج۔ مگر وہ ان سے چار سو کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ہرن سنگھ کوویڈ میں مبتلا ہو گئے اور سراج سے رابطہ کیا۔سراج فوراً الہ آباد پہنچا۔تین دن بعد ہرن سنگھ کا اسپتال میں انتقال ہو گیا۔چنانچہ کریا کرم کے تمام انتظامات سراج  نے کیے۔

سب جانتے ہیں کہ مودی تین بار ریاست گجرات کے وزیرِ اعلیٰ رہے اور فروری دو ہزار دو میں گجراتی مسلمانوں کی جس طرح نسل کشی کی کوشش کی گئی اس کے اثرات آج تک وہاں کے مسلم سماج پر انتہائی گہرے ہیں۔

اسی گجرات کے شہر بھاؤنگر میں ایک ادھیڑ عمر خاتون سوویتا دودھیا کا کوویڈ سے انتقال ہو گیا۔بھائی سو کلومیٹر پرے مہوا قصبے میں تھا۔باقی اہلِ خانہ لاش  چھونے سے بھی خوفزدہ تھے۔انھیں کسی نے بتایا کہ سوشل ورکر اور ریسٹورنٹ کے مالک عارف کلاوا ان دنوں اپنا کاروبار اولاد کے حوالے کر کے سماجی خدمت میں جتے ہوئے ہیں اور اب تک دس افراد کی آخری رسومات کے انتظامات کر چکے ہیں جن کے اہلِ خانہ کی مالی سکت برائے نام تھی۔چنانچہ عارف کلاوا اور ان کی چھوٹی سی رضاکار منڈلی نے سوویتا کی چتا کی تیاری سمیت ہر طرح کے ضروری انتظامات کیے۔

گجرات کے شہر ودھووارا کی دارالعلوم جامع مسجد کو وہاں کی انتظامی کمیٹی نے ایک سو بیالیس بستروں کے عارضی اسپتال میں تبدیل کر دیا ہے۔یہاں تین ڈاکٹر اور بیس نفری نرسنگ اسٹاف چوبیس گھنٹے بلاامتیاز متحرک ہے۔مسجد کمیٹی کے ایک رکن اشفاق تندلجا کا کہنا ہے کہ اگر ہمیں مناسب مقدار میں آکسیجن مل جائے تو ہمارے پاس ایک ہزار بستروں کی جگہ کا بھی انتظام ممکن ہے۔ودھووارا کی جہانگیر پورہ مسجد بھی پچاس بستروں کے اسپتال میں تبدیل ہو چکی ہے۔ مسجد کے ایک ٹرسٹی عرفان محمد شیخ بھی کہتے ہیں کہ اگر آکسیجن کی رسد بہتر ہو جائے تو ہم پچاس مزید بستروں کا بندوبست کر سکتے ہیں۔

بھوپال کے محمد جاوید خان جب ایک کوویڈ مریض کو اپنے رکشے میں اسپتال لے جا رہے تھے تو انھیں خیال آیا کہ کیوں نہ اسی رکشے کو تھری وہیل ایمبولینس میں بدل دیا جائے۔کیونکہ نجی ایمبولینسیں آج کل پانچ سے دس ہزار روپے مانگ رہی ہیں۔ یہ رقم غریب مریضوں کی اوقات سے باہر ہے۔ جاوید نے بیوی کا زیور فروخت کیا۔ایک ڈونر نے آکسیجن سلنڈر اور ایک نے آکسی میٹر لے کے دے دیا۔ایک ڈاکٹر نے سلنڈر استعمال کرنے کا طریقہ سکھا دیا۔رکشہ ایمبولینس کے ایک خانے میں ضروری ادویات بھی ہوتی ہیں۔

جاوید خان کا ان دنوں یہی کام ہے۔جس مریض کے وارث نے جتنے پیسے دے دیے خاموشی سے جیب میں ڈال لیے۔ایک بار پولیس نے اس بنا پر چالان کر دیا کہ جاوید ایمرجنسی پرمٹ کے بغیر رکشہ چلا رہا ہے۔سوشل میڈیا پر شور اٹھا تو جاوید کو خصوصی اجازت نامہ جاری کر دیا گیا۔

ممبئی کے نسبتاً خوشحال کاروباری شاہنواز شیخ کے ایک دوست کی اہلیہ گزشتہ برس مئی میں کوویڈ کی پہلی لہر میں اسپتال میں جگہ نہ ملنے کے سبب انتقال کر گئی۔اس واقعہ کے بعد شاہنواز نے کوویڈ وار روم کے نام سے ایک گروپ قائم کیا۔دو آکسیجن سلنڈر خریدے جو قطعاً ناکافی تھے۔چنانچہ جون میں انھوں نے بیوی کے زیور اور اپنی گاڑی بیچ کر ایک سو ستر مزید سلنڈر خریدے۔ آج کوویڈ وار روم میں دو سو سلنڈر اور بیس رضاکار ہیں۔یہ ٹیم بارہ بارہ گھنٹے کی شفٹ میں کام کرتی ہے۔ اب تک چھ ہزار سے زائد متاثرین کی مدد ہو چکی ہے۔

ناگپور کے کروڑ پتی ٹرانسپورٹر پیارے ضیا خان نے دو ماہ قبل جب حالات بگڑتے دیکھے تو انھوں نے اپنی پچاسی لاکھ روپے سالانہ کی زکوۃ سے کرائیو جینک ٹینکرز خریدے اور چار سو میٹرک ٹن آکسیجن سرکاری اسپتالوں میں پہنچا چکے ہیں۔انڈیا ٹوڈے چینل نے جب یہ خبر نشر کی تو پیارے ضیا خان کا نام لینے کے بجائے انھیں محض ’’ ناگپور کا ایک ٹرانسپورٹر ’’ بتایا۔سوشل میڈیا پر ہنگامے کے بعد اگلی خبر میں اس مسلمان سخی کا پورا نام نشر کیا گیا۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔