انشائے ماجد

رفیع الزمان زبیری  اتوار 16 مئ 2021

’’انشائے ماجد‘‘ عبدالماجد دریا بادی کی ادبی تحریروں کا دلچسپ مجموعہ ہے۔ مولانا ایک شگفتہ اور منفرد ادبی اسلوب کے بانی تھے اسی لیے ان کے قلم سے جو مضمون بھی نکلا، سدا بہار ہو گیا۔ ان کی اس کتاب میں کئی اہم شخصیتوں کا ذکر ہے۔

اکبر الٰہ آبادی کا ذکر کرتے ہوئے مولانا عبدالماجد لکھتے ہیں ’’اکبر اصلاح و تبلیغ کے کام میں تو ہمہ وقت لگے رہتے تھے لیکن مجادلہ و مکابرہ کیا معنی، مناظرہ ومباحثہ کی بھی نوبت نہ آنے دیتے اور خشونت تو وہ جانتے ہی نہ تھے۔ بس یوں ہی ہنستے بولتے کوئی چبھتا ہوا فقرہ کہہ جاتے تھے۔ شعر میں کہہ بھی تو گئے ہیں:

مذہبی بحث میں نے کی ہی نہیں

فالتو عقل مجھ میں تھی ہی نہیں

ایک روز میرے عین الحاد کے دنوں میں کہنے لگے ’’کیوں صاحب! آپ نے کالج میں عربی لی تھی نا؟‘‘ میں نے عرض کیا ’’جی ہاں۔‘‘ فرمایا ’’تو پھر آپ قرآن کبھی پڑھتے ہیں؟ مذہبی کتاب سمجھ کر نہ سہی، اس کی اعلیٰ لٹریری حیثیت سے تو آپ کو بھی انکار نہ ہوگا۔ کیا حرج ہے اگر عربی ادب سے اپنا تعلق قائم رکھنے کے لیے اسے کبھی کبھی پڑھتے رہیے۔

آخر انگریزی بھی تو پڑھتے رہتے ہیں۔ آپ کے لیے کوئی قید باوضو ہونے، قبلہ رخ بیٹھنے کی نہیں۔ وضو بے وضو جب جی چاہے کچھ پڑھ لیا کیجیے اور جو آیت پسند آجائے، اسے ایک دو بار دہرا لیا کیجیے، جیسے اچھے شعر کو دو چار بار پڑھ لیا جاتا ہے، اور جو نہ پسند آئے اسے سمجھ لیجیے کہ وہ آپ کے لیے نہیں۔‘‘ بس یہ حکیمانہ طریق تھا ان کی تبلیغ کا۔

’’ایک روز اور میرے اسی دورِ الحاد میں مجھ سے فرمانے لگے ’’کیوں صاحب! کبھی آپ کو اپنے بندہ ہونے میں بھی شک ہوا ہے؟ اللہ میاں کے مسئلے کو الگ رکھیے، صرف اتنا پوچھتا ہوں کہ آپ کو اپنے بندہ ہونے میں تو شک نہیں؟‘‘ میں نے عرض کیا ’’نہیں اس میں تو نہیں۔‘‘ بولے ’’بس پھر بیڑا پار ہے۔ اپنی بندگی کا احساس کرتے رہیے۔ آپ کے لیے اس قدر کافی ہے۔ اللہ کی معرفت کا دعویٰ کون کرسکتا ہے۔ سب کی یافت بس اپنے اپنے مقام تک رہی ہے۔ میرا ایک شعر سن لیجیے:

درد تو موجود ہے دل میں شفا ہو یا نہ ہو

بندگی حالت سے ظاہر ہے خدا ہو یا نہ ہو

مولانا عبدالماجد دریا بادی لکھتے ہیں ’’اپریل 1912 کی وہ گھڑی اور ستمبر 1912 میں یوم وفات پورے دس برس میرے تعلقات نیاز مندانہ برابر قائم رہے، روز بروز بڑھتے رہے۔ اس مدت میں، میں نے بہت کچھ سیکھا، بہت کچھ لیا، اکبر کے کلام سے بھی اور اکبر کی ذات سے بھی۔ خوش نصیب تھا میں کہ اتنے دن موقعہ استفادہ کا ملا۔ اپنے عقائد اور خیالات کی اصلاح میں، میں نے حضرت اکبر کا اثر چپکے چپکے غیر شعوری طور پر کام کرتے ہوئے پایا۔ وہ ابھی زندہ ہی تھے کہ میں بحمداللہ ازسر نو مسلمان بن چکا تھا۔

جب پہلی نماز حضرت اکبر کے ساتھ انھی کے مکان عشرت منزل میں ادا کی۔ ظہر کا وقت تھا۔ اس وقت ان کی خوشی کا کیا کہنا۔ یہ معلوم ہوتا تھا کتنی بڑی دولت خود انھی کو مل گئی ہے! وہ توحید کے عاشق تھے اور غیرت عشق کا ایک لازمہ ہے۔ توحید کی غیرت اتنی تھی کہ کوئی دوسرا تذکرہ، یہاں تک کہ اللہ کے پیاروں کا بھی زیادہ دیر تک سن ہی نہ سکتے تھے۔ جھٹ موضوع بدل توحید پر آجاتے اور آخر آخر تو فنا اور توحید یہی دو موضوع رہ گئے تھے۔‘‘

مولانا حالی کا ذکر کرتے ہوئے عبدالماجد دریا بادی فرماتے ہیں۔ ’’مسدس مد و جزر اسلام فرط شہرت سے محتاج نہ کسی تعریف کا، نہ کسی تعارف، نہ کسی نئی مدح و توصیف کا، نہ کسی جدید نقد و تبصرہ کا، ایک مسلسل داستان درد شروع سے آخر تک ہے۔ آخر میں بہ طور ضمیمہ ایک قصیدہ لگا ہوا ہے۔ شاعر مسلمان ہے اور مسلمان کی حیثیت سے اسلام اور مسلمانوں کا حال زار دربار رسالت میں عرض کر رہا ہوں۔ اس عرض و معروض میں اللہ اکبر کس قدر اخلاص اور کس قدر نیاز، کس درجہ تعلقِ خاطر ہے اور اصلاحِ حال کے لیے کس درجہ بے قراری!

اے خاصۂ خاصانِ رُسل وقتِ دعا ہے

اُمت پہ تری آ کے عجب وقت پڑا ہے

پندرہ بیس شعروں میں اپنے ’’حال‘‘ کا عبرت انگیز مقابلہ اپنے ’’ماضی‘‘ سے کرتے چلے گئے ہیں ۔

آگے پھر وہی مد و جزر، اقبال و زوال کی داستان سرائی ہے، لیکن پھر سنبھلتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس میں شکوہ کس کا اور شکایت کس کی؟

اے چشمہ‘ رحمت یابی انت و امی

دنیا پہ ترا لطف سدا عام رہا ہے

جس قوم نے گھر اور وطن تجھ سے چھڑایا

جب تُو نے کیا نیک سلوک ان سے کیا ہے

اس متن کی تھوڑی سی شرح کے بعد پھر متوجہ ہوتے ہیں:

برتاؤ ترے جب کہ یہ اعدا سے ہیں اپنے

اعدا سے غلاموں کو کچھ امید سوا ہے

امت میں تری نیک بھی ہیں بد بھی ہیں لیکن

دل دادہ ترا ایک سے ایک ان میں سوا ہے

آخر میں گویا دل چیر کے سامنے رکھ دیتے ہیں:

ہم نیک ہیں یا بد ہیں پھر آخر ہیں تمہارے

نسبت بہت اچھی ہے اگر حال برا ہے

گر دین کو جوکھوں نہیں ذلت سے ہماری

امت تری ہر حال میں راضی بہ رضا ہے

یہ دل کی شاعری اس کی تھی جس کے محض ایک خشک وعظ گو ناظم ہونے کا کس بے دردی اور ناانصافی کے ساتھ ایک عالم میں پٹ گیا تھا۔‘‘

مولانا محمد علی جوہر کا ذکر کرتے ہوئے عبدالماجد دریابادی لکھتے ہیں ’’محمد علی کا آخری سفر لندن کا دیکھنے میں تو گول میز کانفرنس کے لیے تھا اور حقیقت میں سفرِ آخرت ۔اکثرنے کہا کہ اب اس خاکستر کے ڈھیر میں کیا؟ لیکن جب وہ بولنے کھڑے ہوئے تو انگریز اور ہندو سب پکار اٹھے کہ یہ گوشت پوست کا بنا ہوا آدمی ہے یا ایک متحرک کوہِ آتش فشاں!

محمد علی نے کھل کر اور برملا کہا (گویا مستقبل کو دیکھ رہے تھے) ’’آزادی لینے آیا ہوں۔ یا تو آزادی لے کر جاؤں گا یا اپنی جان اسی سرزمین پر دے کر۔‘‘ مالک نے بندے کی لاج رکھ لی۔ جنوری 1921 کی چوتھی تاریخ اور شعبان 1350 ہجری کی پندرہویں شب عین اس وقت جب روئے زمین کے مسلمان اپنے پروردگار سے رزق کی، صحت کی، اقبال مندی کی، زندگی کی، مغفرت کی نعمتیں مانگ رہے تھے، مشیت الٰہی نے یہ نعمت ِ عظمیٰ دنیائے اسلام سے واپس لے لی۔ شاید اس لیے کہ اس کے ہم قوم اور ہم وطن اس نعمت کے اہل نہیںثابت ہوئے تھے۔

آزادی محمد علی کے ملک کو کیا ملتی، محمد علی کی روح کو البتہ مل گئی! بندہ اپنا ٹوٹا ہوا دل، ہزاروں داغ کھایا ہوا دل لے کر اپنے مولا کے حضور حاضر ہوگیا۔ عمر کل 53 سال پائی۔موت لندن میں آئی اور دفن کے لیے جگہ کہاں ملی؟ سرزمین قدس میں، قبلہ اول میں، ہیکل سلیمانی کے قریب جامع عمرؓ کے متصل! اقبال نے کہا، ذرا دیکھنا اپنے رسولؐ کا یہ عاشق و غلام جا کس راستے سے رہا ہے!

سوئے گردوں رفت زاں را ہے کہ پیغمبر گزشت

اس موت پر، اس مدفن پر رشک کس کو نہ آئے گا؟ پھر ماتم جس زور و شور سے سارے ہندوستان میں ہوا، ایک ایک شہر، ایک ایک قصبہ، گاؤں گاؤں میں ہوا۔ سارے عالم اسلام میں ہوا، اس کی نظیر تاریخ امت میں آسانی سے تو نہ ملے گی۔ اطلاع یہ ہے کہ قدس شریف میں ان کا مقبرہ ایک زیارت گاہِ خلائق بن گیا ہے۔ خود کہہ بھی تو گئے تھے:

ہے رشک ایک خلق کو جوہر کی موت پر

یہ اس کی دین ہے جسے پروردگار دے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔