آڈیو ٹیپ اسکینڈل: سابق مشیر کو بے گناہ قرار دے دیا گیا

شاہد حمید  بدھ 12 مئ 2021
تحقیقاتی کمیشن نے سرکاری حکام ،اشہتاری ایجنسی اور دیگر متعقلہ حکام کے بیانات قلمبند کیے۔

تحقیقاتی کمیشن نے سرکاری حکام ،اشہتاری ایجنسی اور دیگر متعقلہ حکام کے بیانات قلمبند کیے۔

 پشاور:  سابق مشیر اطلاعات اجمل خان وزیر کو آڈیو ٹیپ اسکینڈل میں بے گناہ قراردیتے ہوئے کلین چٹ دے دی گئی ہے جبکہ ان کے خلاف جاری تحقیقات کوفائل کرتے ہوئے داخل دفتر کردیا گیا ہے۔

اجمل خان وزیر جب پی ٹی آئی میں شامل ہوئے تو انھیں خیبرپختونخوا میں اہم ذمہ داریاں دی گئیں ،وہ صوبائی حکومت کے ترجمان بھی رہے اور ساتھ ہی وزیراعلیٰ کے مشیر بھی اور وہ بھی اطلاعات کے لیے لیکن پھر اچانک ان کے حوالے سے آڈیو ٹیپ اسکینڈل سامنے آگیا جس میں اشتہاری ایجنسیوں کے نمائندوں سے ان کی بات چیت سامنے آئی جس میں کچھ ایسی باتیں کی جا رہی تھیں کہ جن کی وجہ سے وزیراعلیٰ محمودخان مجبور ہوئے اور اجمل وزیر کو ان کے عہدہ سے ہٹاتے ہوئے تحقیقات کا حکم دے دیا۔

تحقیقات کی ذمہ داری سینئر بیوروکریٹ صاحبزادہ محمدسعید کے حوالے کی گئی جن کو یہ کام سہل طریقہ سے کرنے کے لیے ایک پولیس افسر کے علاوہ ایک ریٹائرڈ جج بھی بطور ممبر دیا گیا اور اب مذکورہ تحقیقاتی کمیشن نے اپنا کام مکمل کرتے ہوئے رپورٹ وزیراعلیٰ کو پیش کردی ہے۔

اس رپورٹ کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ تحقیقاتی کمیشن نے سرکاری حکام ،اشہتاری ایجنسی اور دیگر متعقلہ حکام کے بیانات قلمبند کیے اور ٹی او آر کے مطابق آڈیو کی صداقت کی جانچ کے لیے ایف آئی اے فارنزک سائنس لیبارٹری سے اس کی جانچ کرائی گئی جس کے مطابق کوئی نتیجہ خیز بات سامنے نہیں آسکی جس کے باعث معاملہ داخل دفتر کردیا گیا ہے، صاحبزادہ محمدسعید کی سربراہی میں کام کرنے والے تحقیقاتی کمیشن اور صوبائی حکومت نے تو یہ باب ختم کرتے ہوئے معاملہ داخل دفتر کردیا ہے لیکن ابھی بھی کئی ایسے سوالات موجود ہیں کہ جن کا جواب تلاش کرنا ضروری ہے۔

اس اسکینڈل اور تحقیقاتی عمل کے حوالے سے سب سے اہم اور بنیادی سوال یہ ہے کہ اس سارے اسکینڈل کے پس پردہ کون تھا؟ کس نے یہ سارا تانا بانا بنااورجس نے بھی یہ سارا جال پھیلایا وہ کون تھا؟تحقیقاتی کمیشن کا سارا زور اجمل وزیر سے متعلق آڈیو ٹیپ کی جانچ کرتے ہوئے انھیں بے گناہ ثابت کرنے اور معاملہ داخل دفترکرنے پر ہی کیوں رہا ،اس بات پر توجہ کیوں نہیں دی گئی کہ یہ کہانی شروع کہاں سے ہوئی ؟

یہ بات سب کو ہی یاد ہوگی کہ جب اجمل خان آڈیوٹیپ اسکینڈل سامنے آیاتھا اس وقت اس حوالے سے کئی نام بھی سامنے آئے تھے اور یہ نام اس اسکینڈل کے حوالے سے ہی سامنے آئے تھے کہ ممکنہ طور پر ان لوگوں کا مذکورہ اسکینڈل کے حوالے سے کردار ہے تاہم اب جبکہ یہ معاملہ داخل دفتر کردیا گیا ہے تو یہ سوال یقینی طور پر اپنی جگہ رہ گیاہے کہ اس سارے معاملے کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے ؟ کس نے یہ سارا کھٹراگ چھیڑا اور کس نے اجمل وزیر کو اس معاملے میں پھنسایا ،سرکاری دفاتر اور اداروں کے اندر کون وزیروں ،مشیروں کے اجلاسوں میں ریکارڈنگ کرتا ہے اور پھر انھیں پھیلاتا ہے اور اس سارے عمل کا پھر فائدہ لیتاہے ؟اور یہ سوال بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ اجمل خان وزیر جو صوبائی حکومت کے ترجمان اور مشیر کے طور پر محوپرواز تھے۔

انھیں اچانک آڈیواسکینڈل کے ذریعے شکار کرتے ہوئے کیوں گرایا گیا اور اس کا فائدہ کس نے لیا؟صاحبزادہ سعید کمیشن کو درکار تھا کہ وہ ان سارے سوالات کے جوابات ضرور تلاش کرتے کیونکہ ان سوالات کے جوابات سامنے آنے ہی سے صورت حال واضح ہو پاتی۔ لیکن بہرکیف ایسا نہیں ہوا اور خیال ہے کہ چونکہ اب یہ معاملہ ختم ہوگیاہے اس لیے اجمل وزیر کو واپس ان کی پرانی پوزیشن پر بحال کردیا جائے گااور اصولی طور پر ہونا بھی ایسا ہی چاہیے کیونکہ وہ جس انداز اورطریقہ سے صوبائی اورمرکزی حکومتوں کا دفاع اور وکالت کررہے تھے۔

موجودہ حالات میں مرکز اور صوبہ کو ویسی ہی وکالت کی ضرورت ہے تاہم جہاں یہ بات گرم ہے کہ اجمل وزیر کو ان کے پرانے عہدہ پر واپس بحال کیاجارہاہے تو ساتھ ہی یہ بات بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ اجمل وزیر کو کلیئر تو کردیا گیا ہے لیکن حکومتی ٹیم میں ان کی واپسی شاید ہی اتنی جلدی ہوپائے اورابھی انھیں اس سلسلے میں انتظار کرنا ہوگا جو مختصر بھی ہو سکتا ہے اور طویل بھی تاہم حقیقت یہ ہے کہ اسکینڈل کا ڈراپ سین ہونے کے بعد اب یہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمودخان کی صوابدید ہے کہ وہ جب چاہیں اجمل وزیر کو ان کے عہدہ پر بحال کردیں تاہم وہ اس ضمن میں یقینی طور پر وزیراعظم عمران خان اور پارٹی کے سینئر ساتھیوں سے مشاورت کرنا چاہیں گے تاکہ معاملات بہتر انداز میں آگے بڑھ پائیں ۔

وزیراعلیٰ اس لیے ایسا کریں گے کیونکہ چار وزراء کو کابینہ کا حصہ بنانے کے باوجود انھیں محکمے نہ دینے کی وجہ سے پہلے ہی کافی لے دے ہورہی ہے اور یہ سارے کا سارا معاملہ تحریک انصاف کے اندر جاری کشمکش اور اختلافات سے جوڑا جارہاہے اور اس بات میں کسی حد تک حقیقت بھی ہے کہ چاروں وزراء یعنی کہ عاطف خان ،شکیل احمد،فضل شکور اور فیصل امین گنڈاپور کو حلف لیے ایک ماہ سے زائد عرصہ گزر چکا ہے اور اب تک انھیں محکمے حوالے کرنے کا نوٹیفیکیشن جاری نہیں کیا جاسکا،گو کہ سرکاری ذرائع بتاتے ہیں۔

اب مشاورتی عمل تقریباً مکمل ہوچکا ہے اور عید کے فوراً بعد چاروں صوبائی وزراء کو محکمے الاٹ کردیئے جائیں گے لیکن یہ معاملہ صرف چار وزراء تک ہی محدود نہیں بلکہ ماہ رمضان سے قبل وزیراعلیٰ کی ٹیم سے دو مشیروں اور ایک معاون خصوصی نے استعفے بھی دیئے تھے اور ان کی جگہ نئے کھلاڑی بھی ٹیم میں شامل کیے جانے ہیں اور ان نئے کھلاڑیوں کا تعلق نوشہرہ اور صوابی سے بھی ہے اس لیے اہم شخصیات اس معاملے میں شامل ہیں جو خوب سے خوب تر کی تلاش میں ہیں۔

اور یہ معاملہ صرف نوشہرہ اور صوابی تک ہی محدود نہیں بلکہ ساتھ ہی ڈی آئی خان سے تعلق رکھنے والی اہم حکومتی شخصیت بھی اس سارے معاملے میں سرگرم ہے کیونکہ ان میں سے کوئی بھی یہ موقع گنوانا نہیںچاہتا کہ وہ اپنے بھائیوں ،بیٹوں کے لیے اچھے سے اچھا محکمہ حاصل کرسکیں اور ان اہم شخصیات کے اس معاملے میں شامل ہونے اور مشاورت پر مشاورت ہونے کی وجہ ہی سے وزیراعلیٰ اب تک نئے وزراء کو محکمے نہیں دے سکے۔

ایک جانب تو وزیراعلیٰ اور صوبائی حکومت کے لیے یہ سارے معاملات اور محاذ ہیں تو ساتھ ہی دوسری جانب قبائلی اضلاع کے حوالے سے بھی اہم مسلہ وزیراعلیٰ کے احکامات کا منتظر ہے اور وہ یہ کہ دو سالوں سے قبائلی اضلاع کا بجٹ ،صوبائی بجٹ کا حصہ تو بنا دیا گیا ہے اور یہ دونوں بجٹ اکٹھے ہی پیش کیے جا رہے ہیں لیکن ان قبائلی اضلاع کو صوبائی مالیاتی کمیشن کے تحت الگ سے حصہ نہیں دیا جا رہا، مرکزاگر نیا قومی مالیاتی ایوارڈ جاری کرنے سے گریزاں ہے اور صوبوں کا مالی حصہ نہیں بڑھا رہا تو صوبائی حکومت بھی دانستہ یا نادانستہ طور پر یہی کچھ کر رہی ہے۔

بندوبستی اضلاع کی طرح قبائلی اضلاع کو بھی پی ایف سی کے تحت آبادی ، پسماندگی اور انفراسٹرکچر میں کمی کی بنیاد پر وسائل کی فراہمی ہونی چاہیے لیکن قبائلی اضلاع کو پی ایف سی کا حصہ نہیں بنایاجا رہا ہے جس کے باعث ان کے لیے مالی وسائل کا تعین بھی بغیر کسی فارمولے کے ہو رہا ہے تاہم قرائن بتارہے ہیں کہ اگلے مالی سال کے لیے صوبائی حکومت جو صوبائی مالیاتی ایوارڈ جاری کرے گی اس میں بندوبستی کے ساتھ قبائلی اضلاع کے لیے بھی مالی وسائل کا تعین کیا جائے گا ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔