کیا آپ کا پرنٹر بھی آپ کی جاسوسی کر رہا ہے؟

کرس بارانئیوک  جمعرات 27 مئ 2021
جدید کلر پرنٹرز ان نقطوں کو دستاویز میں چھاپتے ہیں اور کسی کو علم بھی نہیں ہوتا کہ یہ اس میں ہیں۔ فوٹو: سوشل میڈٰیا

جدید کلر پرنٹرز ان نقطوں کو دستاویز میں چھاپتے ہیں اور کسی کو علم بھی نہیں ہوتا کہ یہ اس میں ہیں۔ فوٹو: سوشل میڈٰیا

سنہ 2017میں جون کی تین تاریخ کو امریکہ کے تفتیشی ادارے فیڈرل بیورو آف انویسٹیگیشن (ایف بی آئی) کے ایجنٹس ریاست جارجیا میں ایک سرکاری کنٹریکٹر رئیلٹی لیہ ونر کے گھر پہنچے۔ انھوں نے گزشتہ دو دن ایک انتہائی خفیہ دستاویز کا معائنہ کیا تھا جو کہ میڈیا کو لیک کر دی گئی تھی۔

ایف بی آئی ایجنٹس نے دعویٰ کیا کہ ونر کو ڈھونڈنے کے لیے انھوں نے نیوز ویب سائٹ ’ دا انٹرسپٹ ‘ کو دی جانے والی دستاویز کی کاپیوں کی بغور جانچ کی تھی اور ان صفحات کو دیکھ کر انھیں اندازہ ہوا کہ یہ صفحات پرنٹ کرنے کے بعد ’ کسی محفوظ مقام سے ہاتھ سے منتقل کیے گئے تھے۔‘

ایف بی آئی نے اپنے حلفیہ بیان میں الزام لگایا ہے کہ ونر نے اعتراف کیا کہ انھوں نے نیشنل سکیورٹی ایجنسی کی خفیہ رپورٹ کو پرنٹ کیا اور اسے دا انٹرسپٹ کو بھیجا اور نیوز ویب سائٹ پر خبر چھپنے کے کچھ ہی دیر بعد، ونر کے خلاف ایف بی آئی کی جانب سے لگائے گئے الزامات عوام کے سامنے پیش کر دیے گئے۔

اس واقعے کے بعد ماہرین نے انٹرنیٹ پر دستیاب ان دستاویزات کی جانچ شروع کی اور انھیں اس میں کچھ دلچسپ نظر آیا:

پیلے نقطے جو مستطیل انداز میں پورے صفحے پر بنے ہوئے تھے۔ یہ نقطے تقریباً غیر مرئی تھے لیکن وہ درحقیقت ایک خفیہ کوڈ کا ڈیزائن تھے۔ ان نقطوں کا جب جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ یہ صفحات کس تاریخ کو کس وقت پرنٹ کیے گئے ہیں، جو کہ نو مئی 2017 کو صبح چھ بج کر 20 منٹ پر تھا۔ ان نقطوں کی مدد سے استعمال ہونے والے پرنٹر کا سیریل نمبر بھی ظاہر ہو گیا تھا۔

سکیورٹی پر کام کرنے والے محققین اور انسانی حقوق کے حوالے سے کام کرنے والے کارکن ان نقطوں کو ’مائیکرو ڈاٹ‘ کہتے ہیں۔ جدید کلر پرنٹرز ان نقطوں کو دستاویز میں چھاپتے ہیں اور کسی کو علم بھی نہیں ہوتا کہ یہ اس میں ہیں۔ اس مخصوص کیس میں ایف بی آئی نے یہ عوامی طور پر تو تسلیم نہیں کیا کہ ان نقطوں کی مدد سے انھوں نے مشتبہ شخص کو پکڑا اور اس مضمون کے لیے بھی انھوں نے سوالات کے جواب نہیں دیے۔ امریکہ کے محکمہ انصاف، جس نے ونر کے خلاف الزامات کی خبر شائع کی تھی، انھوں نے بھی اس بارے میں مزید کوئی وضاحت نہیں دی۔

نیوز ویب سائٹ دا انٹرسیپٹ نے اپنے اعلان میں کہا: ’ ونر پر لگائے گئے الزامات ثابت نہیں ہوئے ہیں اور یہی بات ایف بی آئی کے دعوؤں پر بھی لاگو ہوتی ہے کہ انھوں نے ونر کو کیسے حراست میں لیا۔‘ لیکن اس دستاویز میں موجود مائیکرو ڈاٹس کے بارے میں لوگوں نے بہت دلچسپی دکھانی شروع کر دی ہے۔

ڈاکیومنٹ کلاؤڈ نامی کمپنی سے منسلک ٹیڈ ہان کہتے ہیں کہ ’ اگر اس دستاویز کا قریب سے جائزہ لیں تو وہ نقطے آسانی سے نظر آ جاتے ہیں۔ یہ بڑی دلچسپ بات ہے کہ یہ سب کے سامنے ہے۔‘ اس دستاویز کا جائزہ لینے والے ایک اور محقق تھے راب گراہم جنھوں نے اس بارے میں ایک بلاگ پوسٹ بھی لکھی اور سمجھایا کہ ان نقطوں کا کیا مطلب ہوتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ان نقطوں کی جس جس جگہ موجودگی ہوتی ہے اس کو اگر ایک گرڈ کے ذریعے ماپا جائے تو ان کی مدد سے وقت اور تاریخ کا تعین کیا جا سکتا ہے۔

مائیکرو ڈاٹ کوئی انوکھی یا نئی چیز نہیں اور الیکٹرانک فرنٹئیر فاؤنڈیشن ایک فہرست مرتب کرتی ہے جس میں ان کلر پرنٹرز کا نام ہوتا ہے جو مائیکرو ڈاٹ کا استعمال کرتے ہیں۔ ای ایف ایف نے چند معروف پرنٹرز سے چھاپے گئے ان نقطوں کا جائزہ لیا لیکن ان کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ جاسوسوں کے لیے دلچسپی رکھنے کے علاوہ ان نقطوں کے دیگر فوائد بھی ہوتے ہیں۔ سافٹ وئیر کمپنی ویکٹر فائیو سے منسلک تجزیہ کار ٹم بینیٹ کہتے ہیں کہ لوگ ان کی مدد سے دستاویزات کے اصل یا نقل ہونے کے بارے میں بھی جان سکتے ہیں۔

خفیہ پیغامات

اس قسم کے خفیہ پیغامات کا استعمال بہت عرصے سے ہو رہا ہے۔ یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ بینک نوٹس میں خفیہ نشانات ہوتے ہیں جو ان کے اصل یا نقل کے فرق کے بارے میں بتاتے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم میں اس نوعیت کے نقطوں کو استعمال کر کے پیغامات کے تبادلے بھی ہوئے، جب جرمنی کے دو جاسوسوں نے میکسیکو میں ایک لفافے میں چھوٹے چھوٹے نقطے چپکائے ہوئے تھے جو پرتگال کے شہر لزبن میں ان کے دوسرے ساتھی کے لیے خفیہ پیغام تھے۔ دوسری جنگ عظیم اور اس کے خاتمے کے بعد سرد جنگ کے دوران بھی اس نوعیت کی خفیہ پیغام رسانی کا سلسلہ جاری رہا۔

آج یہ سہولت ہر کسی کو میسر ہے کہ وہ ان مائیکرو ڈاٹس یا مائیکرو ٹیکسٹ کی مدد سے اپنے اثاثوں کو محفوظ بنا سکتا ہے لیکن اس بارے میں کافی لمبی بحث بھی ساتھ ساتھ جاری ہے جس میں یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ آیا ایسا کرنا اخلاقی طور پر درست ہے یا نہیں۔

اس بارے میں تو یہاں تک کہا گیا ہے کہ ایسا کرنا انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے اور امریکی یونیورسٹی ایم آئی ٹی میں ایک پراجیکٹ نے پرنٹر کمپنیوں کے خلاف درج کی جانے والی 45 ہزار سے زیادہ شکایات کی فہرست مرتب کی تھی جس میں اس ٹیکنالوجی کی شکایت کی گئی تھی لیکن ابھی بھی ایسے کئی لوگ ہیں جو سمجھتے ہیں کہ خفیہ دستاویزات کو محفوظ رکھنے کے لیے ایسے ذرائع استعمال کرنا ضروری ہے۔

ٹیڈ ہان کہتے ہیں: ’کچھ چیزیں ایسی ضرور ہیں جو حکومتوں کو خفیہ رکھنی چاہیے لیکن میرا خیال ہے کہ لوگ اس بارے میں ضرور سوچیں گے اور یہ بھی کہ صحافی خود کو اور اپنے ذرائع کو کیسے محفوظ رکھ سکیں۔‘(بشکریہ بی بی سی )

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔