وزارتِ خارجہ میں سب کچھ خراب نہیں ہے!

راؤ منظر حیات  پير 10 مئ 2021
raomanzar@hotmail.com

[email protected]

قاسم متقی کاتعلق فارن سروس سے ہے۔ ریٹائر ہوئے تقریباًتین چاربرس ہوچکے ہیں۔اپنی طرزکا خاموش طبع انسان۔کئی ملکوں میں سفیررہااورملازمت کی مدت ختم ہونے کے بعدشرافت سے لاہورآکر رہنا شروع کردیا۔کم گواورتہذیب کے دائرے میں زندگی گزارنے والابے ضررآدمی۔کل میرے پاس آیاتو وزیراعظم کے پاکستان کے سفیروں سے خطاب پربات شروع ہوگئی۔

احساس ہواکہ متقی اس خطاب سے کافی رنجیدہ ہے۔دورانِ گفتگواس نے بتایاکہ کیونکہ سفیر بیرون ملک کام کرتے ہیں اوراکثریت بہت تندہی سے کارِسرکارانجام دیتی ہے،ان کے اچھے کام کوکبھی پذیرائی نہیں ملتی۔مقامی میڈیا ان افسروں کے بہترین کام کو کبھی بیان نہیں کرتا۔ہاں شکایتوں کاسلسلہ ہمیشہ جاری رہتاہے۔لہجہ میں تکلیف کاعنصرتھا۔قاسم کے مطابق وزارت خارجہ میں بھی بنیادی طورپراتنے ہی مسائل ہیں جتنے کسی دیگرسرکاری محکموں میں۔اچھے اورکم اچھے افسران،اسی تناسب سے موجودہیں جتنے انتظامی نوکریوں میں۔پھرقاسم نے دلیل کے طورپرایک ایسا سفارتی واقعہ سنایاجوکم ازکم میرے علم میں نہیں تھا۔

یہ پوراواقعہ میں قاسم سے اجازت کے بعدلکھ رہا ہوں۔اسی کی زبانی بیان کررہاہوں۔ ’’2014-15  میں الجیریامیں پاکستان کاسفیرتھا۔الجیریاکی خانہ جنگی میں بقول ان کی حکومت کے،لیبیاکاہاتھ تھا۔چنانچہ دونوں ممالک کے حالات حددرجہ کشیدہ تھے۔الجیریانے اپنی سرحدیں مکمل طورپرسیل کررکھی تھیں۔لیبیاسے اس سرحدکے ذریعے آنے جانے پرقانونی پابندی تھی۔ 2015ء میں لیبیاکے اندرخانہ جنگی کادوسرادورشروع ہوگیا۔وہاں ہزاروں پاکستانی موجودتھے۔قتل وغارت کے اس پُرآشوب دورمیں ان کاوالی وارث کوئی بھی نہیں تھا۔

لیبیامیں پاکستانی سفیراپنی طرف سے بھرپورکوشش کررہاتھاکہ کسی طورپریہ لوگ محفوظ رہیں۔مگریہ بہت مشکل کام تھا۔اسی اثنا میں اس نے قاسم متقی کوفون کیاکہ اگرآپ لیبیااورالجیریاکے درمیان سرحد کھلوا  دیں توپاکستانی محفوظ طریقے سے واپس آسکتے ہیں۔یہ کام ہرطورپرناممکن تھا۔کیونکہ الجیریاکی حکومت کسی صورت میں لیبیاپراعتمادکرنے کے لیے تیارنہیں تھی۔متقی نے جواب دیاکہ سرحدبھی کھلے گی اورپاکستانی انتہائی محفوظ طریقے سے یہاں آکراپنے وطن روانہ ہوجائینگے۔جواب سنکرلیبیامیں پاکستانی سفیرحیران رہ گیاکہ اس باہمی دشمنی میں یہ کیونکرممکن ہے۔

قاسم نے اگلے دن وزیرخارجہ سے ملنے کاوقت مانگاجواسی وقت دیدیاگیا۔متقی نے جب یہ کہاکہ لیبیاسے چندمقامات پرسرحدکھول دیں تاکہ پاکستانی شہری خیریت سے یہاں آسکیں تواس نے صاف انکارکردیا۔یہ بالکل ایسے ہی تھاجیسے ہماراملک،انڈیاکے ساتھ اپنی سرحدیں کھول دے۔

ہرملک کے اپنے اپنے قومی مفادات ہوتے ہیں اوران پرسمجھوتاکرنابہت مشکل ہوتا ہے۔ خیر پاکستانیوں کے لیے یہ سرحدکھولنے کاکام کھٹائی میں پڑ گیا۔اس کے بعدقاسم انتہائی تگ ودو کرکے ، الجیریاکے صدرکے پاس گیا۔اسے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر سرحد کھولنے کی التجاکی۔متقی کے پُرزوردلائل سن کر صدر نے وہ کام کیاجوتاریخ میں کبھی نہیں ہواتھا۔ صدارتی فرمان کے تحت صرف اورصرف پاکستانی شہریوں کے لیے دو مقامات پرلیبیااورالجیریاکی باہمی سرحدکھول دی گئی۔ اس کے نتیجہ میں،اَن گنت پاکستانی ،انتہائی محفوظ طریقے سے جان بچاکرالجیریاآئے اورپھروہاں سے اپنے وطن واپس آگئے‘‘۔

قاسم متقی کایہ ہمت والاسفارتی کارنامہ کم ازکم خاکسارنے میڈیامیں نہیں دیکھا۔متقی کیونکہ ایک آزادمنش افسرتھا۔مشکل فیصلے کرنے میں حیل وحجت نہیں کرتاتھا۔چنانچہ وزارت خارجہ نے شاباش دینے کی بجائے اس کی ترقی کوروک لیا۔جب پاکستان آکر اس وقت کے سیکریٹری خارجہ سے ملااوراسے بتایاکہ دیکھیے میں الجیریامیں پاکستان کی خدمت کرتا رہا ہوں۔

توسیکریٹری خارجہ کاجواب حددرجہ عجیب تھا۔یہ توہمیں کسی نے بھی نہیں بتایاکہ آپ نے اتنابڑاانسانی کارنامہ سرانجام دیاتھا۔قاسم متقی جواب سنکرخاموشی سے واپس آگیا۔کیونکہ اسے علم تھاکہ آگے صرف اورصرف بند دروازہ ہے جومحنت کی بجائے کسی اورکنجی سے کھلتاہے۔

سروس کے دوران  پاکستان کے بے شمارسفیروں اورفارن سروس کے افسروں سے رابطے ہوئے۔ تجربہ کی بنیادپرکہتاہوں کہ وزارتِ خارجہ کے افسران کو حددرجہ شائستہ اورباتمیزپایاہے۔وہ انتہائی مشکل حالات میں پاکستان کے مفادات کی حفاظت کرتے ہیں۔  بہت کم مالی وسائل میں رہ کر،اپنے ملک کی بیرون ممالک میں ساکھ بہتربناتے ہیں۔

وہ ملک جودہشت گردی کے حوالے کے علاوہ کوئی اورشناخت کم ہی رکھتا ہے،اسے اچھے طورپرغیرممالک میں پیش کرناآسان کام نہیں ہے۔بہت زیادہ سفیروں کوجانتاہوں،جنکے بہترین کام کوہمارے ملک میں وہ پذیرائی نہیں ملی، جوان کاحق تھا۔ ہرسرکاری محکمہ کی طرح،ہمارے سفارت خانوں میں بھی ہرطرح کی علتیں موجودہیں۔بیرون ملک تارکین وطن کی عزت نہ کرنا،بروقت ان کے کام نہ کرنا۔انھیں تحفظ نہ دینا،غیراہم سمجھنا،یہ تمام مسائل بہرحال موجودہیں۔مگریہ خرابیاںتوتمام سرکاری محکموں میں بدرجہ اَتم موجودہیں۔مگر مثبت کام کوپسِ پشت ڈال کران کی قومی سطح پرتضحیک کرنا درست نہیں ہے۔

وزیراعظم کے حالیہ خطاب کوخاکسارنے غور سے سناہے۔انھوں نے درست طورپرکئی کوتاہیوں کاذکرکیا ہے۔یہ کسی بھی وزیراعظم کاقانونی استحقاق ہے کہ سرکاری ملازمین کی سرزنش کرے۔مگرسوال یہ ہے کہ کیا،میڈیاپریہ سرِعام کرنادانشمندی تھی۔یہ تمام تلخ باتیں حسبِ روایت،سفیروں کی کانفرنس بلاکربھی کی جاسکتی تھیں۔تمام ملکی سفیروں کی اسلام آبادمیں کانفرنس ایک مستندسفارتی عمل ہے جوتواترسے ہوتاآیا ہے۔ وزیراعظم تمام کڑوی باتیں اس کانفرنس میں بڑے سلیقے سے کہہ سکتے تھے۔ان کایہ آئینی حق ہے کہ وہ کسی بھی سفیرکوعوامی شکایت پروطن واپس بلاسکتے ہیں۔

بند کمرے میں ڈانٹ ڈپٹ اورچیزہے۔اس کے برعکس میڈیاپرخطاب کرکے ناقص کارکردگی پرخفگی بالکل مختلف بات ہے۔نتیجہ یہ نکلاہے کہ پاکستانی وزارت خارجہ اور اس کے افسران بہت دل شکنی کی حالت میں ہیں۔انھیں ایک دم احساس ہواہے کہ ملک کاوزیراعظم ان کے مسائل کاادراک بہت کم رکھتاہے۔یہ تکلیف دہ بات، وزارتِ خارجہ کے کئی افسران نے طالبعلم سے شیئرکی ہیں۔

ایک اورنکتہ یہاں بیان کرناضروری ہے۔ وزیراعظم نے ہندوستانی سفیروں کی اس خطاب میں تعریف کی۔یہ بھی کہاکہ وہ اپنے ملک کے لیے سرمایہ کاری لے کر آتے ہیں۔اس بات سے ہندوستان میں شادیانے بجائے جارہے ہیں۔ان کے اخبارات میں ہمارے وزیراعظم کاتعریفی بیان،شاہ سرخیوں میں شائع کیا گیا ہے۔توازن سے عرض کرونگاکہ ہندوستان کے سفیروں کی تعریف مکمل طورپربے جااورموقع محل کے بغیر تھی۔ کیاکوئی بتانے کی جرات کریگاکہ ہندوستان کے سفارت خانوں کاسالانہ بجٹ کیاہے۔

پاکستانی سفارت خانوں سے پانچ سویاہزارگنازیادہ ہے۔اگر ہماراسفارت خانہ سرکاری طورپرایک کروڑخرچنے کی استطاعت رکھتاہے توہندوستانی سفارت خانہ سوکروڑ تک خرچ کرسکتا ہے۔ یہ فرق کارکردگی کی بنیادبنتا ہے ۔ انتہائی قلیل وسائل میں ہمارے سفارت خانے انتہائی سنجیدہ کام کررہے ہیں۔ذاتی طورپروزیراعظم کے اس تقابلی جائزے سے اختلاف ہے۔پاکستانی وزارت خارجہ کے افسران، ہمارے سفیر،ہندوستانی سفیروں کے برابرنہیں،ان سے حددرجہ بہترہیں۔ متعدد کانفرنسوں میں اپنے اوربھارتی مندوبین کی تقابلی تقاریراورباتیں سن چکا ہوں۔دعوے سے عرض کروں گاکہ ہمارے سفارت کاران سے بہت بہترہیں ۔خان صاحب کواپنے اداکردہ جملوں پردوبارہ غورکرنا چاہیے۔

یہ نہیں کہہ رہاکہ ہماری وزارت خارجہ اورسفارت خانوں میں سب کچھ درست ہے۔ہرگزنہیں۔ان تمام میں وہ خوفناک مسائل موجودہیں جودیگر سرکاری محکموں میں ہیں۔دانائی کاتقاضہ یہ ہے کہ تہذیب کے دائرے میں رہ کراپنی وزارت خارجہ کی تطہیرکی جائے۔جہاں سے شکایت آئے،باقاعدہ انصاف کے تقاضے پورے کرکے انکوائری کی جائے۔

دشمن ملک کے افسران کوان سے بہترنہ گرداناجائے۔بندکمروں میں ہرطرح کی باز پرس کی جائے۔مگرسفارت کاروں کوبازارمیںاسطرح رسوا نہ کیاجائے۔یہ بھی درست ہے کہ وزارت خارجہ کئی بار اپنے افسروں سے بھی انصاف نہیں کرسکتی۔وہاں بھی ذاتی پسنداورناپسندکامعاملہ ہے۔قاسم متقی اوراس جیسے اَن گنت افسر،بہترین کام کرنے کے باوجودنشانہ ِ ستم بنتے رہتے ہیں۔ہرمحکمہ کی طرح،وزارت خارجہ کی بھی ان افسران کی قدرہے،جوتھوڑاسااچھاکام کرکے، دونوں ہاتھوں سے اپنی تعریف کاڈھول بجاتے ہیں۔ اب تو اکثرسرکاری افسران کام کرنے کی بجائے صرف اور صرف تعریفی ڈھول بجارہے ہیں۔محنتی افسران توکب سے سرچھپائے،عزت بچاکرکواڑبندکیے بیٹھے ہیں!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔