دھوئے گئے ہم ایسے کہ بس پاک ہوگئے

سعد اللہ جان برق  جمعـء 28 مئ 2021
barq@email.com

[email protected]

یہ رونا ہم پہلے بھی روچکے ہیں بلکہ اگر آپ کی یادداشت گجنی کے عامرخان سے بھی کم نہ ہوتی توآپ کو یاد ہوتاکہ ہم آج تک سوائے رونے کے اورکچھ بھی نہیں کرتے رہے ہیں کیوں کہ پشتوکہاوت کے مطابق زورآورمارتا ہے اور کمزور روتاہے۔ حضرت میاں محمد بخش نے کہا ہے لسے دا کیہہ زور محمد

رونا یا نس جانا

(کمزور طاقت ور کے مقابلے کچھ نہیں کر سکتا، سوائے رونے یا پھر بھاگ جانے کے) مطلب یہ کہ رونا ہماراروزکاکام ہے کہ کوئی اورکام نہ ہم نے سیکھاہے نہ کسی نے سکھایاہے اورنہ سیکھنے دیا ہے۔رونے سے فرصت ہو تو کوئی اورکام سیکھے۔ ہم اگر مرشد کے قائل بلکہ طرف دار ہیں تو ویسے ہی نہیں کہ وہ روشن ضمیربھی بہت تھے،برسوں پہلے انھوں نے بھی شاید مکاشفہ میں دیکھ کر کہا تھا۔

رونے سے اورعشق میں بے پاک ہوگئے

دھوئے گئے ہم ایسے کہ بس پاک ہوگئے

یہ روشن ضمیراورپیش گویانہ بصیرت نہیں کہ چوہدری رحمت علی نے ہم رونے والوں کے لیے پاک کا لفظ استعمال کیا تھا۔ انھیں کیا معلوم تھا جس ریاست کو وہ پاک کا نام دے رہے ہیں، اس میں عوام روتے رہیں گے۔بہرحال سیدھے سبھاؤ کہئے کہ ہم رونے دھونے اورپھر اس سے پہلے نچوڑنے کا سترسالہ تجربہ رکھتے ہیں، وہ تو آپ حکیموں، عاملوں،کاملوں کے اشتہارات میں ’’اتنے سالا‘‘ پڑھتے ہوں گے اورتجربے کی اہمیت کاپتہ ہوگا اور پھر سترسالہ تجربہ۔کل ملاکر بات یہ بنی کہ ہم روئیں گے نہیں تو اوکیاکریں گے ۔ تیرا پتہ نہ پائیں تو ناچار کیاکریں۔

اب یہ جو ریاست مدینہ میں نئے نئے مواقع رونے کے پیداہورہے ہیں، انھیں دیکھ کر تو پتھر پھوٹ پھوٹ کررونے لگیں۔

بڑے صاحب نے کہاہے کہ نئے پاکستان کے سارے لوازمات مکمل ہوگئے ہیں اورکسی بھی وقت اسے لانچ کیاجاسکتاہے۔ ادھراپنے والے کے پی کے یعنی ولایت خیرپخیر کہہ رہے ہیں کہ ثمرات آنے لگے ہیں۔مطلب یہ کہ انھوں نے پیڑوں میں دیکھ لیاہوگاکہ…ایک پشتوٹپہ سنئے ۔

سانگہ بہ نن سبا کے گل شی

مائے پہ سرکے سرے غوٹی لیدلی دینہ

یعنی ٹہنی چند ہی روزمیں پھول ہو جائے گی، میں نے اس کے کونپلوں میں سرخ کلیاں دیکھ لی ہیں۔کلیوںسے ان کی مراد شایدوزیر، مشیر، معاون اورخصوصی ہیں۔

غنچہ پھرلگاکھلنے آج ہم نے اپنادل

گم خون کتنے ہوئے دیکھا گم کیاہواپایا

آپ شاید سوچنے لگے ہوں جب یہ گل و گلزار،بہارپربہاراورسب کچھ خوش گوار ہوجائے گا۔تو کیاہوگا؟تو ہم ابھی سے بتادیں کہ پلاؤ کھائیں گے، احباب کا فاتحہ ہوگا،لیکن یہ ہرگزنہیں بتائیں گے کہ پلاؤ کون لوگ کھائیں گے اورفاتحہ کس کاہوگا،کہ یہ سب کچھ صیغہ رازمیں ہے اورجب ستر سال سے یہ رازنہیں کھلاہے تو ہم کیوں کھولیں۔

بات کو گھمائے پھرائے بغیرسیدھے سیدھے ٹریک پر لے آتے ہیں کہ دوباتوں میں ’’کونسی‘‘ ہوجائے گی،چیزوں کے موجودہ نرخ ہیں وہ کم ہوجائیں گے یا بچارا روپیہ ڈالرنہ سہی کم سے کم ریال ہوجائے گا؟ اوراگر یہ دونوں باتیں ناممکن ہیں توکہاں کی ریاست مدینہ، کیسا نیا پاکستان، کیسے ثمراث۔ جب تھانیداراورپٹواری نہیں جا رہاہے تو کیسی آزادی کیسا جشن۔

سناتھا وہ آئیں گے محفل میں،سناتھا ملاقات ہوگی

ہمیں کیاخبرتھی، ہمیں کیاپتہ تھا،نہ یہ بات ہوگی نہ وہ بات ہوگی

وہ کونساکم بخت جرمن تھا جس نے کہاتھا کہ جھوٹ تواتر سے بولاجائے تو وہ سچ بن جاتاہے،  وہ چالاک اور عیار تھا کیونکہ تواتر سے بولاجانے والا ’’جھوٹ ‘‘ سچ نہیں ہوجاتابلکہ جھوٹ کبھی سچ اور سچ کبھی جھوٹ نہیں ہوتا،فرق صر ف یہ ہوجاتاہے کہ جھوٹا مسلسل جھوٹ بولتے بولتے ایک دن اپنے اس جھوٹ کو خود ہی سچ سمجھنے لگتا ہے اوراس یقین کے ساتھ بولتاہے جیسے سچ بول رہاہو،اورسننے والے بھی اسے سچ سمجھ رہے ہیں۔ ہمارے گاؤں میں ایک شخص کو نئی نئی اورخاص طو پر خوف ناک خطرناک اور حیرت ناک خبریں سنانے کا شوق تھا۔

کبھی کہتاوہاں جنگل میں کسی کی لاش پڑی ہے کبھی کہتا فلاں مقام پر ایک عجیب وغریب جانوردیکھاگیاہے،کبھی کسی زبردست ڈاکے کی خبرلاتا تھاچنانچہ ایک مرتبہ وہ خبر لایاکہ فلاں کھائی میں ایک عورت کی لاش پڑی  ہے،کسی ظالم نے بچاری کو قتل کیاہے۔گاؤں کے لوگ بھی اب اس ’’خربوزے‘‘کو دیکھ کر اس کا رنگ پکڑ چکے تھے چنانچہ ایک عورت کی لاش چلتے چلتے پانچ عورتوں کی لاشیں بن گئیں اورگاؤں میں گشت کرنے لگیں، آخر کچھ لوگ اس طرف جانے لگے تو خود وہ خبرسازبھی ان میں شامل تھاکہ کیاپتہ واقعی وہاں پانچ لاشیں موجود ہوں ۔دیکھنے میں کیاحرج ہے۔

اپنے ہاں بھی کچھ کچھ معاملہ ایساہی بنتا جا رہا ہے،ویژن سے ایک بات نکلتی ہے تو وہ بڑی ہوتی جاتی ہے،کچھ ہی دن میں نیاپاکستان جلوہ گر ہو جائے گا،تبدیلی پہنچ چکی ہے،صرف آنکھوں کی سوئیاں باقی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔