بچپن میں طے کردہ رشتے تعلقات میں بگاڑ کا سبب

نسرین اختر  منگل 18 مئ 2021
اس قدیم روایت کو مشروط رکھ کر بہت سے مسائل سے بچا جا سکتا ہے۔

اس قدیم روایت کو مشروط رکھ کر بہت سے مسائل سے بچا جا سکتا ہے۔

شادی تو ایک مذہبی وسماجی فریضہ ہے، لیکن نسل در نسل چلنے والی کچھ روایات ایسی ہیں جنھیں آج بھی اچھا سمجھا جاتا ہے اور والدین ان روایات کے منفی اثرات سے آنکھیں بند کیے عمل پیرا ہیں۔

جیسے بچپن میں شادی یا منگنی کر دینا ایسے فیصلے ماضی کی طرح آج بھی بعض اوقات بچوں کی زندگی کو بہت زیادہ مشکلات کا شکار کر دیتے ہیں اور بڑوں کو شاید اس کا احساس تک نہیں ہوتا ہے کہ جلد بازی میں اٹھایا جانے والا قدم بچوں کی زندگی تباہ کرنے کا باعث بن گیا ہے۔ آخر بچپن میں رشتہ طے کرنے کا مقصد کیا ہے؟

عموماً گاؤں دیہات اور بعض شہروں میں بھی کچھ برادریاں اور خاندان اپنی پرانی ریت رسموں کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔ ان کے ہاں بچپن میں طے کی جانے والی شادیاں بہت عام ہیں، جو اکثر بے جوڑ شادیاں ثابت ہوتی ہیں۔ اکثر یوں ہوتا ہے کہ نوزائیدہ بچی کا رشتہ پندرہ یا اس سے بھی زیادہ عمر کے لڑکے سے کر دیا جاتا ہے یا بڑی عمر کی لڑکیوں کا نکاح نو عمر لڑکوں سے کر دیا جاتا ہے۔ یا کبھی تو پیدائش سے قبل ہی خاندان کے بزرگ اعلان کردیتے ہیں کہ اگر لڑکی ہوئی تو یہ فلاں کی منگ ہوگی اسے گاؤں دیہات میں ’ٹھیکرے کی مانگ‘ کہا جاتا ہے۔

بعض خاندانوں میں سالوں سے جاری دشمنی ختم کرنے کے لیے بھی اس طرح کی شادیاں طے کرا دیتے ہیں تو کہیں ادلے بدلے کی کر دی جاتی ہے جسے اصطلاحاً ’’وٹہ سٹہ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس رسم کی وجہ سے اکثر لڑکیوں کو اپنے بھائی یا باپ کی دوسری شادی کے لیے خود کو قربان کرنا پڑتا ہے تو بعض اوقات ایک گھر خراب ہونے سے دوسرا گھر بھی خراب ہوجاتا ہے۔ برسوں سے جاری اس رسم کے ذریعے لڑکیاں اپنی مرضی کے بغیر رشتے کے بدلے رشتہ کے بندھن میں باندھی جا رہی ہیں۔ روایتی گھرانے اس طریقۂ کار کو کام یاب شادی کی ضمانت سمجھتے ہیں۔ دیہی علاقوں میں شہروں کی نسبت ایسی شادیوں کا رواج عام ہے۔

بچپن میں طے کیے گیے رشتے میں رضا مندی کا تو سوال ہی نہیں ہے۔ بچپن میں تو اس کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہوتا، مگر جیسے جیسے بچے شعور کی منزلیں طے کرتے جاتے ہیں ویسے ویسے انہیں اس باہمی رشتے کی سمجھ آتی جاتی ہے اور ساتھ ہی ان کے خیالات میں بھی تبدیلی آجاتی ہے، اگر جوانی میں کسی ایک کا خیال تبدیل ہو جائے، تو دوسرے کی زندگی پر اس کے خاصے مہلک اثرات مرتب ہوتے ہیں، بالخصوص لڑکیوں کو بہت زیادہ مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بچپن میں طے کی گئی نسبت کے باعث بچوں کا بچپن بہت جلد ختم ہو جاتا ہے۔

خاندان کے لوگ بچوں کو ایک دوسرے کی نسبت سے پکارتے ہیں اور مذاق کرتے ہیں، یوں ان کی معصومیت گویا چھن جاتی ہے۔ بچے کھیل ہی کھیل میں بھی اس نسبت کو ظاہر کرتے ہیں اور لڑائی کی صورت میں اس نسبت سے انکاری بھی ہو جاتے ہیں اور بعض اوقات بالخصوص لڑکے اپنی منگیتر پر رعب بھی جمانے لگتے ہیں اور انھیں اپنی ملکیت سمجھتے ہوئے کسی کزن وغیرہ سے ملنے یا بات کرنے پر بھی اعتراض کرتے ہیں اور بعض اوقات تو لڑکے شک و شبہے کا شکار ہو جاتے ہیں ان وجوہات کی بنا پر نہ صرف لڑکی کی زندگی متاثر ہوتی ہے بلکہ دو خاندانوں کے درمیان تلخیاں جنم لینے لگتی ہیں۔ بعض گھرانوں میں یہ صورت حال خاصی اذیت ناک ثابت ہوتی ہے۔

بچپن کی نسبت اگر ختم ہوجائے تو دو گھرانوں میں رنجش پیدا ہو جاتی ہے، جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اتنی بڑھ جاتی ہے کہ کئی رشتے چھوٹ جاتے ہیں جو کہ ذہنی اذیت کا باعث بھی ہے اور قطع رحمی بھی۔ بعض اوقات لڑکا یا لڑکی میں سے کوئی زیادہ تعلیم حاصل کرلے تو ان کے خیالات میں فرق آنے لگتا ہے ایک فریق دوسرے کو اپنے معیار کا نہیں سمجھتا جس کا نتیجہ اکثر یہ نکلتا ہے کہ پہلے سے طے شدہ رشتہ ٹوٹ جاتا ہے یا اگر لڑکی زیادہ تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہو ڈاکٹر، وکیل، لیکچرار یا کسی دوسرے شعبے میں اپنی صلاحیتیں آزمانا چاہتی ہو تو لڑکے گھر والے لڑکی اعلیٰ تعلیم کی مخالفت کرتے ہوئے پابندی لگا دیتے ہیں کہ ہمیں اعلیٰ تعلیم یافتہ بہو نہیں چاہیے یا ہمارا بیٹا کم پڑھا لکھا ہے تو بیوی زیادہ پڑھی لکھی نہ ہو۔ بعض اوقات دونوں فریقین کا معیار تو ایک جیسا ہی ہوتا ہے، مگر ان میں ذہنی ہم آہنگی نہیں ہوتی یا کوئی ایک فریق کسی اور کو پسند کرنے لگے تو بھی بچپن کی نسبت ختم ہونے کی وجہ بن جاتی ہے۔ بعض اوقات لڑکا لڑکی خود بھی جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی بچپن کے طے شدہ رشتے کی مخالفت شروع کر دیتے ہیں، کیوں کہ ان کو لگتا ہے کہ ہمارے معیار الگ ہیں یا ذہنی ہم آہنگی کا فقدان ہے۔ جس کی وجہ سے ایک دوسرے کو پسند نہیں کرتے تو زندگی کیسے گزرے گی۔

یہ درست ہے کہ والدین اپنی طرف سے تو اولاد کا بھلا ہی چاہتے ہیں۔ وہ خلوص نیت سے ہی بچوں کے رشتے طے کرتے ہیں، مگر عام طور پر ایسا کرنا بچوں کے لیے بہت مہنگا ثابت ہوتا ہے، عموماً بچپن میں طے کیے گیے رشتے بچوں کے جوان ہونے پر ایک مشکل صورت حال پیدا کر دیتے ہیں، وہ دُہری مشکل کا شکار ہو جاتے ہیں۔ رشتہ پسند نہ آنے کی صورت میں انکار کرتے ہیں تو دو گھرانوں میں کشیدگی ہو جاتی ہے۔ ماں باپ بھی ناراض ہوجاتے ہیں نیز زبردستی شادی کرنے کی صورت میں لڑکا لڑکی کی زندگی ناخوش گوار گزرتی ہے۔

ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ بچپن میں طے کیے گیے رشتے جوان ہونے پر ہر لحاظ سے کام یاب ثابت ہوں۔ ناسمجھ بچوں کا رشتہ طے کرتے ہوئے والدین کو کئی بار سوچنا چاہیے۔ ایسا نہیں کہ ایسے رشتے ہمیشہ ناکام ثابت ہوئے ہیں، مگر زیادہ تر بچپن کے طے کردہ رشتے تلخ تجربات کے بعد ختم ہو جاتے ہیں یا شادی کے بعد پیچیدہ حالات پیدا ہو جاتے ہیں۔ کبھی اولاد بغاوت کرتی ہے، تو کبھی والدین زور زبردستی کر کے شادی تو کرا دیتے ہیں، مگر ان کو نبھانا مشکل ہو جاتا ہے۔

اگر غیر جانب داری سے دیکھا جائے، تو بچپن میں طے کی گئی شادی معاشرتی مسائل کو جنم دیتی ہے۔ شادی کے معاملے میں بہرحال لڑکا اور لڑکی کی مرضی ضروری ہے، نبھانا تو انھی دونوں کو ہوتا ہے بڑے ہونے پر ہی دونوں کی عادات و اطوار کا پتا چلتا ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کے رشتے کرتے وقت ان کی پسند و ناپسند اور معیار کا خیال رکھیں، کیوں کہ یہ سارے خوشی کے سودے ہیں۔

ان میں زور زبردستی کا کیا کام، بچوں کی شادی کے لیے ان کے مناسب عمر تک رشتے کا انتظار کریں۔ ان کی مرضی ہے تو بات کو بڑھائیں ورنہ نہیں۔ جب زندگی ان دو فریقوں نے گزارنی ہے، تو پھر ان کی مرضی کا خیال نہ رکھنے کا کوئی جواز نہیں۔ اگر بچپن میں رشتہ طے کرنا ضروری ہے، تو زبانی بات چیت تک رہے تو اچھا ہے اس کو باقاعدہ منگنی یا نکاح کرنا مناسب نہیں، صرف بڑوں کے درمیان رشتے کی بات رکھیں اور بچوں کے سمجھ دار ہونے پر ان کی رائے اور پسند معلوم کرلیں، اگر بچے اس رشتے سے خوش ہیں تو پھر رشتہ باقاعدہ طے کرلیں اس سے پہلے کہ بچے بغاوت کریں آپ ایسا موقع ہی نہ آنے دیں کیوں کہ زندگی تو بچوں نے ہی گزارنی ہے۔

اکثر گھرانوں میں یہ صورت حال بھی دیکھنے میں آتی ہے کہ اگر لڑکی یا لڑکا زیادہ پڑھ لکھ گئے ہیں، تو ماں باپ کو اتنے ہی معیار کا پڑھا لکھا لڑکا یا لڑکی چاہیے۔ لڑکا یا لڑکی ڈاکٹر بن جائے تو بہو اور داماد بھی ڈاکٹر ہی چاہیے، ورنہ ماں باپ خود ہی بہانہ بنا کر رشتہ ختم کر دیتے ہیں۔

ایسی ناخوش گوار صورت حال سے بچنے کا بہترین حل یہی ہے کہ بچپن میں رشتے طے نہ کیے جائیں۔ یہ معصوم بچوں کے ساتھ بھی سراسر ظلم و ناانصافی ہے۔ زندگی کے سفر میں ایک ہم سفر کی تلاش تو سب کو ہوتی ہے اور ہر کوئی چاہتا ہے کہ شادی کے معاملے میں اسے مکمل آزادی ہو، تاکہ فیصلہ کرنے میں اسے آسانی ہو۔ ایسے میں زندگی کے اہم فیصلے والدین اپنی مرضی سے زبردستی بچوں پر مسلط کر دیں تو تعلقات میں بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے۔ بچپن میں تو بچوں کو اندازہ نہیں ہوتا کہ ان کے ساتھ کیا ہوا ہے لیکن جیسے جیسے وہ بڑے ہوتے ہیں یہ بات ان کے کانوں میں پڑتی رہتی ہے کہ فلاں کی شادی فلاں سے طے ہو چکی ہے۔ بعض اوقات گھر اور خاندان کے افراد ان کو ایک دوسرے کی حوالے سے چھیڑتے رہتے ہیں، یوں بچوں میں کم عمری میں ہی بڑا پن آجاتا ہے۔

ماں باپ نے تو بچپن میں رشتہ طے کر دیا، لیکن ذرا سی ناخوش گوار بات ہوئی تو رشتہ ختم بھی ہو جاتا ہے۔ اس لیے والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کی زندگی کے اہم فیصلے صرف اپنی خوشی یا انا کی تسکین کے لیے عجلت میں نہ کریں۔ اگرچہ بچپن میں طے کیے گیے بعض رشتے کام یاب بھی ہو جاتے ہیں، لیکن ایسا کم ہوتا ہے۔ زیادہ تر ایسے خاندان جو کئی نسلوں سے خاندان میں شادی کرتے چلے آرہے ہوں اور ان کے بچے ایک محدود دائرے میں رہنے کی عادی ہوں، لیکن جب بچے پڑھ لکھ جاتے ہیں، باہر کی دنیا سے واقف ہوجاتے ہیں تو ان کے خیالات بدل جاتے ہیں۔

وہ شادی کے معاملات میں اپنی مرضی کو اولیت دیتے ہیں۔ بچپن کے طے کردہ رشتے میں دونوں فریق پڑھ لکھ جائیں، تو بہتر ہوتا ہے تاکہ زندگی کے سفر میں دونوں قدم ملا کر چلیں۔ آئندہ نسل کی بہترین تربیت ہو سکے۔ لہٰذا بچپن میں رشتہ طے نہ کریں تو بہتر ہے، بچوں کے بڑے ہونے کے بعد ان کی مرضی اور پسند جاننے کے بعد رشتہ طے کریں اور اس فریضے کو خوشی کے ساتھ سرانجام دیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔