روسی امداد پر خاموشی کیوں؟

انیس باقر  اتوار 16 مئ 2021
anisbaqar@hotmail.com

[email protected]

ایک ماہ سے زائد ہو چکے کہ روسی صدر پیوتن نے اپنے وزیر خارجہ کو خصوصی ہدایت دے کر پاکستان روانہ کیا تھا،جس میں خطیر اقتصادی امداد کے علاوہ کراچی میں اسٹیل ملز کی بحالی اور سمندری پانی کو نمک سے پاک کرنے کا منصوبہ شامل تھا۔

پاکستان کے پرنٹ میڈیا نے روسی آفر کو ایک بلیک چیک سے تشبیہ دی۔ کراچی کے سمندری پانی کو نمک سے پاک کرنے کا جو منصوبہ روسی وزیر خارجہ نے پیش کیا اس کی پذیرائی کراچی کے عوام نے خصوصی طور پر کی، کیونکہ کراچی میں پینے کے صاف پانی کی بڑی قلت ہے۔ روس ایک ترقی یافتہ ملک ہے لیکن یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ روسی امداد کو کیونکر اہمیت نہیں دی جا رہی ہے۔

جہاں تک اطلاع ہے کہ روسی امداد کے اہداف پر مثبت انداز میں عمل جاری ہے کیونکہ کام کی نوعیت اس قدر وسیع ہے کہ اس کے اہداف کے حصول کے لیے وقت کی خاصی طوالت درکار ہے۔ صرف اسٹیل ملز کو ہی اگر ہدف اول بنا کر کام کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ بیس ہزار سے زائد نوکریوں کی جگہوں کو فوری طور پر پُر کرنا ہوگا۔ ظاہر ہے ایسی صورت میں اس سے مربوط اور بھی ہزارہا مسائل ہیں جن پر قابو پائے بغیر اسٹیل ملز کا پہیہ رواں نہیں ہو سکتا، پھر اس سے مربوط معیشت کے تانے بانے ہیں۔

ایسی صورت میں جن اہداف کا حصول ممکن ہے ان پر گہری نظر اور اعداد و شمار کی انتہائی شدید اور پرمغز ضرورت ہے۔ اسٹیل مل خود ایک لوہے کی دنیا ہے جہاں انتہائی درجہ حرارت پر لوہے کو پگھلانے کا عمل موجود ہے اور اس کے مقابل ایشیائی ممالک میں اس درجہ حرارت پر لوہے کو پگھلانے کا عمل موجود نہیں۔ اسی لیے اسٹیل ملز کے بنے ہوئے اوزار ایکسپورٹ کے نقطہ نظر سے قابل آفرین ہیں۔ پاکستان کے ایکسپورٹ کے اہداف جب بھی شمار کیے جاتے ہیں وہ قابل نمائش نہیں ہوتے کیونکہ پاکستان نے اپنی بنیادی مصنوعات کو اسٹیل ملز کے ذریعے فروغ نہیں دیا۔

یہاں تک کہ پاکستان کے چھوٹے چھوٹے اسٹیل کے اوزار بھی امپورٹ کیے جاتے ہیں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ بھارت نے ابتدائی طور پر اسٹیل ملز کے فروغ کو شروع سے اہمیت دی۔ لہٰذا ایکسپورٹ کی دنیا میں بھارت اپنے پاؤں پر کھڑا ہو گیا اور اپنے روپے کی قدر کو منوانے میں کامیاب رہا۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ بھارت کی ابتدائی صنعتی ترقی میں کانگریس پارٹی کا اہم کردار رہا ہے اور من موہن سنگھ نے ملک کو صف اول میں کھڑا کردیا۔ لیکن پاکستان میں سیاسی رہنماؤں نے اقتصادی ترقی کی بنیادی شجرکاری نہ کی بلکہ پاکستان کی واحد اسٹیل مل کو ناکام بنانے اور جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے حکمرانوں نے بھارت سے گٹھ جوڑ تک کرلیا تھا۔

ایسی صورت میں پاکستان کی اسٹیل ملز اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کے قابل بھی نہ ہوئی تھی کہ اس کو ناکام کرکے بند کر دیا گیا جس سے ملک میں بے روزگاری کا ایک سیلاب سا آگیا اور ملک اقتصادی ترقی کی راہ پر چلنے کے قابل نہ رہا۔ لہٰذا ملک کو اقتصادی ترقی کی راہ پر چلنے کے لیے جس ’’کل‘‘ کی ضرورت ہے اس کی بنیادی ضرورت محض اسٹیل ملز ہی پورا کرسکتی ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان کی آبادی کم ازکم بائیس کروڑ ہے جس کے اعداد و شمار مکمل طور پر حکومت پیش کرنے سے قاصر رہی ہے۔

پاکستان میں جہاں اسٹیل مل کی کمی تو موجود ہی ہے ہائیڈرو پاور کی بجلی کی کمی ایک بڑی حقیقت ہے کیونکہ دوسرے ایندھن سے بجلی پیدا کرنا بجلی کے نرخ میں اضافے کا باعث ہوتا ہے۔ پاکستان میں بجلی کی کمی ایک بہت بڑا عذاب ہے ۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے جس میں کپاس کا ایک اہم کردار ہے۔ مگر کپاس کے بنائے ہوئے دھاگے بھی مہنگے داموں فروخت ہوتے ہیں کیونکہ یہ دھاگے بجلی کی مشینوں پر تیار کیے جاتے ہیں۔ پاکستان میں ٹیکسٹائل ملز کا شعبہ مشکل میں رہتا ہے۔ اور آس پاس کے ممالک کے سامنے مضبوطی سے کھڑے ہونے کے قابل نہیں جب کہ چین اور بھارت بجلی کے نرخ کم ہونے کے باعث وہ اپنی مصنوعات کو آسانی سے فروخت کرتے ہیں۔ لہٰذا چین کا ہائیڈرو پاور میں پاکستان کی اعانت ایک بڑا واضح مثبت عمل ہے ۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان کے شہروں میں رہائشی آبادی جو صرف ایک یا دو منزل تک ہوتی تھی اب بلند بلڈنگوں کی شکل میں بڑے شہروں میں موجود ہے جس میں رہائش پذیر لوگوں کو پانی کی قلت کا سامنا ہے۔ لہٰذا آبی وسائل کی ضروریات نہ صرف انسانوں کے لیے بلکہ انڈسٹری کے لیے بھی حیات کا ضامن ہے۔ پاکستان کے حکمرانوں نے بڑے اور چھوٹے آبی ڈیم بنانے میں دلچسپی نہ لی جس کا نتیجہ پاکستان کی اقتصادی تنزلی کی شکل میں نمایاں ہو رہا ہے۔

امید ہے کہ موجودہ حکومت ملک کی اقتصادی ترقی کے لیے مددگار ملکوں کے ساتھ اپنا تعاون بڑھائے گی۔ ایک زمانہ تھا کہ بھارت روس سے قریبی اقتصادی تعلقات رکھتا تھا، مگر بھارتی موجودہ حکومت چونکہ مذہبی تعصبات کی ڈور میں الجھ گئی ہے، اس لیے اب اس کا روس سے ناتا ٹوٹ گیا ہے۔ اور اب وہ اسرائیلی سیاسی راہوں پر چل پڑی ہے ۔ لہٰذا پاکستان نے اس وقت جو روس کی طرف اقتصادی تعاون کی راہ میں شراکت داری شروع کی ہے اس سے ملک کی اقتصادی ترقی کی راہیں وا ہوتی ہیں۔ ابتدائی دور میں چین نے روس کی اقتصادی ترقی کی راہ پر چلنا گوارا کیا اور آج چین دنیا کی بڑی طاقتوں میں سے ایک ہے۔

حالیہ دنوں میں جب کورونا وبا دنیا بھر میں پھیلی تو مجھے پتہ چلا پاکستانی طلبا چین میں زیر تعلیم ہیں۔ پاکستانی حکومت کا یہ دوررس فیصلہ تھا ۔ اگر حکومت پاکستان اپنے ثقافتی اور تدریسی تعلق کو وسعت دے کر روس سے بھی تعلیمی معاہدہ کرتی کیونکہ چینی زبان کے مقابلے میں روسی زبان انگریزی سے قریب تر ہونے کی وجہ سے طلبا آسانی سے سیکھ اور پڑھ سکتے ہیں۔ بہرصورت چین سے تعلیمی اور تدریسی تعاون ملک کی ترکی کے لیے کافی مفید ثابت ہوگا لیکن ماضی کی حکومتوں نے روس سے تعلیمی اور تکنیکی تعاون حاصل نہ کیا۔ حالانکہ جب روس کے ساتھ سوویت یونین شامل تھا تو ملک کا نصف سے زیادہ زرعی رقبہ ایشیائی ممالک کا حصہ تھا اور روسی ریاستیں زرعی طور پر خودکفیل تھیں۔ لیکن اب روس صرف سرد ممالک کا حصہ رہ گیا ہے۔

لہٰذا وہاں بھی پاکستان زرعی تعاون کے میدان کو اپنی ضرورت کے تحت تعاون کا طلب گار ہو سکتا ہے۔ لہٰذا یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ پاکستان کو جہاں دیگر شعبوں میں تعاون کی ضرورت ہے وہاں زرعی شعبے میں بھی اندراج کی ضرورت ہے۔اس طرح پاکستان ان ملکوں کی فہرست میں نمایاں پوزیشن حاصل کرلے گا جو روس کے ساتھ اقتصادی اور سیاسی تعاون میں مصروف ہیں۔ اس وقت دنیا سرد جنگ کی لپیٹ سے باہر آچکی ہے اور وہ اقتصادی سیاسی اور سماجی تعاون کو فروغ دینے میں مصروف ہے۔

صرف یہی نہیں بلکہ بڑی جنگوں کے نرغے سے دنیا باہر آچکی ہے اور وہ اپنا ٹھکانہ دیگر سیاروں میں بنا رہی ہے، پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ اس وقت وہ اپنے سیاسی افق کو منور کرکے نئی دنیا کی چہل قدمی میں شریک ہو جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔