سابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے خلاف ضابطہ فنڈز کے استعمال کا انکشاف

ثاقب بشیر  ہفتہ 8 مئ 2021
اسلام آباد ہائی کورٹ اور ضلعی عدالتوں کا پہلی دفعہ 2015 سے 2020 تک فرانزک آڈٹ مکمل کر لیا گیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ اور ضلعی عدالتوں کا پہلی دفعہ 2015 سے 2020 تک فرانزک آڈٹ مکمل کر لیا گیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ اور ضلعی عدالتوں کا پہلی دفعہ 2015 سے 2020 تک فرانزک آڈٹ مکمل کر لیا گیا۔

ہائی کورٹ کی تاریخ میں  پہلی دفعہ کسی چیف جسٹس نے اپنے ادارے کا فرانزک آڈٹ خود کروایا۔ فرانزک رپورٹ اور ڈیپارٹمنٹل اکاونٹس کمیٹی کی سفارشات ہائی کورٹ نے اپنی ویب سائٹ پر پبلک کردیں، جن میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے اکاؤنٹس اور مالی معاملات میں مجموعی شفافیت پائی گئی تاہم سابق چیف جسٹس انور کاسی کی آئی ایٹ رہائش گاہ پر 18 لاکھ سے زائد خلاف ضابطہ فنڈز کے استعمال کی نشاندہی کی گئی۔ اسی طرح سابق چیف جسٹس انور کاسی کی جانب سے ججز ریسٹ ہاؤس کی ہائیرنگ میں خلاف ضابطہ 89 لاکھ سے زائد رقم استعمال کی نشاندہی بھی سامنے آئی ہے جس پر ڈیپارٹمنٹل کمیٹی نے مزید شواہد کے انتظار میں اس معاملے کو موخر کردیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق سیشن جج نے کیش شورٹیز کے معاملے میں 17 ملین سے زائد غبن کی نشاندہی کی۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ کے حکم پر ایف آئی اے نے انکوائری کی اور مرکزی ملزم کو گرفتار کرلیا۔

چیف جسٹس نے شفافیت اور مالی قوانین پر بہتر عملدرآمد کے لیے ضلعی عدالتوں میں آڈٹ آفیسر تعینات کردیا گیا،رپورٹ کے مطابق ماتحت عدلیہ میں کیش شورٹی قومی خزانے میں جمع کرانے کی بجائے غیر مجاز طریقے سے جاری تھی جو اب بند کرا دی گئی۔

ہائی کورٹ کے احاطہ میں کینٹین دوکان کے ذمہ رینٹ اور بجلی بل کی مد میں 13 لاکھ سے زائد ادائیگی کی ہدایت کی گئی۔ جعلی ڈگری پر نکالے گئے دو ملازمین کے ذمہ ایک کروڑ ساٹھ لاکھ روپے ہیں ریکوری پراسس جاری ہے، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے رجسٹرار ہائی کورٹ کو  اعلی عدلیہ کے مالی اختیارات تفویض کردیے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔