- بھارت میں عام انتخابات کے پہلے مرحلے کا آغاز،21 ریاستوں میں ووٹنگ
- پاکستانی مصنوعات خریدیں، معیشت کو مستحکم بنائیں
- تیسری عالمی جنگ کا خطرہ نہیں، اسرائیل ایران پر براہ راست حملے کی ہمت نہیں کریگا، ایکسپریس فورم
- اصحابِ صُفّہ
- شجر کاری تحفظ انسانیت کی ضمانت
- پہلا ٹی20؛ بابراعظم، شاہین کی ایک دوسرے سے گلے ملنے کی ویڈیو وائرل
- اسرائیل کا ایران پرفضائی حملہ، اصفہان میں 3 ڈرون تباہ کردئیے گئے
- نظامِ شمسی میں موجود پوشیدہ سیارے کے متعلق مزید شواہد دریافت
- اہم کامیابی کے بعد سائنس دان بلڈ کینسر کے علاج کے لیے پُرامید
- 61 سالہ شخص کا بائیو ہیکنگ سے اپنی عمر 38 سال کرنے کا دعویٰ
- کراچی میں غیرملکیوں کی گاڑی پر خودکش حملہ؛ 2 دہشت گرد ہلاک
- ڈکیتی کے ملزمان سے رشوت لینے کا معاملہ؛ ایس ایچ او، چوکی انچارج گرفتار
- کراچی؛ ڈاکو دکاندار سے ایک کروڑ روپے نقد اور موبائل فونز چھین کر فرار
- پنجاب پولیس کا امریکا میں مقیم شہباز گِل کیخلاف کارروائی کا فیصلہ
- سنہری درانتی سے گندم کی فصل کی کٹائی؛ مریم نواز پر کڑی تنقید
- نیویارک ٹائمز کی اپنے صحافیوں کو الفاظ ’نسل کشی‘،’فلسطین‘ استعمال نہ کرنے کی ہدایت
- پنجاب کے مختلف شہروں میں ضمنی انتخابات؛ دفعہ 144 کا نفاذ
- آرمی چیف سے ترکیہ کے چیف آف جنرل اسٹاف کی ملاقات، دفاعی تعاون پر تبادلہ خیال
- مینڈھے کی ٹکر سے معمر میاں بیوی ہلاک
- جسٹس اشتیاق ابراہیم چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ تعینات
شاہانہ مراعات، افتخارچوہدری کے تشخص پربھدے داغ ثابت ہوسکتے ہیں
کراچی: سابق چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری کی حفاظت کے لیے بلٹ پروف گاڑی اور محافظین کی بڑی تعداد فراہم کیے جانے کے عمل سے ملکی تاریخ میں انکے کردار کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جارہی ہے اور تاثردیا جارہا ہے کہ یہ افتخار عدلیہ ہے آزاد عدلیہ نہیں۔
جن وکلا کی جانب سے اسلام آباد ہائیکورٹ میں اس طرح کی درخواستیں دائر کی جارہی ہیں وہ وہ نادان کی دوستی کے مترادف ہے کیونکہ ہمارے معاشرے میں یہ سوچ عام ہے کہ طبقہ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے افراد کسی بھی معاملے پرخود سامنے آنے کے بجائے دیگر افراد کو فرنٹ مین کے طور پراستعمال کرتے ہیں، عدالتی معاملات پرخود وکلا کی جانب سے درخواستیں دائر کرنے سے عوام میں یہ تاثرعام ہورہا ہے کہ اعلی عدالتوں کے کچھ ججز اپنے من پسند وکلا کو ایسی درخواستیں دائر کرنے کی ہدایت کرتے ہیں جن کے فیصلے بلواسطہ طور پر ججوں کے مفاد میں ہوتے ہیں، عمومی پروٹوکول کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان کو صدر مملکت کے مساوی پروٹوکول حاصل ہوتا ہے لیکن آئین پاکستان میں سابق صدور اور وزرائے اعظم کے لیے مراعات کا تو ذکر ہے مگر سابق چیف جسٹس صاحبان کے لیے خصوصی حفاظتی انتظامات کے باب میں آئین خاموش ہے، ایسے مواقع پراعلیٰ عدالتوں کو یقینا تشریح کا حق حاصل ہے لیکن جسٹس افتخار چوہدری جیسے غیر معمولی چیف جسٹس کے لیے شاہانہ مراعات کی فراہمی کے فیصلے2007کے بعد سے شروع ہونے والے ان کے تشخص کے لیے بھدے داغ ثابت ہوسکتے ہیں۔
فاضل چیف جسٹس نے طبقہ اشرافیہ کے بجائے عام آدمی کے مسائل پر توجہ دے کر جو عزت کمائی تھی ، اسے پہلا دھچکاٹھیکیدار ریاض اور جسٹس افتخارچوہدری کے صاحبزادے ارسلان چوہدری کے درمیان کے معاملات سے پہنچا تھا ، جس سے وہ بمشکل ٹیکنیکلی نکلنے میں کامیاب ہوسکے لیکن سادگی اور پیشہ ورانہ ادائیگی میںکوئی دبائو قبول نہ کرنے کی تبلیغ کرنیوالے چیف جسٹس کی حیثیت سے ان کے لیے شاہانہ مراعات کی استدعا کرنا اور ان مراعات کی فراہمی سے افتخار محمد چوہدری ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کی سطح پر آجائینگے جواپنی شخصیت کے لیے بلواسطہ طور پر اپنے اداروں کو استعمال کررہے ہیں، دوسری جانب اس رویے سے سپریم کورٹ بار کی سابق صدر عاصمہ جہانگیر سمیت دیگر وکلا اور سیاسی رہنمائوں کے اس موقف کو تقویت حاصل ہوگی کہ اعلی عدلیہ کے جج صاحبان آئین و قانون کے بجائے اپنے ادارے کی طاقت کو توسیع دینے کی کوشش کررہے ہیں اورآزادانہ و غیرجانبدارانہ فیصلے دینے کے بجائے ایک سوچ کے تحت فیصلے صادر کرتے ہیں۔
اگر عدلیہ کے بارے میں یہ تاثر مستحکم ہوگیا تو اداروں کے درمیان جنگ کی صورتحال پیدا ہوسکتی ہے، انتظامیہ اور مقننہ فوجی آمریت کے بعد خود کو عدلیہ کے سامنے بے بس سمجھتے ہوئے دوبارہ نادیدہ قوتوں سے گٹھ جوڑ کرسکتی ہے ، اس طرح پھیلنے والی انارکی ملک کی موجودہ صورتحال کو مزید نازک بنادے گی جبکہ عوام کی ایک معقول تعداد پہلے ہی ملک کے مستقبل کے حوالے سے بے یقینی کا شکار ہے، مختلف بار ایسوسی ایشنوں سے خطاب کے لیے ملک گیر دورے کے سلسلے میں اگر حفاظتی نکتہ نظر سے سابق چیف جسٹس کے لیے بلٹ پروف گاڑی ضروری ہے تو یہ ذمے داری ان کے صاحبزادے ارسلان چوہدری بھی پوری کرسکتے ہیں جواربوں روپے کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔