دیو مالائی کردار اور اُن کی حقیقت

 راؤ محمد شاہد اقبال  اتوار 16 مئ 2021
’’جل پری‘‘ سے ’’یٹی‘‘ تک کہاں تک فرضی اور کتنا اصلی ہے۔

’’جل پری‘‘ سے ’’یٹی‘‘ تک کہاں تک فرضی اور کتنا اصلی ہے۔

جادو، جنتر منتر، جن، بھوت، پریت، دیو، پری اور ہم زاد ہمیشہ سے ہی انسان کی خصوصی توجہ کا مرکز و محور رہے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ الف لیلہ ہزار داستان ہو، یا قصہ چہاردرویش ہو یا پھر داستان امیر حمزہ کئی صدیاں بیت جانے کے بعد بھی اِن تمام اساطیری کتب کا مطالعہ آج کا جدید انسان بڑے شوق اور ذوق سے پڑھنا پسند کرتا ہے۔

دراصل غیرمرئی دنیا اور غیرمرئی مخلوق انسان کے لیے ایک ایسا لاینحل معما ہے، جسے وہ حل کرنا تو چاہتا ہے مگر تمام تر کوشش کے باوجود ، انسان جتنا اس مشکل گتھی کو سلجھا نے کی کوشش کرتا ہے وہ اُتنا ہی مزید اُلجھ جاتی ہے اور یوں اسرار اور تحیر سے بھرپور قدیم لوک داستانیں اور پرانے قصے مزید پراسرار ہوجاتے ہیں۔ زیرنظر مضمون میں صدیوں سے دنیا بھر کی مختلف تہذیبوں اور اقوام میں مقبول و معروف چند ایسے ہی دیومالائی کرداراور اُ ن کی حقیقت کااجمالی سا تذکرہ پیش خدمت ہے۔

٭جل پریاں

شاید ہی روئے زمین پر کوئی ایسا شخص رہتا ہو جس نے اپنے بچپن میں کبھی جل پری کی کہانی سُنی ہو اور نہ پڑھی ہو۔ دراصل جل پری کے قصے دنیا کی ہر تہذیب اور ثقافت میں جابجا سننے کو ملتے ہیں ۔ اس لیے جل پریاں کم ازکم خیال کی حد تو کسی بھی انسان کے لیے قطعاً کوئی اجنبی مخلوق نہیں ہیں۔ ہاں! یہ ضرور ہے کہ بعض لوگ جل پریوں کے وجود کے قائل ہیں جب کہ اکثر افراد کے نزدیک جل پری فقط ایک اساطیری و افسانوی کردار ہے، جسے قدیم قصہ گو حضرات نے اپنی کہانیوں میں جان ڈالنے کے لیے خود سے ہی تراش لیا تھا۔

یاد رہے کہ جل پری گہرے پانیوں میں رہنے والی ایک ایسی مخلوق کو کہا جاتا ہے، جس کا نچلا دھڑ مچھلی اور اُوپری جسم انسانی عورت کا ہوتاہے۔ عربی میں جل پری کو بنت البحر یعنی پانی کی بیٹی کہتے ہیںاور انگریزی زبان میں جل پریوں کے لیے لفظ Mermaids بولا جاتا ہے، جب کہ اُردو میں جل پری سے مراد ایک ایسی حسین و جمیل عورت نما پری ہے، جو پانی میں رہنا پسند کرتی ہے۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ جل پری پر دنیا بھر کے لوک اَدب میں لاکھوں کہانیاں یا قصے ہی موجود نہیں ہیں بلکہ تاریخ کی ہزاروں کتابوں میں بھی جل پری کے وجود پر بے شمار تحقیقی مواد دست یاب ہے، لیکن کسی بھی تحقیق دان کے لیے تاریخی حوالوں سے یہ ثابت کرنا بہت مشکل ہوگا کہ سب سے پہلے جل پری کا تصور انسانی ذہن میں کہاں سے اور کیسے آیا؟

بہت سی کہانیوں میں جل پریاں انسانوں سے باتیں کرتی دکھائی جاتی ہیں اور بہت سی داستانوں میں یہ صرف گانے گانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ مگر یاد رہے کہ تمام تاریخی تذکروں میں سے جل پری کا سب سے مستند اور دل چسپ تذکرہ کرسٹوفر کولمبس کی جانب منسوب کیا جاتا ہے۔

بتایا جاتا ہے کہ 1493کے سمندری سفر کے دوران جب کرسٹوفر کولمبس ڈومینیکن ریپبلک کے جزیرے کے پاس سے گزرا تو اُس نے سمندر کے پانی میں جل پریوں کو تیرتے ہوئے دیکھا تھا۔ ان جل پریوں کا نچلا دھڑ تو بالکل ویسا ہی مچھلی جیسا تھا جیسا کہ کولمبس اپنے بچپن کی کہانیوں میں سنتا آیا تھا مگر یہ جل پریاں اوپر سے اتنی حسین عورت کی مانند نہ تھیں، جتنا خوب صورت کہانیوں میں بتایا گیا تھا کیوںکہ ان کے چہروں میں کچھ مردانہ خصلتیں بھی تھیں۔

حیران کن بات تو یہ ہے کہ آج کے دورِ جدید میں امریکا میں باقاعدہ ایک ایسا گروہ موجود ہے، جو حقیقت میں جل پریاں بن کرزندگی گزارتا ہے۔ واضح رہے جل پری بن کر زندگی بسر کرنے والے یہ افراد مکمل انسان ہی ہیں۔ لیکن یہ لوگ جل پریوں کی کہانیوں سے اس قدر متاثر ہوچکے ہیں کہ یہ اپنی ٹانگوں پر مچھلی جیسا پلاسٹک کا لباس پہن کر اپنے نچلے دھڑ کو مچھلی جیسا بنا کر باقاعدہ پانی میں پیراکی کرتی رہتی ہیں۔ یہ جل پریاں مرفوک (Merfolk) کہلاتی ہیں۔

اس گروہ سے تعلق رکھنے والی ایک جل پری 32 سالہ کیٹلین بھی ہیں، جو اکثر اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر ’’جل پری ‘‘ کے بہروپ میں مختلف تصاویر اور ویڈیوز بھی شیئر کرتی رہتی ہیں۔

کیٹلین اپنی جل پری بننے کی کہانی کچھ یوں بیان کرتی ہیں کہ ’’مجھے بچپن سے ہی جل پری بننے کا بے حد شوق تھا، پہلی بار جب میں نے اِس شوق کا اظہار اپنی کلاس میں ٹیچر سے کیا تو پوری کلاس نے میرا خوب مذاق اُڑایا۔ بہرحال ایک دن مجھے انٹرنیٹ سے معلوم ہوا کہ مرفوک نامی ایک ایسا گروہ موجود ہے، جو آپ کو باقاعدہ جل پری بننے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ بس پھر کیا تھا، میں نے جل پری بننے کے لیے اپنی کل وقتی ملازمت کو خیرباد کہہ دیا اور جل پری بن کر اپنی برسوں پرانی خواہش کی تکمیل کرلی۔ اَب میں جب بھی جل پری بن کر پانی میں اُترتی ہوں اور اپنی دُم کے سہارے تیرنا شروع کرتی ہوں تو مجھے ایسے لگتا ہے کہ مجھ میں واقعی کوئی جادوئی طاقت آگئی ہے۔‘‘

جدید سائنسی تحقیقات کے مطابق بعض ماہرین ارضیات نے سراغ لگایا ہے کہ دنیا کے کئی سمندری جزیروں جل پریوں سے ملتی جلتی باقاعدہ ایک مخلوق آباد ہے۔ یہ دراصل سمندر میں پائی جانے والی سب سے بڑی آبی جڑی بوٹیاں ہیںجو دکھنے میں انسان نما مچھلیاں ہی نظر آتی ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ یہ سمندری جڑی بوٹی6 فٹ لمبی ہوتی ہے، جو کہ ایک بالغ انسان کے قد کے برابر ہے۔

نیز ان کے دو ہاتھ بھی ہوتے ہیں، جن میں پانچ انگلیاں نما ہڈیا ں بھی موجود ہوتی ہیں اور جب تیز ہوا چلے تو یہ آبی جڑی بوٹیاں انسانوں کی مانند اِدھر، اُدھر مُڑ بھی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ یہ کسی انسان کی طرح پانی میں کھڑی بھی ہوجاتی ہیں۔ شاید یہ وجہ ہے کہ جس کسی انسان نے اپنے سمندری سفر کے دوران سب سے پہلے انسانوں اور مچھلی جیسی انوکھی خصوصیات کی حامل اِن آبی جڑی بوٹیوں کو دور سے سمندر میں تیرتے ہوئے دیکھا تو وہ اِن پر جل پریوں کا گمان کر بیٹھا۔

٭ ایک سینگ والا گھوڑا

زیادہ تر مغربی ممالک کی قدیم دیومالائی داستانوں میں اِس ایک سینگ والے جادوئی گھوڑے کا تذکرہ ملتا ہے۔ انگریزی زبان میں اِسے یونی کارن  (Unicorns) کہا جاتا ہے۔ یہ ایک سینگ والا سفید جادوئی گھوڑا ہے، جس کے ماتھے کے عین بیچ میں سینگ ہوتا ہے۔ اس جادوئی گھوڑے کے مرکزی کردار پر اَب تک بے شمار فلمیں اور ڈرامے بنائے جاچکے ہیں ۔

ہمارے ہاں بھی اِس جادوئی گھوڑے کا تصور انگریزی ادب اور مغربی ممالک میں بننے والی فلموں کو دیکھ کر ہی آیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اِس جادوئی گھوڑے کا تعلق زمین کے بجائے دیوتاؤں کی سرزمین ہے، لیکن جب زمین پر موجود کوئی گروہ یا شخص سخت مشکلات میں گھر جائے تو اُس کی امداد کے لیے یہ جادوئی گھوڑا زمین پر اُتر آتا ہے۔ یہ گھوڑا اپنے سوار کو آسمان کی پے پناہ وسعتوں کی سیر کرواتا ہے اور غیرمرئی طاقت کا حامل ہونے کی وجہ سے اپنے پسندیدہ شخص کے لیے بظاہر ناممکن اُمور بھی بہ آسانی انجام دے سکتا ہے۔

سوال یہ ہے کیا ایک سینگ والا یہ جادوئی گھوڑا کبھی واقعی ہماری زمین پر ہوا کرتا تھا؟ سائنسی تحقیقات بتاتی ہیں کہ آج سے کئی ہزار سال پہلے سرد ممالک میں یہ ایک سینگ والا گھوڑا پایا جاتا تھا، لیکن یہ بالکل ایسا نہیں ہوتا تھا، جیسا کہ مغرب سے درآمد جادوئی کہانیوں یا فلموں میں دکھایا جاتا ہے۔

دراصل دریافت شدہ باقیات کے مطابق یہ سائبرین علاقہ یوریشیا میں پایا جانا والا ایک گینڈا نما قوی ہیکل جانور تھا، جو شکل و شباہت میں گھوڑے سے ملتا تھا۔ چوںکہ اُس زمانے کے لوگوں نے کبھی ایسا گھوڑا نہیں دیکھا تھا کہ جس کے ماتھے پر عین درمیان میں سینگ ہو۔ شاید یہی وجہ ہے کہ انہوں اس سائبرین گھوڑے سے پراسرار باتیں منسوب کرکے اُسے اپنی دل چسپ کہانیوں اور داستانوں کا مرکزی کردار بنالیا۔

ایک سینگ والے جادوئی گھوڑے کے اَب تک جو فوسل دریافت ہوئے ہیں اُن کے مطابق یہ انتہائی قوی الجثہ اور مضبوط جانور تھا جس کا وزن کم ازکم 4 ٹن ہوتا تھا اور اسے ہماری دنیا سے معدوم ہوئے 39000 ہزار برس کا طویل عرصہ بیت چکا ہے۔

ماہرین آثار کے مطابق دنیا بھر کے مختلف جنگلات میں پایا جانے والا گینڈا، اسی ایک سینگ والے جادوئی گھوڑے کی نسل کی ارتقائی صورت ہے۔ بہرحال سائنسی انکشافات اپنی جگہ پر مگر کئی مغربی ممالک میں اس جادوئی گھوڑے یونی کارن کو باقاعدہ ایک مذہبی تقدس حاصل ہے اور ان ممالک کے باسی آج بھی ایک سینگ والے جادوئی گھوڑے کے وجود پر کامل یقین رکھتے ہیں۔

٭انسان نما ریچھ
نیپال اور چین کے ہمالیہ پہاڑی سلسلے میں ایک انسان نما ریچھ پائے جانے کے متعلق کئی پراسرار داستانیں مشہور و معروف ہیں۔ خاص طور پر ہمالیہ پہاڑی سلسلے کے اردگرد بسنے والے نیپالی اور چینی آبادی اِس انسان نما ریچھ جسے مقامی زبان میں یٹی (Yeti) کہا جاتا ہے کے حقیقی وجود پر کامل اعتقاد رکھتی ہے۔ مقامی علاقے کے لوگ سمجھتے ہیں کہ یٹی پہاڑوں کی حفاظت پر مامور ایک عفریت ہے اور جو کوہ پیما پہاڑی چوٹیوں کو سر کرتے ہوئے پہاڑوں کے آفاقی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہیں، انہیں یہ انسان نما ریچھ اپنا لقمہ تر بنالیتا ہے، جب کہ ایسے کوہ پیما جو اپنی فطرت میں پہاڑوں سے خاص نسبت یا انسیت رکھتے ہیں، اُنہیں کوہ پیمائی کے دوران یٹی خاص امداد بہم پہنچاتا ہے۔

مقامی آبادی کی کہانیوں کے مطابق یٹی انسان کی طرح دکھائی دینے ایک دیوقامت ریچھ ہی نہیں ہے بلکہ وہ انسانوں کی باتیں سمجھ کر اُن سے کلام بھی کرسکتا ہے۔ واضح رہے کہ انسان نما ریچھ یٹی کا افسانوی کردار اُس وقت دنیا بھر کی خاص توجہ کا مرکز بنا تھا، جب 1921 میں ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے کے لیے کوہ پیماؤں کی ایک برطانوی ٹیم نے یٹی کو دیکھنے اور اس کے نقوش تلاش کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

اِس برطانوی کوہ پیما ٹیم سے انٹرویو کرنے والے صحافی ’’ہنری نیومین‘‘ نے اپنی رپوتاژ میں لکھا ہے کہ ’’کوہ پیماؤںکے مطابق یہ انتہائی طاقت ور اور ہیبت ناک بالکل انسان کی مانند دکھائی دینے والا ریچھ تھا، جس کے ساتھ اُن کا اچانک ہی آمنا سامنا ہوگیا تھا اور اُسے دیکھتے ہی ایک غار کی اوٹ میں چھپ گئے تھے، جس کی وجہ سے وہ اُس قوی ہیکل انسان نما ریچھ کے شر سے محفوظ و مامون رہے تھے۔‘‘ماہرین کے مطابق یہ یٹی دراصل ہمالیائی بھوری اور سیاہ ریچھ ہے۔ یہ ریچھوں کی وہ خاص دو نسلیں ہیں جو فقط ہمالیہ پہاڑی سلسلے میں پائی جاتی ہیں۔ یٹی کی طرح، دونوں ریچھ بڑے، بالوں والے اور بھوری (یا سیاہ ریچھ کی صورت میں سیاہ) ہیں، جب کہ اِن ریچھوں کے ڈی این اے ٹیسٹ میں یہ ثابت ہوا ہے کہ زیادہ تر بال، جلد، دانت، کھال وغیرہ یٹی سے تعلق رکھتی ہیں۔ یہ دراصل یٹی ریچھوں کی نسل سے ہی ہے۔

٭ ڈریگن
ہوا میں اڑتے اور آگ اگلنے والے ڈریگن دیومالائی قصوں میں پڑھنے کو ملتے ہیں۔ نیز آج کل ڈریگن ایڈونچر فلموں میں بھی جابجا نظر آتے ہیں۔ عام خیال یہی ہے کہ فضا میں اُڑتے ہوئے آگ کے شعلے منہ سے نکالنے والے ڈریگن حقیقت میں کہیں موجود نہیں ہوتے۔ ہم میں سے زیادہ تر افراد اس بات پر اس لیے بھی یقین کرتے ہیں کیوںکہ ہم نے اپنی پوری زندگی میں کبھی کسی ایسے ڈریگن یا چھپکلی نما مخلوق کا مشاہدہ نہیں کیا جو فضا میں اڑتی بھی ہو اور منہ سے آگ بھی نکالتی ہو۔ البتہ دل چسپ امر یہ ہے کہ جدید سائنسی تحقیقات کی روشنی میں میں فضا میں اڑنے اور آگ اگلنے والے ڈریگن کی موجودگی خارج از امکان نہیں ہے، کیوںکہ ماہرین ارضیات کو ڈریگن جیسی انوکھی خصوصیات کے حامل جان داروں کے باقاعدہ آثار بھی مل چکے ہیں۔

آئیے، اس امر کا جائزہ لیں کہ سائنسی طور پر ان کا وجود کیسے ممکن ہے۔ سائنس دانوں میں اس بات پر عمومی اتفاق ہے کہ ہماری دنیا میں موجود تمام پرندے، درحقیقت ماضی میں زمین کی فضاؤں اڑنے والے ڈریگن یا ڈائنوسارز کا تسلسل ہی ہیں۔ اس لیے یہ تو ماننا پڑے گا کہ بڑے جسم والے جان دار بھی اڑ سکتے۔ لیکن کیا اڑنے والا جان دار اتنا بڑا بھی ہو سکتا ہے کہ انسانوں اور مویشیوں کا شکار کر سکے؟ سائنس کے نزدیک اس سوال کا جواب بھی ہاں میں ہی ہے، کیوںکہ ماہرین ارضیات کو بڑے اڑنے والے جانوروں میں سے ایک ’’کیٹسیلکواٹلس نارتھراپی‘‘ کے فوسل یعنی باقیات کی صورت میں باقابل تردید وجودی شواہد مل چکے ہیں۔

واضح رہے کہ پروں کے ساتھ اس ڈریگن نما پرندے کا پھیلاؤ اندازاً 36 فٹ اور وزن دو سو سے ڈھائی سو کلوگرام تھا۔ سادہ الفاظ میں یوں سمجھ لیں کہ اس ڈریگن کا وزن کم و بیش دورِحاضر کے چیتے کے برابر تھا جو کسی بھی انسان یا بکری کو فضا سے اُڑتے ہوئے بہ آسانی شکار بنا سکتا تھا۔ سائنس کا یہ ماننا ہے کہ آج بھلے ہی ہمیں دنیا میں آگ اگلنے والا کوئی جانور دکھائی نہ دیتا ہو لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کسی اُڑتے ہوئے پرندے کے لیے آگ برسانا ناممکن عمل ہے۔

یاد رہے کہ بھنورے کی (Bombardier Beetle) نامی قسم کے ایک پرندے کے پیٹ میں ہائیڈروکوئنون اور ہائیڈروجن پر آکسائیڈ ہوتے ہیں اور جب بھی اسے خطرہ محسوس ہوتا ہے، یہ انہیں باہر پھینکتا ہے۔ یہ کیمیائی مرکب اس پرندے کے منہ سے باہر نکل کر ہوا کے ساتھ ایک خاص قسم کا ردعمل کرتے ہیں، جس سے انتہائی گرم آگ کے شعلے پیدا ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے اس کے دشمن کو سخت تکلیف پہنچتی ہے۔ اس اُصول کی بنیاد پر ماہرین کا ماننا ہے کہ ڈریگن بھی اپنے منہ سے آگ پیدا کرنے والے کیمیکلز اپنے جسم میں ذخیرہ کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔ اس لیے منہ سے آگ اگلنے کا عمل سائنسی طور پر عین ممکن ہے۔

تاہم جیسے ڈریگن فلموں میں دکھائے جاتے ہیں، اصل ڈریگن اُن سے قدرے مختلف ہوسکتے ہیں ۔ عام طور پر ہر تہذیب اور قوم کی کہانیوں میں ڈریگن کی مختلف جسامت اور جسمانی شکل پائی جاتی ہے۔ کچھ بہت بڑے تھے اور کچھ پستہ قامت۔ کچھ کے پنجے بہت تیز اور نوکیلے تھے، کسی کے بَلے کی مانند بڑے بڑے پنکھ تھے۔ بس ایک شئے جو ہر ڈریگن میں مشترک سمجھی جاتی ہے وہ ہوا میں اُڑتے ہوئے اس کی آگ اُگلنے کی انوکھی صلاحیت ہے۔

٭گوریلا
پانچویں اور چھٹی صدی کے درمیان گزرنے والے ایک سیاح ’’ہنو‘‘ (Hanno) کے ملنے والے دستاویزی مخطوطات میں سب سے پہلے گوریلا کا تذکرہ ملتا ہے۔ ہنو کے مطابق اُس نے مغربی افریقہ کی سیاحت کے دوران ساحلی جنگلات پر ایک ایسا قبیلہ دیکھا جس میں خواتین سے زیادہ مرد تھے، لیکن عجیب بات یہ تھی کہ سب کے جسم مکمل طور پر بالوں سے ڈھکے ہوئے تھے، جنہیں مقامی افراد ’’گوریلا‘‘ کے نام سے پکارتے تھے۔ ہنو نے لکھا ہے کہ ’’میں نے مقامی لوگوں کی مدد سے ایک گروہ تشکیل دیا اور اس قبیلے کا پیچھا کیا لیکن وہ سب کے سب فرار ہوگئے۔ گوریلا مرد قوی الجثہ ہونے کے باوجود کافی تیز و طرار تھے اور ہمیں دیکھتے ہی وہ بڑی تیزرفتاری کے ساتھ پہاڑوں پر چڑھ گئے، جہاں سے انہوں نے ہم بڑے بڑے پتھروں کو پھینکا اور پتھروں کی برسات سے بچنے کے لیے ہم نے اُن کا پیچھا ترک کردیا۔‘‘

واضح رہے کہ گوریلا برسوں سے انسانوں کی لوک داستانوں کا اہم ترین کردار رہا اور اِس کے حوالے سے عجیب و غریب داستانیں دنیا کی ہر تہذیب میں مقبول و معروف ہیں۔ خاص طور ایسے علاقے جہاں بڑے اور گہرے جنگلات تھے، وہاں رہنے والے گوریلے کے وجود کے صرف قائل ہی نہیں تھے بلکہ اِن سے خوف بھی کھاتے تھے۔ 1847 میں امریکی ماہرین کی ایک ٹیم نے ایک بار پھر سے گوریلا کو افریقہ کے جنگلات میں دریافت کرنے کا دعویٰ کیا اور اُن میں سے کئی ایک کو قیدی بنا کر چڑیا گھر وغیرہ میں بھی لے آئے۔

بہرحال جدید تحقیقات کے مطابق گوریلا انسان نہیں بلکہ بندر ہیں اور زیادہ تر گوریلا انسانوں کے لیے قطعی بے ضرر ہوتے ہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اَب تو گوریلا اور انسان کی دوستی بھی ہونے لگی ہے۔ ایک غیرملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق افریقی ملک کانگو میں ایسا شخص بھی ہے جو ناصرف گوریلوں کو اپنا بچہ سمجھتا ہے بلکہ ان کے ساتھ سیلفیز بھی بنواتا ہے۔ ’’پیٹرک سادیکی‘‘ نامی شہری ایک گوریلا کیئر سینٹر میں ملازمت کرتا ہے جہاں اس نے تمام گوریلوں کو اپنا دوست بنالیا ہے، پیٹرک گوریلوں کے ساتھ دن بھر کھیلنے کے علاوہ روزانہ تصویریں بھی بنواتا ہے۔

شاید آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ کیلیفورنیا گوریلا فاؤنڈیشن میں ’’کو کو‘‘ نامی ایک ایسی مادہ گوریلا بھی رہ چکی ہے جو باقاعدہ انسانوں کے ساتھ امریکن سائن لینگویج میں بات چیت کرسکتی تھی۔ یاد رہے کہ ’’کو کو‘‘ انگریزی زبان کے تقریباً 2 ہزار الفاظ سمجھ سکتی تھی۔ صرف یہ ہی نہیں بلکہ انہیں باہم ملا کر کسی اور معانی میں بھی استعمال کر سکتی تھی۔ مثلاً وہ انگوٹھی کا مطلب بتانے کے لیے انگلی اور بریسلٹ کی علامتوں کو یکجا کردیتی تھی اور اگر اسے بطخ کے بارے میں بتانا ہوتا تھا تو وہ پانی اور پرندے کا سمبل جوڑ کر بتادیتی تھی۔

طویل عرصہ تک گوریلا ’’کوکو‘‘ کی تربیت کرنے والی ماہرحیوانیات فرانسس پیٹرسن کے مطابق انہوں نے مادہ گوریلا کو یہ لفظ نہیں سکھائے تھے، اور یہ اس کی اپنی صلاحیت تھی کہ وہ چیزوں کو منفرد انداز میں دیکھ سکتی تھی۔ کوکو کے اس کارنامے کے سبب اسے عالم گیر شہرت حاصل ہوئی تھی۔ انگریزی زبان کے بارے میں 46 سال سیکھنے اور بے شمار انسانوں کو اپنا دوست بنانے والی ’’کوکو ‘‘گوریلا 21 جون 2018 کو ووڈسائڈ، کیلیفورنیا میں گوریلاا فاؤنڈیشن میں اپنے مصنوعی گھر میں انتقال کرگئی۔

٭کریکن
اگر آپ نہیں جانتے تو چلیں ہم بتائے دیتے ہیں کہ کریکن دنیا کا سب سے خوف ناک سمندری عفریت تصور کیا جاتا ہے۔ کریکن کو اُردو زبان میں ’’سمندری اژدھا‘‘ یا ’’سمندری عفریت‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔ قدیم زمانے سے سمندری سفر کرنے والے ملاح بتاتے ہیں کریکن ایک بہت بڑا اژدھا نما سمندری جان دار ہے جو بڑے بڑے جہازوں کو ڈبونے کی طاقت رکھتا ہے۔ نیز یہ جہازی عملے کو کھانے کا بھی شوقین ہے۔ کریکن سے منسوب داستانوں پر اَب تک ہالی وڈ میں کئی معرکتہ الآرا ء فلمیں بنائی جاچکی ہیں۔

کیا کریکن حقیقت میں سمندر میں موجود ہوتا ہے؟ جدید سائنسی تحقیقات کے مطابق ہاں، یہ واقعی موجود ہے۔ لیکن نام نہاد کریکن دراصل دیوہیکل سکویڈ ہے، جو بہت بڑا ہے، لیکن قصہ گو ملاحوں کے دعوؤں کے یکسر برعکس یہ کافی چھوٹا بھی ہے اور بے ضرر بھی۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اس نے کبھی کوئی جہاز نہیں ڈبویا، بظاہر یہ جہاز ڈبونے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن یہ اتنا بے ضرر ہے کہ جہاز دیکھ کر خود ہی ایک طرف ہوجاتا ہے، جب کہ یہ انسانوں کو تو بالکل بھی اپنی خوراک نہیں بناتا۔ کریکن پہلی بار لوک داستانوں سے اُس وقت حقیقت کی جانب منتقل ہوا، جب 1853 ڈنمارک کے ایک ساحلی کنارے پر ’’سکویڈ ‘‘ کی باقیات پائی گئیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ دیو ہیکل سکویڈ ویسا ہی مضحکہ خیز اور خوف ناک تھا، جیسا کہ اس کا لوک داستانوں میں تذکرہ کیا جاتا تھا۔

ماہرین کی محدود معلومات کے مطابق یہ سمندر کی انتہائی گہرائی میں رہتا ہے اور اس کی حد نگاہ گہرے سمندر میں بھی 18 میٹر تک ہوتی ہے۔ یہ اپنی بھوک مٹانے کے لیے زیادہ تر چھوٹی اور کم زور وہیل مچھلی کا شکار کرنا پسند کرتا ہے اور جب کبھی اس کا سامنا کسی دیوہیکل وہیل مچھلی سے ہوجائے تو بجائے مقابلہ کرنے کے بھاگ جاتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔