شمیم حنفی: ایک انسان دوست دانشور کی رخصت

زاہدہ حنا  اتوار 9 مئ 2021
zahedahina@gmail.com

[email protected]

یہ ہمارے اہم لوگوں کے جانے کا موسم ہے۔ کوئی کووڈ کے کاندھوں پر جارہا ہے اور کسی کا دل بند ہوجاتا ہے۔ ان میں سے ایک مشرف عالم ذوقی تھے، ہمارے جواں سال لکھنے والے اور اب شمیم حنفی بھی چلے گئے۔

اردو کے ایسے دانشور جو آلہ آباد یونیورسٹی میں فراق گورکھپوری، احتشام حسین، پروفیسر ایس سی دیب اور ڈاکٹر اعجاز حسین کے شاگرد رہے۔ وہ یوپی کے ایک قصبے سلطان پور میں اب سے 81 برس پہلے پیدا ہوئے۔ والد اور والدہ کے ادبی ذوق کے زیر سایہ ان کا ذہن پروان چڑھا۔ ایک ایسے زمانے میں جب جمے جمائے خاندانوں کے پیر اکھڑ گئے تھے۔ وہ اپنے والد اور والدہ کی چھتر چھایا میں ہندوستان میں ہی رہے اور وہاں انھوں نے ادب کے میدان میں بڑے بڑے معرکے سر کیے۔ وہ نقاد تھے، ادیب تھے، دانشور تھے، برصغیر کی سیاست پر ان کی گہری نظر تھی۔

پاکستان پر سنسر شپ کا عذاب ٹوٹا اور پھر ذوالفقار علی بھٹو دار پر کھینچے گئے تو یہ شمیم حنفی تھے جنہوں نے پاکستان، ہندوستان اور بعض غیر ملکی اخبار کے تراشوں، سیاستدانوں اور دانشوروں کی باتوں کے ٹکڑوں سے ایک اسمبلاژ مرتب کیا اور وہ ہندوستان میں سہ ماہی’’شعور‘‘ اور پاکستان کے ’’روشن خیال‘‘ میں شایع ہوا۔ ’’زنداں میں شام ہوگئی ہے‘‘ ایک ایسا اسمبلاژ تھا جسے پڑھیے تو پاکستانی سیاست برہنہ ہوکر سامنے آجاتی ہے۔ اسے پڑھتے ہوئے اندازہ ہوتا ہے کہ ادب کے شناور ہونے کے ساتھ ہی وہ برصغیر کی سیاست کے بارے میں کتنی گہرائی سے جانتے ہیں۔

شمیم حنفی اپنی تقریروں کے ذریعے ہم تک پہنچے۔ انتظار حسین اور آصف فرخی سے دوستی نے انھیں پاکستان کے ادبی منظر نامے کا ایک اہم فرد بنادیا۔ کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں ادب کے چاہنے والے ہر سال ان کا انتظار کرتے۔ کل دلی سے ان کی سنائونی آئی تو انتظار کی گھڑیاں ختم ہوگئیں۔ اب کیسا انتظار اور کس کا انتظار۔ اس وقت تو وہ شاید ان دونوں کو ڈھونڈھ رہے ہوں گے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان لوگوں کی ملاقات ہوگئی ہو اور اب تینوں مل کر مشرف عالم ذوقی کو ڈھونڈھ رہے ہوں جنہوں نے ’’مرگِ انبوہ‘‘ لکھی اور پھر خود بھی ’’مرگ انبوہ‘‘ کا حصہ بن گئے۔

شمیم حنفی ’ذاکر باغ‘ میں رہتے تھے۔ قرۃ العین حیدر سے ملنے میں’ذاکر باغ‘ گئی تو وہاں شمیم حنفی صاحب سے بھی ملاقات ہوئی۔ سہج سہج بولنے والے شمیم صاحب ادب اور ادیبوں کے بارے میں باتیں کرتے رہے۔ پاکستان سے ان کی گہری دلچسپی تھی اسی لیے کرید کرید کر وہ ایک ایک کے بارے میں پوچھتے رہے۔ وہ بعض ہندوستانی اور پاکستان ادیبوں کے لیے اچھے دن تھے۔ گوپی چند نارنگ نے دونوں طرف کے ادیبوں کے لیے ملٹی پل ویزے کا اہتمام کردیا تھا۔ اسی لیے برے تعلقات کے دنوں میں بھی انتظار صاحب سارے ہندوستان میں گھومتے پھرے۔ اور شمیم حنفی صاحب پاکستان میں آرٹس کونسل اور آکسفورڈ لٹریچر فیسٹیول کے جلسوں میں شرکت کرتے رہے۔

حنفی صاحب پر فالج کا حملہ ہوا تھا جس نے ان کو زیادہ نقل و حرکت سے مجبور کردیا تھا۔ اس کے باوجود وہ کیفی اعظی کی طرح اپنی بیماری سے نہایت وقار اور بہادری کے ساتھ لڑتے رہے۔ آخری چند جلسوں میں وہ تشریف نہ لا سکے تو انھوں نے آرٹس کونسل میں اپنے شائقین سے زوم کے ذریعے گفتگو کی اور اپنے کئی جملوں پر داد وصول کی۔

ان کی بہت سی کتابیں شایع ہوچکیں اور انھیں قبول عام کی سند حاصل ہوچکی۔ آصف فرخی کے ادارے ’’شہرزاد‘‘ سے شایع ہونے والی ایک کتاب پر رائے دیتے ہوئے انتظار صاحب نے لکھا تھا:’’ایک وہ نقاد ہیں جو مار دھاڑ بہت کرتے ہیں۔ دوسری انتہاپر وہ نقاد ہیں جو مرنجاں مرنج تنقید کرتے ہیں۔ شمیم حنفی کہیں ان دو انتہائوں کے درمیان کھڑے ہیں۔ بس انھیں مہذب نقاد کہنا چاہیے۔ ایک شائشتگی کے ساتھ اور معروضی انداز میں تجزیہ پیش کرتے ہیں۔ ان کا ایک امتیاز یہ ہے کہ روایت کے شعور اور کلاسیکی ادب کی اہمیت کے اقرار کے ساتھ ان کی توجہ بہ طور خاص ادلتے بدلتے رجحانات پر رہتی ہے۔‘‘

شمیم حنفی کے خیال انگیز مضامین کا مجموعہ ’’خیال کی مسافت‘‘ ہے۔ اس کے پیش لفظ ’’بیسویں صدی، ایک تاثر‘‘ میں وہ لکھتے ہیں:اس وقت جب کہ ایک نئی صدی ہمارے شعور کی دہلیز پر قدم جما چکی ہے اور ایک نیا تماشا سامنے ہے۔ مڑ کر پیچھے کی طرف دیکھتاہوں تولگتا ہے پچھلی صدی کو نہیں اپنے آپ کو دیکھ رہا ہوں۔ ایک لمبے سفر کی روداد سامنے ہے اور راستے پر دور تک گرد پھیلی ہوئی ہے۔ بنائو اور بگاڑ کا ایک ملا جلا قصہ۔ ایک عجیب و غریب کھیل جس میں کچھ مزا بھی تھا، اور کچھ دل بھی دکھا، اسی صدی کی دین ہے۔ وہ بڑی عالمی جنگیں اسی صدی میں لڑی گئیں۔

ہماری اجتماعی زندگی، غلامی کے دور سے نکل کر آزادی تک، اسی صدی کے دوران پہنچی۔ کہتے ہیں بیسویں صدی کے پہلے پچیس برس میں انسان نے ارتقا کی جو منزیں طے کیں وہ کئی صدیوں کے سفر پر بھاری ہیں۔ کئی مسلمات پر ضرب پڑی۔ کئی طلسم ٹوٹے۔ ایک نئی دنیا، Brave New World سامنے آئی۔ اس صدی میں انسانی فتوحات اور کامرانیوں کے داستان بہت طولانی ہے۔

لیکن جہاں ایک طرف ہم نے بہت کچھ پایا، وہیں کھویا بھی بہت کچھ۔ زندگی کے رنگ ڈھنگ، تصورات کے پیمانے، اقدار اور عقیدوں کے نظام، حقیقتوں اور سچائیوں کے محور، اتنی تیزی کے ساتھ تبدیل ہونے لگیں تو مسئلے بھی بہت پیدا ہوتے ہیں۔ سو اس صدی نے بھی ہمارے لیے بڑے مسئلے پیدا کیے۔ پریشان نظری اور پریشان فکری کے اس پورے تجربے کو بیان کرنا تھوڑے سے وقت میں ممکن نہیں، بس کچھ اشارے کیے جاسکتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ صدی ہوش مندی اور دیوانگی کے دوراہے پر ایک ساتھ چلتی رہی ہے۔

گویا کہ انسان سچ مچ خسارے میں ہے۔ چاروں طرف درد اور دہشت کا دور دورہ ہے۔ نیو کلیئر تجربے اور دھماکے ہمارے احساسات کو جگانے کے بجائے کند کرتے جاتے ہیں۔ ذرا سوچیے تو کہ اب تباہی اور اجتماعی موت کا خطرہ کتنا بڑھ چکا ہے۔ برٹرینڈ رسل نے اس صدی کے اوائل میں (یہ 1928 کا واقعہ ہے) کہا تھا کہ:’’ملائم اشیا دہشت میں آجاتی ہیں۔ میں دنیا سے اور اس کے تمام مکینوں سے نفرت کرتا ہوں۔ میں لیبرکانگریس اور ان صحافیوں سے نفرت کرتا ہوں جو انسانوں کو مرنے کے لیے بھیج دیتے ہیں۔ میں ان باپوں سے نفرت کرتا ہوں جو اپنے جواں بیٹوں کے قتل پر فخر محسوس کرتے ہیں اور ان امن پسندوں سے بھی نفرت کرتا ہوں جو اب بھی یہ رٹ لگائے ہوئے ہیںکہ انسان طبیعتاً نیک خو ہے اور امن پسند ہے جب کہ آئے دن ہمیں اس کے برعکس شہادتیں ملتی ہیں۔ مجھے شرم آتی ہے کہ میں انسانوں کی نسل سے تعلق رکھتا ہوں۔‘‘

تو صاحب دنیا کے اس حال پر جس تک ہمیں اس سنگ دل اور سفاک صدی نے پہنچا دیا ہے شرم تو واقعی آنی چاہیے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا کیا جائے؟ اپنے حال پر شرمند ہونا بھی تو کافی نہیں۔ ہم ایک عجیب و غریب تثلیث کے پھیر میں پڑ گئے ہیں۔ مشین،د ولت اور سیاسی اقتدار۔ دجلہ خون سے بھرتی ہے تو بھر جائے اور بغداد کے کتب خانے ایک بار پھر دریا بُرد ہوتے ہیں تو ہوجائیں۔ امریکی اقتدار کا پرچم لہراتا رہے اور ایک نودولتہ ملک عالمی اختیار کا علم بلند کیے رہے۔

وہ آلڈس ہکسلے کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں۔

’’موجودہ تہذیب ایک عالم سرشاری میں ڈوبے رہنے کے لیے طرح طرح کے زہر پیدا کرتی ہے اور ان میں سے کوئی بھی بہ ظاہر اتنا بے ضرر اور اتنا ہلاکت خیز نہیں جتنا وہ زہر ہے جسے عام اصطلاح میں ’’تفریح‘‘ کہتے ہیں۔ جدید تفریحات کا بھیانک زہر اس چیز سے پیدا ہوتا ہے کہ ہر قسم کی منظم تفریح زیادہ سے زیادہ احمقانہ بنتی چلی جاتی ہے اور ہماری تہذیب اپنے آپ کو خود زہر دے رہی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس طرح تہذیب بہت جلد بوڑھی، بوسیدہ ہوجائے گی۔‘‘

سارتر نے اشتہار بازی کی بیماری کا ذکر کرتے ہوئے لکھاتھا: ’’امریکا میں جو قوتیں انسان کی شخصیت کو بدل کر رکھ دیتی ہیں۔ بڑی نرم اور ملائم ہیں اور ان کا عمل دھیرے دھیرے ہوتاہے۔ آپ ذرا ساسڑک پر نکلیں یا کسی دکان میں جائیں یا ریڈیو سنیں تو فوراً ہی یہ قوتیں ایک گرم گرم سانس کی طرح آپ کے اوپر اثر ڈالتی ہیں۔‘‘ اور اب تو حال یہ ہے کہ ریڈیو اور اشتہار کی باتیں پرانی ہورہی ہیں،جسے دیکھو ایک چوہا دوڑ میں لگا ہوا ہے۔ بیسویں صدی کا کلچر کب کا بوڑھا ہوچکا۔ پانی گردن تک آچکا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ چوہے تو بلی کی گردن میں گھنٹی باندھنے سے رہے۔

وہ معروف معنوں میں ترقی پسند نہیں تھے لیکن وہ ایک نہایت انسان دوست دانشور تھے اور ہر انسان دوست، ترقی پسند ہوتا ہے۔ ہم ایک بڑے انسان دوست سوچنے اور لکھنے والے سے محروم ہوگئے، ہم واقعی خسارے میں ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔