آہ ! فلسطین

ظہیر اختر بیدری  منگل 18 مئ 2021
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

کیا فلسطینی عوام پرندے ہیں جن کا شکار کیا جا رہا ہے؟ جب ہم ٹی وی پر ملٹی اسٹوریز بلڈنگ کو مٹی کے ڈھیر کی طرح گرتے دیکھتے ہیں تو اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو زندہ باد کہنے کو جی چاہتا ہے، فلسطینی چڑیوں کی طرح مارے جا رہے ہیں ان کی لاشیں اور گرتی ہوئی ملٹی اسٹوریز بلڈنگز کو ساری دنیا خاص طور پر اسلامی دنیا دیکھ رہی ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے سب کو سانپ سونگھ گیا ہے۔

دنیا میں ایک ارب کے لگ بھگ مسلمان ہیں جو پچاس سے زیادہ ملکوں میں پھیلے ہوئے ہیں، کیا سوائے زبانی جمع خرچ کے کسی مسلم ملک کی طرف سے اس حوالے سے کوئی عملی اقدامات کیے جا رہے ہیں؟ مانا کہ اسرائیل بہت طاقتور ملک ہے لیکن کیا او آئی سی کے مجموعی ملکوں کی طاقت اسرائیل سے کم ہے۔ یہ ایسا سوال ہے جس کا جواب دیتے ہوئے شرمندگی محسوس ہوتی ہے۔

دنیا انسانوں کے رہنے کی جگہ ہے کیا وہ لوگ انسان کہلائے جا سکتے ہیں جو انسانوں کو مکھی مچھر کی طرح مارتے ہیں؟ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسرائیل میں اتنا دم خم کہاں سے آگیا اسرائیل مسلمانوں کی اجتماعی طاقت کو جن میں پاکستان بھی شامل ہے کیا اتنا کمزور سمجھتا ہے کہ جب چاہے فلسطینیوں کو تیتر بٹیر کی طرح ماردے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس کے پیچھے امریکا کھڑا ہے، بے شک امریکا سپر پاور ہے لیکن اب امریکا اکیلا ہی سپر پاور نہیں، بلکہ روس بھی ہے چین بھی ہے یہ ایسے بڑے اور آزاد ملک ہیں جو دنیا کے مظلوم عوام کی مدد کرسکتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ ملک ظالم اور مظلوم ملکوں میں فرق کرنے کے اہل ہیں تو ان کی زبانیں کیوں نہیں کھلتیں؟

کیا روس اور چین امریکا سے خائف ہیں۔ بے شک امریکا ایٹمی طاقت ہے لیکن روس اور چین بھی ایٹمی طاقت ہیں اور امریکی گٹھ بندی سے باہر ہیں پھر انھیں مظلوموں کی مدد کرنے میں کیا امر مانع ہے؟

دنیا میں مظلوموں کی مدد کرنے کے لیے دنیا کے اکابرین نے اقوام متحدہ بنا رکھی ہے لیکن یہ ادارہ فالج کا شکار ہے نہ اس کی زبان کام کرتی ہے نہ ہاتھ پاؤں ، بس یہ اس وقت فالج سے باہر آتا ہے جب امریکا کا کوئی یار غار ملک تکلیف میں ہو۔

میں نے ٹی وی کی اسکرین پر غزہ میں فلسطینیوں کے مکانوں کو بتاشوں کی طرح گرتے اور ان بلڈنگوں میں رہنے والوں کو ملبے تلے دبتے ہوئے دیکھا ہے۔انسان کو اشرف المخلوقات کہا جاتا ہے کیا اسرائیلی اور ان کے سرپرست امریکا کو بھی اشرف المخلوقات کہا جاسکتا ہے؟

یہ ایسا سوال ہے جس پر دنیا کے دانشوروں، ادیبوں، شاعروں، فنکاروں، اہل علم کو غور کرنا چاہیے لیکن ان کے پاس غالباً ایسے فالتو کاموں کے لیے وقت نہیں۔ وقت ہوتا تو نہ کشمیر اس طرح سڑتا نہ فلسطین۔اس سے پہلے بھی ہم نے لکھا ہے اور اب بھی لکھ رہے ہیں کہ امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں سے کبھی منصفانہ مسئلہ پر سپورٹ کی توقع کرنا حماقت سے کم نہیں۔

اقوام متحدہ میں تو مختلف قوموں کے لوگ شامل ہیں اس کے علاوہ خالص مسلمانوں کا ایک ادارہ ہے جسے بے بس ہی کہا جاسکتا ہے حیرت ہے کہ اس ادارے نے فلسطین کے ایشو پر ایک ہنگامی اجلاس بلایا ہے۔ ایک پرو امریکا اور بے بس ادارے سے حق و انصاف کی حمایت کی کس طرح امید کی جاسکتی ہے۔

تازہ خبر کے مطابق اسرائیل نے غزہ میں ایک مہاجر کیمپ پر بمباری کی ہے یہ مہاجر کیمپ فلسطینیوں کا ہی تھا اس شیطانی بمباری سے ایک ہی فلسطینی کیمپ میں رہنے والے 10 فلسطینی شہید ہوگئے۔ دس فلسطینیوں کی جگہ اگر دو اسرائیلی مارے جاتے تو اندھا دھند بمباری سے سیکڑوں فلسطینیوں کو شہید کردیا جاتا یہ امتیازی سلوک کب تک چلتا رہے گا کیا کوئی اسے روکے گا؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔