آ بیل مجھے مار

فاطمہ نقوی  اتوار 9 مئ 2021
fnakvi@yahoo.com

[email protected]

آفس سے آتے ہوئے ٹریفک جام تھا روزہ کی حالت ، گرمی کی شدت اور پھر یہ افتاد نے ذہن کو گھما کر رکھ دیا، دل چاہ رہا تھا کہ اڑ کر گھر پہنچ جائیں مگر صورت حال اتنی خراب کہ گھنٹہ بعد بھی راستہ ملنے کی امید نہیں، وجہ یہ تھی کہ شاپنگ مالز میں رش کی وجہ سے لوگوں اور ان کی گاڑیوں نے ٹریفک جام کر دیا تھا۔

اکثر جگہوں پر اسی طرح کا اژدھام ہے جو بازاروں اور شاپنگ مالز میں لگا ہوا ہے کیونکہ ان لوگوں کا پختہ یقین ہے کہ کورونا وہاں نہیں پہنچے گا ہر شخص جو خریداری کے لیے نکلا ہوا ہے اس ہی خام خیالی کا شکار ہے جب ہی بلا خوف و خطر شاپنگ کے لیے لوگ بازاروں کا رخ کر رہے ہیں اور دوسری طرف دکان داروں کی حالت یہ ہے کہ رو رہے ہیں کہ ٹائم بڑھاؤ ورنہ ملک کی معیشت خطرے میں پڑ جائے گی ہمارے بچے بھوکے مر جائیں گے سو گنا منافع کمانے کے باوجود یہ کون سی بھوک ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ۔

خریدار اور دکان دار دونوں مل کر حکومتی احکامات کی دھجیاں اڑا رہے ہیں بغیر ماسک اور ایس او پیز کے سب کام چل رہے ہیں جو نہ تو حکومت کو نظر آرہے ہیں نہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو سب کی ملی بھگت سے کام چل رہا ہے اور پھر عوام جن کے وبا سے متاثر ہونے کی وجہ سے ہی تمام تر احکامات جاری ہو رہے ہیں تو ان کو تو بالکل ہی اپنی اور اپنے سے متعلقہ دس لوگوں کی صحت کا خیال نہیں ہے ایک جگہ تو یہ بھی دیکھا کہ خواتین اپنے ایک دو مہینوں کے بچوں کو بھی لے کر بازاروں میں دھکے کھا رہی ہیں جب کہ علم بھی ہے کہ کورونا کی تیسری لہر چھوٹے بچوں کو بھی نہیں چھوڑ رہی یہ تو وہ ہی بات ہوئی آ بیل مجھے ماریہ موت یا بیماری خود سے خریدنے والی بات ہوئی۔

حکومت کا الگ اپنا مزاج ہے یہ راگ مسلسل الاپنا شروع کیا ہوا ہے کہ غریب بھوکا مر جائے گا، اس چکر میں نہ صحیح سے لاک ڈائون لگ رہا ہے نہ ہی کہیں سختی ہو رہی ہے ۔غریب اگر بھوک سے نہیں مرے گا تو کورونا سے مر جائے گا۔ صحت کے نظام کا بھٹہ تو ہمارے ہاں ویسے ہی بیٹھا ہوا ہے اور کہیں خدا نخواستہ اس مرض کے پھیلائو کو نہ روکا گیا تو پھر جو ہو گا اللہ ہی حافظ ہے مگر ہم صرف اور صرف حال میں جینا چاہتے ہیں مستقبل کی پیش بندی کرنا نہیں۔

بھارت میں کتنا خوفناک حال ہے جہاں سڑکوں پر لاشیں جلائی جا رہی ہیں لوگ سائیکلوں ،موٹر سائیکلوں پر لاشیں اٹھا رہے ہیں لاکھوں کی تعداد میں لوگ کورونا سے متاثر اور ہزاروں کی تعداد میں مر رہے ہیں ۔خوف کی یہاں ایسی فضا قائم ہو چکی ہے کہ الامان الحفیظ مگر سب کچھ سنتے دیکھتے بھی پاکستان میں اس سے عبرت حاصل نہیں ہو رہی، نئے کپڑے تو اگر زندہ رہے اگلے سال بھی عید آئے گی جب پہن لیں گے لیکن انسان زندہ ہی نہ رہے تو پھر کفن ہی پہننا پڑے گا مگر یہ بات نہ تو حکومت کی سمجھ میں آرہی ہیں نہ عوام کے۔

اب حکومت نے اس عید پر زیادہ چھٹیاں دینے کا اعلان کیا ہے کہ لوگ گھر بیٹھیں اس لیے ہی تفریحی اور سیاحتی مقامات پر پابندی لگائی ہے اور یہ بہت اچھی بات ہے مگر جب تک ان پر عمل درآمد نہیں ہوگا تو ان احکامات کا بھی وہ ہی حال ہوگا جو دوسرے احکامات کا ہوا ہے۔

دعا تو یہ ہی ہے کہ لوگ گھروں میں بیٹھ کر جائیں اپنی جانوں پر ر حم کریں دوسروں کی اور اپنی صحت کا خیال رکھیں مگر ویسے کوئی ایسی صورت حال نظر نہیں آرہی کہ عوام ان باتوں پر دھیان رکھیں اس لیے ضروری ہے کہ باقاعدہ دو ہفتوں کا لاک ڈاؤن لگا دیا جائے عید تو زندگی رہی پھر منا لیں گے زند گی ہے تو ہزاروں عیدیں اور تہوار اور اگر ہم ہی نہ رہے تو کہاں کی عید کچھ بھی نہ ہمارے پاس ہوگا جب لاد چلے گا بنجارہ ۔

اگرہم اس مہینہ اپنا محاسبہ کر لیں کہ ہمارے کتنے اعمال خلوص نیت سے تھے، کتنوں کو ہم نے ریا کاری کی بھینٹ چڑھا دیا ،کتنی جگہوں پر منافقت سے کام لیا تو پھر اندازہ ہوگا کہ جس طرح سکندر دنیا سے خالی ہاتھ گیا تھا ایسا نہ ہو ہمارے ساتھ بھی یہی ہو۔ ہماری جان پہچان کی ایک خاتون ہیں ،ان کا کام ہی یہ ہے کہ دوسروں کو نصیحت اپنی باتوں سے لوگوں کو پکا مسلمان بنانا چاہتی ہیں لیکن اپنی اصلاح پر توجہ نہیں ۔

ان کے قول و فعل میں اتنا تضاد ہے اور نہ ہی ان کی حرکتیں شرعی اصولوں پر مبنی ہیں مگر پھر بھی اپنی فکر نہیں دوسروں کے غم میں گھل رہی ہیں کہ بس دوسروں کی اصلاح کر دیں اگر ہر شخص یہ سوچ لے کہ مجھے خود کو ٹھیک کرنا ہے، دوسروں کی فکر چھوڑ کر اپنی فکر میں لگ جائے اور اپنے معاملات کو درست کرنا شروع کر دے تو پھر معاشرے میں بہتری آنے لگے اور ہم اللہ کے پاس جاتے ہوئے شاید سرخرو ہو جائیں۔ یاد رکھیں عبادات اللہ کا معاملہ ہے بندے سے بندے کے معاملات کو جب تک بندہ نہ معاف کرے اللہ بھی معاف نہیں کرتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔