کورونا وبا کے دوران بچوں کی لاوارث چھوڑنے کی شرح میں اضافہ

آصف محمود  پير 17 مئ 2021
لاوارث بچوں میں زیادہ تعداد بچیوں کی ہوتی ہے  فوٹو: فائل

لاوارث بچوں میں زیادہ تعداد بچیوں کی ہوتی ہے فوٹو: فائل

 لاہور: کورونا کی وجہ سے زندگی کے کئی شعبے متاثرہوئے ہیں تاہم مختلف وجوہات کی بنا پر نوزائیدہ بچوں کو اسپتالوں اور ویران جگہوں پر پھینکنے کے واقعات کم نہیں ہوسکے ہیں۔

لاہور کے چائلڈ پروٹیکشن بیورو میں اس وقت درجن سے زائد ایسے بچے موجود ہیں جن کولاوارث چھوڑ دیا گیا ہے۔ رواں سال کے دوران صرف لاہور میں 27 لاوارث بچے یہاں لائے گئے جن میں سے زیادہ تعداد بچیوں کی ہے، چائلڈ پروٹیکشن بیوروکی چیئرپرسن سارہ احمد کا کہنا ہے جسمانی معذوری کا شکار اور لڑکیوں کو بے اولاد جوڑے گود نہیں لیتے ہیں۔

چائلڈپروٹیکیشن بیورو میں رواں سال کے پہلے تین ماہ کے دوران مجموعی طور پر 27 نوزائیدہ بچے لائے گئے جن میں 8 لڑکے اور 19بچیاں ہیں ۔ نرسری میں اس وقت مجموعی طور پر 34 بچے مقیم ہیں ان میں سے 8 کی عمر ایک سال سے بھی کم ہے۔ ان لاوارث بچوں میں سے اب تک 10 بچوں کو صاحب حیثیت اور بے اولاد جوڑوں نے گود لے چکے ہیں۔ یہاں موجود بے سہارا اور لاوارث بچوں میں ننھا بچہ ذیشان بھی ہے، یہ بچہ گزشتہ سال اپریل میں شاہدرہ ٹیچنگ اسپتال سے یہاں بھیجا گیا تھا، بچہ ویسے توشرارتی اورصحت مند ہے تاہم اس کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں۔

چائلڈ پروٹیکشن آفیسر نازیہ زیب نے بتایا کہ جب اس بچے کو یہاں لایا گیا تو چند روزبعد ایک فیملی یہاں آئی جن کا دعوی تھا کہ یہ بچہ ان کا ہے مگر جب ان سے بچے کی پیدائش کا سرٹیفکیٹ یابچے سے رشتے کا کوئی ثبوت مانگا گیا تووہ فیملی واپس چلی گئی اور واپس نہیں آئی تھی۔اب بیورو ہی ذیشان سمیت یہاں موجود دیگر بچوں کا ٹھکانہ ہے اورہم ماں ،باپ کی طرح ان بچوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ جب بیورومیں کوئی نوزائیدہ بچہ لایاجاتا ہے تو ہم سب جمع ہوجاتے ہیں بچے یا بچی کا نام رکھتے ہیں، اس کے کان میں اذان دی جاتی ہے ،اس کا ڈاکٹرسے مکمل طبی معائنہ کرواتے ہیں اور ڈاکٹر کی تجویز کے مطابق ان بچوں کو خوراک دی جاتی ہے۔ بچے اتنے معصوم ہوتے ہیں کہ چند ہی دنوں میں ان سے پیاراورلگاؤ ہوجاتا ہے لیکن جب ان بچوں کو کوئی بے اولاد جوڑا گودلیتا ہے توپھرخوشی بھی ہوتی ہے کہ ان کو ایک خاندان اورماں باپ مل گئے ہیں۔

چائلڈپروٹیکشن بیورو کی چیئرپرسن سارہ احمد کہتی ہیں کوویڈ 19 کے باوجود لاوارث چھوڑے جانے والے بچوں کی تعداد کم نہیں ہوئی ہے، ہر ماہ کم ازکم تین چار بچے ملتے ہیں۔ کوئی انہیں اسپتال میں چھوڑ جاتا ہے اورکوئی کسی کوڑے کے ڈھیرپرپھینک دیتا ہے۔ بچوں کو قبول نہ کرنے کی تین بڑی وجوہات ہیں ایک وجہ و ہ والدین ہیں جو بچے تو پیدا کرتے ہیں لیکن غربت اورمعاشی حالات کی وجہ سے ان کی پرورش نہیں کرپاتے۔ دوسری وجہ ہماری سوسائٹی کے کچھ حصے میں بیٹیوں سے متعلق پائی جانے والی منفی سوچ ہے ،اگر کسی گھر میں بار بار لڑکی پیدا ہوتی ہے تو ایسی خواتین بھی پھر سسرال والوں کے خوف سے نوزائیدہ بچیوں کو اسپتالوں میں چھوڑ جاتی ہیں اور ایک وجہ بے راہ روی بھی ہے۔ غیرشادی شدہ مائیں اپنا گناہ چھپانے کے لئے بچوں کو کوڑے کے ڈھیر یا کسی ویرانے میں پھینک جاتی ہیں۔

سارہ احمد نے بتایا کہ لاوارث بچوں میں زیادہ تعداد بچیوں کی ہوتی ہے، 70 فیصد بچیاں یہاں لائی جاتی ہیں۔ جس طرح کچھ لوگ اپنی اولادکوجنم دینے کے بعد چھوڑدیتے ہیں اسی طرح کئی بے اولاد جوڑے جو اس نعمت کے لئے ترستے ہیں وہ انہیں گود لے لیتے ہیں، چائلڈپروٹیکشن بیوروکی خصوصی عدالت بچوں کو گود دینے کا فیصلہ کرتی ہے۔

سارہ احمد کے مطابق زیادہ ترجوڑے ایسے بچوں کوپسند کرتے ہیں جو کسی ذہنی اور جسمانی معذوری کا شکار نہ ہوں اور دوسرے نمبر پر لڑکوں کو گود لینے میں زیادہ ترجیح دی جاتی ہے۔ وہ ایسے افرداسے اپیل کرتی ہیں کہ معمولی معذوری کا شکار بچوں کو بھی گود لیں، انہوں نے مثال دی کہ چند ہفتے قبل ایک بچی کو گود لیا گیا،اس بچی کو یورین بیگ لگا تھا تاہم جس فیملی نے بچی کو گود لیا انہوں نے ایک معمولی آپریشن کروایا جس سے وہ بچی صحت مند ہوگئی۔ اب جب بچوں کو گود لینے والے جوڑے ان کی سالگرہ مناتے ہیں اور ان کی تصاویربھیجتے ہیں تو وہ اللہ کا شکراداکرتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔