کراچی آپریشن، قائم علی شاہ اور سندھ ون

نصرت جاوید  جمعرات 16 جنوری 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

سندھ ون اور ٹو کا قصہ تو 1970ء کی دہائی کے آغاز کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بہت ہی Talented Cousin ممتاز بھٹو صاحب نے اسے بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ اسی لیے انھیں اسلام آباد لا کر مرحوم غلام مصطفیٰ جتوئی کو سندھ کا وزیر اعلیٰ بنانا پڑا اور ان کا شدید ترین سیاسی مخالف بھی اس حقیقت کو تسلیم کرے گا کہ دھیمے مزاج کے اس سیاستدان نے سندھ کے باسیوں میں یگانگت قائم کرنے کے لیے بڑی پرخلوص محنت کی۔ ان ہی کی وجہ سے حکیم محمد سعید اور جمیل الدین عالی جیسی شخصیات نے کراچی سے قومی اسمبلی تک پہنچنے کے لیے پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر 1977ء کے انتخابات میں حصہ لیا۔ پاکستان قومی اتحاد مگر اس وقت تک یکجا ہو کر میدان میں آ چکا تھا۔ نورانی میاں اور جماعت اسلامی والوں کے ساتھ ولی خان کے پشتون قوم پرست بھی مل گئے لیکن اقتدار پر قبضہ بالآخر جنرل ضیاء الحق نے کر لیا۔ جماعت اسلامی نے اس کا ساتھ دینے میں کوئی دیر نہ لگائی اور بتدریج اپنی ساری توجہ افغانستان کو روسی افواج سے ’’آزاد‘‘ کرانے پر مرکوز کر دی۔ نورانی میاں اور ان کی جماعت تنہا رہ گئے۔ اصغر خان ایبٹ آباد میں نظر بند ہو گئے اور ولی خان مزید قوم پرستی کی نذر۔

مین اسٹریم سیاسی جماعتوں کے انتشار اور دو عملی نے جو خلاء پیدا کیا اسے الطاف حسین کے جمع شدہ نوجوانوں نے حیران کن تیزی کے ساتھ پُر کر دیا۔ سندھ ’’دیہی‘‘ اور ’’شہری‘‘ ہو گیا اور یہ تقسیم 1988ء کے انتخابات سے لے کر آج تک اپنی جگہ پوری شدت کے ساتھ موجود ہے۔ مئی 2013ء کے انتخاب نے تحریک انصاف کو اس تقسیم سے بالاتر ہو کر سندھ اور خاص کر کراچی کے لیے ایک نیا Narrative بنانے کا بھرپور موقع  عطا کیا تھا۔ عمران خان اور ان کے ساتھی اپنے امکانات کو مگر پوری طرح جان نہ پائے۔ دھرنوں کے ذریعے نیٹو سپلائی رکوانے میں مصروف ہو گئے۔ سیاسی جماعتیں جب کسی واضح حکمت عملی کے ذریعے لوگوں کو اپنے ساتھ ملا کر ریاستی اور حکومتی فرائض سرانجام نہ دے پائیں تو ریاست کے دائمی اداروں کو امن و امان بحال کرنے کے نام پر من مانیاں کرنے کا پورا موقع مل جاتا ہے۔ ستمبر 2013ء سے کراچی میں یہی کچھ ہو رہا ہے۔

نظر بظاہر مرکزی اور صوبائی حکومتوں نے بالآخر یہ طے کر لیا کہ کراچی میں امن و امان کی بحالی کے لیے کچھ کرنا پڑے گا۔ ایک ٹارگٹڈ آپریشن شروع ہوا۔ اس کے بارے میں قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں بارہا کھڑے ہو کر طویل تقاریر کے ذریعے چوہدری نثار علی خان ہمیں یقین دلاتے رہے کہ مجوزہ ٹارگٹڈ آپریشن کی حکمت عملی بہت سوچ بچار کے بعد طے ہوئی ہے۔ ایک منجھے ہوئے لکھاری کے ڈراموں کی طرح اس آپریشن کے تین مراحل بھی ہمیں مسلسل یاد دلائے گئے۔ ہر مرحلے کا ذکر کرتے ہوئے چوہدری نثار علی خان ہمیں اس بات کا یقین بھی دلاتے رہے کہ وفاقی حکومت اور اس کے ماتحت اداروں کی بھرپور شمولیت کے باوجود کراچی آپریشن کی ’’حقیقی کمانڈ‘‘ سندھ کے منتخب وزیر اعلیٰ کے ہاتھ ہی میں رہے گی۔ پچھلے دو ماہ سے اب کچھ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے کراچی آپریشن کی کمانڈ سید قائم علی شاہ کے حوالے کرنے کے بعد چوہدری صاحب طالبان سے مذاکرات کے راستے ڈھونڈنے میں مصروف ہو گئے ہیں۔ ان کی اس مصروفیت کی وجہ سے اسلام آباد میں بیٹھا میرے جیسا صحافی یہ بھی نہیں جانتا کہ اس وقت کراچی آپریشن اپنے کون سے مرحلے میں ہے۔

چوہدری اسلم کے اندوہناک قتل سے البتہ ایک پیغام ضرور ملا کہ وہ لوگ جن سے مذاکرات کرنے چوہدری نثار علی خان کچھ لوگوں کو شمالی وزیرستان بھیجنا چاہ رہے ہیں کراچی میں اپنی جڑیں بہت مضبوط کر چکے ہیں۔ اپنے دشمن کو یہ لوگ معاف کرنے کو ہرگز تیار نہیں بلکہ ایک نہ ایک دن اپنے ہدف تک پہنچ ہی جاتے ہیں۔ میں کراچی کا مستقل شہری ہوتا تو چوہدری اسلم کی ہلاکت کے بعد وہاں سے نکلنے کی تیاری شروع کر دیتا۔ مگر چوہدری صاحب کی ہلاکت کے بعد کراچی پولیس کا ہر اہلکار مجھے اپنے فرائض سرانجام دینے کے لیے عزم نو کا اظہار کرتا محسوس ہوا۔ بڑے افسوس کی بات ہے کہ سندھ کی منتخب حکومت نے اس عزم کو مستحکم بنانے کے لیے فوراََ کوئی عملی اقدامات نہ اٹھائے۔ میں بلاخوفِ تردید نہایت ذمے داری سے یہ دعویٰ کر سکتا ہوں کہ آصف علی زرداری واحد سیاسی رہنما ثابت ہوئے جنہوں نے چوہدری اسلم کی ہلاکت کے بعد پولیس اہلکاروں کے دلوں میں اُبلتے جذبوں کو تھوڑا بہت جانا۔ گزشتہ ہفتے وہ کچھ دنوں کے لیے اسلام آباد آئے ہوئے تھے۔ باوثوق ذرایع بتاتے ہیں کہ وہ رات گئے تک کراچی کے پولیس حکام کے ساتھ فون کے ذریعے مسلسل رابطے میں رہے اور ان ہی کے دبائو کی وجہ سے سندھ حکومت سی آئی ڈی کے اہلکاروں کو اگلے گریڈوں میں بیک وقت ترقی دینے پر مجبور ہوئی۔

چوہدری اسلم کی ہلاکت کے بعد کراچی پولیس میں اُبلنے والا عزم اور غصے اور پھر آصف علی زرداری کی جانب سے اس کے ادراک نے مجھ ایسے لوگوں کو اُمید دلائی کہ امن و امان کے ذمے دار تمام ریاستی ادارے اب باہم مل کر کراچی آپریشن کو اپنے منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔ منگل کو مگر رینجرز والوں نے ایک طویل اجلاس کے بعد یہ بات میڈیا تک پہنچا دی کہ وہ کراچی پولیس میں مجوزہ یا مبینہ طور پر ہونے والے تبادلوں سے خوش نہیں۔ ایسے پولیس آفیسر جن کے ساتھ ان کی گزشتہ چند مہینوں میں بڑی Effective Understanding پیدا ہو گئی ہے اپنے دفتروں سے ہٹا دیے گئے تو رینجرز کراچی آپریشن میں حکومت کی معاونت نہ کرنے کا فیصلہ بھی کر سکتے ہیں۔

ٹھوس حقائق کا مجھے اسلام آباد میں بیٹھے پورا علم نہیں۔ مگر ایک عام رپورٹر ہوتے ہوئے مجھے یہ بات بہت عجیب لگی کہ بظاہر وزیر داخلہ کے کنٹرول میں کام کرنے والے رینجرز کے اعلیٰ حکام کو اپنا پیغام بر سرِ عام لانے کے لیے میڈیا کا سہارا لینا پڑا۔ ایسے معاملات بند کمروں میں زیر بحث لائے جاتے ہیں۔ انھیں اپنی پسند کے رپورٹروں کے ذریے یوں عیاں نہیں کیا جاتا۔ مجھے تو یہ معاملہ طشت ازبام ہو جانے کے بعد خیال تو یہ آ رہا ہے کہ ہماری ریاست کے چند دائمی اداروں کے افسران چاہتے ہیں تو بس اتنا کہ سید قائم علی شاہ صرف ’’سندھ ون‘‘ کے معاملات سنبھالیں۔ کراچی میں امن و امان دیکھنا چاہتے ہیں تو سارا معاملہ رینجرز والوں پر چھوڑ دیں۔ مجھے خبر نہیں کہ سید قائم علی شاہ تک بھی ایسا ہی پیغام پہنچا ہے یا نہیں اور وہ اس کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔