جرمِ ضعیفی کی سزا اور فلسطین

خالد محمود رسول  اتوار 16 مئ 2021

ٹوِسٹ چاہے نیا ہے لیکن اصل کہانی تو وہی پرانی ہے، ایک صدی قبل شروع ہوئی کہانی جس نے 1967 کے بعد ایک نیا راستہ اختیار کر لیا؛ باہمی سلامتی اور سفارت کاری کے بجائے بزورزمین پر قبضے کا راستہ۔

اسرائیل کو یقین تھا اور ہے کہ امریکا اسے سپورٹ دیتا رہے گا؛ نوم چومسکی نے بے لاگ ردِعمل دیتے ہوئے کہا، اس مہم جوئی کا ایک ہی لانگ ٹرم ٹارگٹ ہے، کسی نہ کسی بہانے موجود فلسطینیوں کو بے دخل کرنا اور ہزار سال سے زیادہ باہر رہنے والے یہودیوں کو اس سرزمین کا قانونی وارث بنا کر لا بسانا!!!

اسرائیلی طیاروں کی وحشیانہ بمباری کے جواب میں حماس نے بھی راکٹوں کی بارش شروع کر کے جواب دیا ہے جس کا بیشتر حصہ اینٹی راکٹ ڈیفنس سسٹم آئرن ڈوم نے روک لیا، مگر پھر بھی کئی راکٹ اسرائیل میں نشانوں پر گرے۔ امریکا اور یورپی یونین نے گھڑے گھڑائے بیانات تاریخ بدل کر داغ دیے۔ سلامتی کونسل کا اجلاس ملتوی کرنا پڑا کہ امریکا قرارداد کے متن سے متفق نہ تھا۔ مسلم ممالک سے بھی مذمتی بیانات کے کاغذی راکٹ چھوڑے گئے۔ او آئی سی کا ایک آن لائن اجلاس ہوگا۔ اس میں بھی آن لائن مذمت، احتجاج اور مطالبات کیے جائیں گے۔

اللہ اللہ خیر صلّا۔ دنیا اور اسلامی ممالک کے اس ردِ عمل کی موجودگی میں اسرائیل مزید شیر ہوگیا۔ زمینی فوج بھی حملے کے لیے جمع ہو رہی ہے۔ اسرائیل کی آبادی میں مقامی عرب آبادی کا تناسب 20% کے لگ بھگ ہے، تمام تر کشیدگی اور مسلسل تعصب کے باوجود بہت سے شہروں میں دونوں مذاہب کے لوگ گزشتہ بیس سال سے قدرے امن کے ساتھ رہ رہے تھے ۔ مگر حالات کی تلخی اور کچھ مہینوں سے بڑھتے ہوئے خلفشار کا لاوا وہاں بھی یکدم پھوٹ پڑا۔ انتہاء پسند یہودیوں نے کئی عرب مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنایا اور عرب باشندوں نے یہ سلوک یہودیوں کے ساتھ کیا۔ ویڈیو کلپس کے مناظر دل دہلا دینے والے ہیں۔

نیتن یاہو بارہ سال سے اقتدار میں ہے۔ گزشتہ دو سال میں چار انتخابات کے باوجود سیاسی عدم استحکام بدستور جاری ہے ۔ تازہ ترین کوشش میں نیتن یاہو دائیں بازو کی انتہاء پسند جماعتوں کی حمایت کے باوجود حکومت بنانے میں ناکام رہا۔

صدر اسرائیل نے اپوزیشن لیڈریائر لیپڈ کو حکومت بنانے کی دعوت دی۔ اعتدال پسند، بائیں بازو اور پہلی بار مقامی عرب باشندوں کی مدد سے نئی حکومت بنانے کا کٹھن کام پر کام جاری تھا ، اگر یہ کوشش کامیاب ہو جاتی تو نیتن یاہو کے خلاف انکوائری تیزی سے اپنے منطقی انجام کی طرف جا سکتی تھی مگر اس دوران مسجد اقصیٰ میں تصادم اور بعدازاں حماس سے بدلے کے نام پر نیتن یاہو نے اپنے لیے ایک اور موقع ڈھونڈ نکالا ۔

اپوزیشن لیڈر کو عرب باشندوں کی حمایت حاصل کرنے اور حکومتی اتحادی بنانے پر پہلے ہی انتہاء پسندوں نے دشنام طرازی کی حدکر دی تھی۔ حالات کی اس نئی کروٹ نے اس کوشش کو بھی روند ڈالا۔ نیتن یاہو کمال عیاری اور سفاکی سے ایک بار پھر اپنے اقتدار کے لیے موقع کا فائدہ اٹھانے کی کوشش میں ہے۔

تصادم کا حالیہ سلسلہ الشیخ الجراح سے درجنوں فلسطینیوں کو ایک یکطرفہ قانون کی آڑ میں بے دخل کرنے کی مہم جوئی سے شروع ہوا۔ پچاس سالہ پرانے اسرائیل کے اس قانون کے مطابق کوئی بھی اسرائیلی یہودی اگر کسی بھی جائیداد پر 1948  قبل اپنے قبضے یا ملکیت کا قانونی ثبوت دے سکے تو اس جائیداد سے فلسطینیوں کو بے دخل کیا جا سکتا ہے، لیکن تعصب کی انتہاء یہ ہے کہ فلسطینیوں کے لیے قانون میں یہ گنجائش نہیں۔

اس قانون کی آڑ میں مشرقی یروشلم میں درجنوں فلسطینی خاندانوں کو بظاہر قانونی طور پر بے دخل کرنے کی مہم جاری ہے۔ اس قانون کی چھتری میں سیکڑوں کیسز دائر ہو چکے ہیں جن میں سے ایک کا فیصلہ اس سوموار کو سپریم کورٹ نے سنانا تھا جسے حالات کی کشیدگی کی وجہ سے ملتوی کیا گیا۔

بقول نوم چومسکی ٹوسٹ چاہے نیا ہے مگر اصل کہانی تو وہی پرانی ہے، ایک صدی قبل شروع ہوئی کہانی۔ مگر اس دوران مسلم ممالک اور مسلم امہ کے جرم ضعیفی کا ٹھیک ٹھیک اندازہ لگانے کے بعد اسرائیل کو مرگِ مفاجات بانٹنے سے بھلا کون روکے!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔