بُک شیلف

جانیے دلچسپ کتابوں کے احوال۔ فوٹو : فائل

جانیے دلچسپ کتابوں کے احوال۔ فوٹو : فائل

حساب دوستاں(خاکے)

مصنف : رحمان مذنب ، قیمت:700 روپے، صفحات:286

ملنے کا پتہ : ٹی اینڈ ٹی پبلشرز ، بینک کالونی سمن آباد، لاہور (03004191687)

خاکہ انسان کی ظاہری شخصیت کے ساتھ ساتھ ڈھکی چھپی شخصیت کو بھی سامنے لاتا ہے ،  شگفتہ طرز تحریر قاری کو اپنے ساتھ باندھے رکھتا ہے۔ رحمان مذنب کو فنون لطیفہ کی متعدد اصناف میں کمال حاصل تھا، ان کا اصل نام مفتی عزیز الرحمان ہے، ان کی ساری زندگی اندرون لاہور علم و ادب کے گہوارے میں گزری۔ وہ ایک بلند پایہ ادیب ، باکمال قلمار اور مشاہدے کی گہری نظر رکھنے والے تخلیق کار ہیں۔ جن کا انداز تحریر شگفتہ رواں اور بے ساختہ ہے۔ ان کی تحریریں بھرپور حرکیت اور جاودانی سمیٹے ہیں ، ان کی تشبیہات اور استعاروں میں ندرت اور جاذبیت ہے جسے زندگی کے تجربے سے اخذ کیا گیا ہے۔ وہ ایسے ہمہ وقت لکھاریہ تھے جنہوں نے بیک وقت کئی علمی اور ادبی موضوعات پر قلمی جوہر دکھائے ۔ان کی تحریریں فن کے نمائندہ نمونے اورادب کے قیمتی شہ پارے ہیں۔ انھوں نے پتلی جان ، پنجرے کے پنچھی باسی گلی، گلبدن ،اقبال اور نئے عمرانی نظریئے ، بلھے شاہؒ، اس کا نظریہ تصوف اور اس کے علاوہ متعدد شاہکار تخلیق کئے۔ زیر نظر کتاب میں  پاکستان کی نامور شخصیات کے خاکے تحریر کئے گئے ہیں جن میں سعادت حسن منٹو، اے حمید، فیض احمد فیض ، آغا شورش کاشمیری، قدوس صہبائی، ساغر صدیقی ، منیر نیازی ، استاد دامن ، وزیر آغا ، انور سدید ، سلطان راہی، مظہر شاہ،موسیقار مبارک علی خان، اعجاز احمد درانی، روحی بانو کے خاکے شامل ہیں ۔ وہ بڑی محبت اور پیار سے شخصیت کا تعارف کچھ اس انداز سے کراتے چلے جاتے ہیں کہ یوں لگتا ہے جیسے آپ اس شخصیت کو اپنے سامنے دیکھ رہے ہیں، انداز تحریر کی شگفتی بے ساختہ مسکرانے پر مجبور کر دیتی ہے ۔ ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کو اس کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔

دس ناولٹ

مصنف: رحمان مذنب، قیمت:1400روپے، صفحات:591

ملنے کا پتہ:  ٹی اینڈ ٹی پبلشرز، بینک کالونی سمن آباد، لاہور (03004191687)

رحمان مذنب نے ادب کی جس صنف میں بھی قلم اٹھایا کمال کر دیا ، تحریر میں تو انھیں یدطولیٰ حاصل ہے ہی اس کے ساتھ ان کا گہرا مشاہدہ قاری کو اپنے سحر میں جکڑ لیتا ہے۔ زیر نظر کتاب میں ان کے دس ناولٹ شامل کئے ہیں جن میں جن میں آخری دیوار،چڑھدا سورج، مقدس پیالہ ، کوہسار زادے، بالاخانہ ، وفا کی قیمت ، موتیوں والی سرکار ، میوار کی رادھا، زرینہ اور ہاشم اور بدر بہادر ڈکیٹ شامل ہیں ۔ پہلا ناولٹ پانی پت کی آخری جنگ کے تناظر میں لکھا گیا ہے جس میں احمد شاہ ابدالی مرہٹوں کو شکست فاش دیتا ہے، اس ناولٹ میں اس دور کی بہترین منظر نگاری کی گئی ہے یوں لگتا ہے جیسے قاری سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے، اسی طرح بالا خانہ میں وہاں کی روایات کو بڑی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے ، وہاں کی زبان اور لب و لہجے کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔ مصنف جزئیات کو بڑی تفصیل سے سپرد قلم کرتے ہیں، تحریر کی چاشنی قاری کو اپنے ساتھ چمٹائے رکھتی ہے اور قاری تحریر کے بہاؤ میں بہتا چلا جاتا ہے ، اسے پتہ بھی نہیں چلتا کہ کب ناولٹ ختم ہو گیا ۔ ہر ناولٹ کی ابتدا میں عنوان کی مناسبت سے پینٹنگ شائع کی گئی ہے جس سے قاری کو عنوان کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے اس کے ساتھ ساتھ ناول کی دیدہ زیبی میں بھی اضافہ ہوتا ہے ۔ یہ رحمان مذنب کا منفرد طرز نگارش ، مربوط پلاٹ اور معتدل طوالت پر مبنی حقیقی زندگی سے جڑی دس جاندار کہانیاں ہیں جو اپنے اپنے زمانے کی زندگی اور طرز معاشرت کی سچی تصاویر ہیں ۔ مجلد کتاب کو دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔

وادی سندھ اور تہذیبیں

مصنف: سرمورٹیمر وھیلر، مترجم:زبیر رضوی، قیمت:500 روپے، صفحات:175

ناشر:بک ہوم، مزنگ روڈ ، لاہور ( 03014568820)

تہذیبی ارتقاء ہمیشہ سے ہی ایک دلچسپ موضوع رہا ہے ۔ انسان ہمیشہ سے ہی اس کھوج میں لگا ہوا ہے کہ پتہ چلایا جائے کہ تہذیب و تمدن کی ابتدا کب ہوئی، اس کا تجسس اسے ہزاروں سال قبل کی تہذیبوں کی تحقیق میں لگائے رکھتا ہے، جس سے انسانی تہذیب کے نئے نئے پہلو آشکارا ہو رہے ہیں ۔ وادی سندھ کی تہذیب کا شمار بھی انسان کی قدیم ترین تہذیبوں میں ہوتا ہے۔زیر نظر کتاب میں انسانی تہذیبی ارتقاء کا جائزہ پیش کیا گیا ہے ۔ پھر موہن جوداڑو اور ہڑپہ تہذیبوں کا ارتقاء پیش کیا گیا ہے۔ اس دور کے لوگوں کے رہن سہن اور نظام معاشرت پر بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے ۔ یہ تہذیبیں کیسے تباہ ہوئیں اور پھر اس کے بعد کونسی تہذیبوں نے اس کے اردگرد جنم لیا یہ سب بھی بیان کیا گیا ہے ۔ سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ یہ سب تہذیبیں آپس میں کیسے اور کہاں تک جڑی ہوئی تھیں، مصنف نے اس پر بھی بہت تحقیقی کام کیا ہے۔ جہاں پر ضرورت محسوس کی گئی ہے تصاویر بھی دی گئی ہیں تاکہ قاری کو سمجھنے میں آسانی رہے ۔ تہذیبی ارتقاء کے حوالے سے یہ بہت اہم کتاب ہے ، ہماری نئی نسل کو اس کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے تاکہ وہ اپنے تہذیبی ارتقاء کو سمجھ سکیں، اور معاشرے میں اپنا مثبت کردار ادا کر سکیں۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔

شام توں پہلاں آئیاإں راتاں

شاعر:ڈاکٹر نعیم کوہلی، قیمت:600 روپے، صفحات:144

ناشر: بک ہوم، مزنگ روڈ ،لاہور (03014568820)

نعیم محمود کوہلی پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر ہیں ان کا شاعری کی طرف آنا تھوڑا حیران کن ہے، وہ اپنے اس پنجابی شعری مجموعے سے قبل بھی اردو میں ’’ آپ ہوتے نہ خواب ‘‘ کے عنوان سے ایک مجموعہ پیش کر چکے ہیں ۔ ان کی شاعری ایک تو آسانی میں سمجھ آنے والی ہے دوسرے اس میں بے ساختہ پن نمایاں ہے، وہ اپنے دل کی بات بے دھڑک کہہ دیتے ہیں اور خوب کہتے ہیں ۔ ممتاز شاعر ظفر اقبال کہتے ہیں ’’ پنجابی زبان کی املائی مشکلات کے پیش نظر نعیم کوہلی نے نسبتاً آسان ذریعہ اظہار کا انتخاب کیا ہے اور اپنی شاعری کو بھاری اور ثقیل نہیں ہونے دیا بلکہ موضوعات بھی پیچیدہ ہونے کی بجائے زندگی سے جڑے ہوئے اور آسان فہم ہیں کیونکہ پنجابیمیں کم اور اردو شاعری میں پیچیدگی اور مشکل پسندی کا رواج زیادہ ہو گیا ہے چنانچہ غزل تو پھر بھی چل جاتی ہے ، نظم کا قاری شاید اس خصوصیت کے باعث کمی کا شکار ہو رہا ہے کیونکہ ہمارے ہاں غزل کا تربیت یافتہ قاری نظم سے بھی غزل ہی کی طرح سے لطف اندوز ہونے کی کوشش کرتا اور بالعموم ناکام رہتا ہے۔‘‘پروفیسر خواجہ محمد زکریا کہتے ہیں ’’ ڈاکٹر نعیم کوہلی ایک حساس شخص ہیں، انھوں نے دنیا دیکھی ہے، طرح طرح کے افراد سے میل جول رکھا ہے ، انسانوں کے ازلی اور ابدی تضادات کا مشاہدہ کیا ہے اور ان مشاہدات کو کامیابی سے شعر کا جامہ پہنایا ہے ۔ میرے نزدیک وہ سچے شاعر ہیں کیونکہ وہ شاعری میں سنی سائی باتیں قلمبند نہیں کرتے بلکہ جو کچھ ان پر بیت گیا ہے ، اسی کو شعر کا پیکر عطا کرتے ہیں ‘‘ ۔ زیر نظر مجموعہ پنجابی ادب میں خوبصورت اضافہ ہے۔ مجلد کتاب کو دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔

شاندار سپیکر بنیے

مصنف: ارشد جاوید، صفحات: 174 ، قیمت: 400 روپے

ناشر: نئی سوچ، غزنی سٹریٹ، اردو بازار، لاہور (قاسم علی شاہ فاؤنڈیشن)

’’فن خطابت‘‘ کے بارے میں جاننے کی ضرورت صرف مذہبی مبلغین، سیاستدانوں اور پیشہ ور مقررین کو ہی نہیں ہوتی بلکہ اکثر افراد کو کبھی نہ کبھی لوگوں کے سامنے اپنے خیالات موثر انداز میں پیش کرنا ہوتے ہیں۔ وکیل، صحافی، استاد، طالب علم، دفتری ملازم، کھلاڑی اور معاشرے کے بہت سے افراد ان میں شامل ہیں۔ ہر شخص چاہتا ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے اپنے خیالات کا بہترین انداز میں اظہار کرے۔ اسی طرح حاضرین محفل بھی توقع رکھتے ہیں کہ مخاطب ان سے موقع محل کی مناسبت سے عمدہ اور جامع گفتگو کرے گا، اور ایسے شخص کو ہی سب پسند کرتے ہیں۔ تاہم یہ جاننے کے باوجود کہ اچھی تقریر کی صلاحیت آپ کی شخصیت کو چار چاند لگا دیتی ہے، بہت کم لوگ اسے سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ زیرنظر کتاب کے پہلے مضمون میں، جو تقریباً 80 صفحات پر مشتمل ہے، بہت تفصیل سے اس موضوع پر رہنمائی فراہم کی گئی ہے۔ تقریر کی تیاری کیسے کی جائے، لکھنا کس طرح ہے، لباس کیسا ہونا چاہیے، سٹیج کا ڈر ختم کرنے کا طریقہ کیا ہے، تقریر کے دوران آپ کو کن باتوں کا خیال رکھنا چاہیے، آپ کیسے ایک شاندار اور کامیاب مقرر بن سکتے ہیں، ان سب پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ جتنی جزئیات کے ساتھ اس موضوع پر قلم اٹھایا گیا ہے، ان پر عمل پیرا ہو کے آپ کی گفتگو اور شخصیت میں نکھار آ سکتا ہے اور آپ بتدریج ایک بہترین مقرر بن سکتے ہیں۔

پروفیسر ارشد جاوید، معروف ماہر نفسیات اور ایک درجن سے زیادہ کتابوں کے مصنف ہیں۔ زیرنظر کتاب میں 10 دیگر مضامین بھی شامل ہیں، جن میں سے اکثر موضوعات پر مصنف کی الگ سے کتابیں بھی دستیاب ہیں۔ جیسا کہ آج کل لوگوں کے پاس مکمل کتاب پڑھنے کا وقت اور حوصلہ نہیں تو ان مضامین کی افادیت بڑھ جاتی ہے۔ اس سلسلے میں ’’لمبی صحت مند زندگی‘‘ ، ’’تعلیمی کامیابی‘‘ اور ’’غربت سے خوشحالی تک‘‘ خاص طورپر اہم ہیں۔ دیگر مضامین مختلف نفسیاتی مسائل اور ان کے حل سے متعلق ہیں۔

ریاستی معیشت اور شہری معیشت

مصنف: ڈاکٹر خلیل احمد، ناشر: پرائم انسٹی ٹیوٹ اسلام آباد

ڈاکٹر خلیل احمد، ایک اخلاق پسند اور عقل پسند سیاسی فلسفی اور سیاسی معیشت دان ہیں۔ پاکستان کی ریاست، معیشت اور سیاست ان کی دلچسپی کے خاص موضوعات ہیں۔ وہ کئی کتابوں کے مصنف ہیں، جن میں ’’عمرانی معاہدے کی تشکیل نو: انسانی معاشرے کی تنظیم نو کے اصول (2017)‘‘ خاص طور پر اہم ہے۔ 28 صفحات پر مشتمل زیرنظر کتابچے میں مصنف نے ریاستی معیشت اور شہری معیشت کا فرق واضح کرتے ہوئے بتایا ہے کہ علم معاشیات پر ریاست پسندوں کی سوچ کا غلبہ کیسے ہوا۔ مصنف کے مطابق، ریاست ٹیکس بٹورنے کے لیے قائم نہیں ہوتی، بلکہ اس کا بنیادی فریضہ لوگوں کی جان و مال، عزت و آبرو اور آزادیوں کا تحفظ ہے۔ شہری معیشت سے مراد لوگوں کی وہ آزادانہ معاشی سرگرمیاں ہیں، جن کے ذریعے وہ ایک دوسرے کی ضروریات کو بہتر سے بہتر انداز میں پورا کرنے کا جتن کرتے ہیں اور انسانی بقا کو ممکن بناتے ہیں۔ جبکہ ریاستی معیشت وہ مظہر ہے، جو لوگوںکی معاشی سرگرمیوں پر ریاست کی دسترس اور اختیار کو اولیت دیتا ہے۔

مصنف کا کہنا ہے کہ ریاستی معیشت، معاشی مسئلے کا حل نہیں بلکہ بجائے خود ایک مسئلہ ہے۔ ریاست کا کام یہ تھا کہ وہ صرف یہ دیکھے کہ پیداکاروں، تاجروں اور صارفوں کے حقوق محفوظ رہیں، اور ان میں سے کوئی اپنے کسی عمل کے ذریعے دوسرے کے حقوق سلب نہ کر سکے۔ مگر ریاست نے تینوں کے حقوق، اپنے حق میں سلب کر لیے۔ معیشت دان جان میز ڈکینز کے نظریات کی صورت میں ریاستی معیشت کے جس تصور کو فروغ ملا، اس نے آگے چل کر معاشیات کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ یہی وجہ ہے کہ پیشہ ور معیشت دان، دانشور اور مصنف، سب کے سب معاشی مسئلے کو ایک شہری کے بجائے ریاست کے نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں۔ مصنف کے بقول، عام لوگوں کی زندگی میں خوشحالی اسی صورت میں ممکن ہے جب شہری معیشت کو اپنی پوری استعداد کے ساتھ پھلنے پھولنے دیا جائے، جبکہ ریاست اپنے اصل فریضے، یعنی تحفظاتی فریضے کی ادائیگی تک محدود ہو۔

عمرِ رواں (خود نوشت ڈاکٹر فرید احمد پراچہ) 

جماعت اسلامی پاکستان کی شاید واحد ایسی سیاسی تنظیم ہے جس نے اپنی تاریخ میں رونما ہونے والے بڑے تضادات کے باوجود خود کو صیح معنوں میں  ایک ادارہ ثابت کیا ہے۔ پاکستان کی انتخابی تاریخ میں قابل ذکر کامیابیاں حاصل کئے بغیر بھی ملک کی سیاسی تاریخ میں جماعت کا کردار غیر معمولی اہمیت کاحامل رہا ہے۔ 26 اگست 1947 میں اپنے قیام سے لے کر آج دن تک جماعت اسلامی ملکی سیاست میں ایک اہم فیکٹر کے طور پر سرگرم عمل رہی ہے۔ جماعت اسلامی کے اندر اس کے آغاز ہی سے دو مکتبہ ہائے فکر موجود تھے۔ ایک کے نزدیک انتخابی سیاست میں حصہ لینا درست نہ تھا بلکہ دعوت کے ذریعے انفرادی سطح پر اصلاح کر کے معاشرے میں دائمی تبدیلی بہترین حکمت عملی تھی جبکہ دوسرے نکتہ نظر کے حامی اکابرین کے نزدیک اقتدار حاصل کر کے معاشرے میں تبدیلی لانے کا ہدف زیادہ آسانی سے حاصل ہوسکتا تھا۔ اسی اختلاف پر 1951 میں پارٹی کے کئی اکابرین تنظیم سے اس لیے الگ ہوگئے کیونکہ  پارٹی کی تنظیم میں غالب اکثریت نے جماعت کے بانی مولانا ابو العلٰی موددی ؒ کے سیاست میں سرگرم کردار ادا کرنے کے موقف کی تائید کر دی تھی۔ جماعت اسلامی کو یہ امتیاز بھی حاصل ہے کہ نظریاتی اختلاف کی بنا پر اس سے الگ ہونے والی اکثر شخصیات نے اپنی راہ الگ کرنے کے باوجود  دین کی خدمت اور معاشرتی اصلاح کے کام سے کنارہ کشی اختیار نہیں کی اور کئی ایک نے اس میدان میں شاندار خدمات انجام دیں۔

زیر نظر کتاب ’عمر رواں‘  جماعت اسلامی کے اہم قائدین میں سے ایک ڈاکٹر فرید احمد پراچہ کی خود نوشت ہے۔ کسی اہم شخصیت کی بائیو گرافی اپنے اندر دلچسپی کا بہت سامان رکھتی ہے، لیکن یہ کتاب ایک اہم سیاسی شخصیت کی زندگی کے سفر کی روداد کے ساتھ جماعت اسلامی کے سیاسی سفر پر ایک اہم دستاویز کی حیثیت بھی رکھتی ہے، جس کے باعث اس کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔

مصنف نے اپنی کتاب کے ابتدائیہ کا آغاز ان الفاظ کے ساتھ کیا ’’ داستان حیات، آٹو بائیو گرافی، آپ بیتی، یہ رہنمایان ملت اور مشہور شخصیات کی ہوتی ہیں اور۔۔۔  ’عشق بے چارہ نہ ملا ہے نہ زاہد حکیم‘

یوں سمجھ لیجئے یہ ایک کارکن کی ڈائری ہے، یہ آواز رحیل کا رواں ہے۔ یہ ایک رہ نوردشوق کی کہانی ہے۔ یہ ایک عہد کی داستان ہے، ایسی داستان کہ جس میں دل ہے ’خردہے‘ روح رواں ہے، شعور ہے۔ دھماکہ خیر انکشافات نہیں، تاہم کسی درماندہ رہرو کی صدائے دردناک ضرور ہے‘‘۔

ڈاکٹر فرید احمد پراچہ کا جماعت کے ساتھ تعلق تیسری نسل تک چلا آ رہا ہے۔ یہ مولانا مودودی کے قریبی رفیق مولاناگلزار احمد مظاہری کے صاحبزادے ہیں اور آگے خود ان کی اولاد بھی جماعت کے ساتھ وابستہ ہے۔ وہ ایک طالب علم کے طور پر جمعیت میں شامل ہوئے اور اپنے اخلاص اور بے غرضی کی بدولت ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے جماعت اسلامی کی صف اول کی قیادت تک پہنچے اور اس وقت جماعت کے نائب امیر کی حیثیت سے خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔

خورشید رضوی نے کتاب پر اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے ’’ فرید پراچہ کو جہاں گردی کے مواقع کثرت سے ملے، چناچہ علمی ودینی تصانیف کے متوازی ان کے ہاں سفر نامہ نگاری کا رجحان بہت غالب نظر آتا ہے ۔ سفر نامہ حج کے علاوہ یورپ، امریکہ ، کینیڈا، ترکی، چین ا ور بنگلہ دیش کے سفرنامے ان کے قلم سے نکلے ، اس بار انہوں نے باہر سے زیادہ اندر کے سفر کو موضوع بنایا ہے‘‘۔

اس کتاب کو قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل یثرب کالونی، بینک سٹاپ، والٹن روڈ لاہور کینٹ  (0300-0515101/0300-8422518) نے شاندار گیٹ اپ کے ساتھ شائع کیا ہے۔ کتاب کے آخر میں مصنف کی زندگی کے مختلف ادوار سے متعلق تصاویر بھی شامل کی گئی ہیں۔ قیمت 800 روپے ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔