’’انڈسٹریل گاؤں‘‘ بسائیں

سید معظم حئی  جمعـء 28 مئ 2021
moazzamhai@hotmail.com

[email protected]

پاکستان کو ہر سال کم ازکم 13 لاکھ نئی ملازمتیں پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اندھا دھند بڑھتی آبادی کی روزگار کی ضرورتیں پوری ہوسکیں۔

تاہم روزگار کی جگہ بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔ گوکہ کاغذوں میں 2020 میں بے روزگاری کی شرح 4.45 فیصد رہی مگر حقیقتاً کورونا جسے ہمارے بھیڑ چال والے میڈیا میں بڑی محنت سے ’’ کورونا ، کورونا‘‘ لکھا اور پکارا جاتا ہے کی وبا نے معمول سے کہیں زیادہ لوگوں کو بے روزگار کیا ہے بلکہ کچھ تخمینوں کے مطابق ڈیڑھ سے دو کروڑ لوگوں کا روزگار متاثر ہوا۔ کورونا کی وبا ابھی تھمی نہیں بلکہ ہم اس کی تند و تیز تیسری لہرکی زد میں ہیں اور حالات پھر بگڑتے جا رہے ہیں۔

تاہم ویکسینیشن کی بدولت امید ہے اس سال کے آخر تک اس وبا کے دباؤ میں بڑی حد تک کمی آجائے۔ مگر وبا یا نو ووبا ملین ڈالر والا سوال اپنی جگہ رہے گا کہ بے روزگار ہونے والے کئی کئی ملین پاکستانیوں کو کہاں سے روزگار ملے گا۔ آخر یہ لٹا پٹا تباہ و برباد لاوارث کراچی اب مزید کتنی لاکھ سرکاری نوکریوں کی تنخواہوں اور مراعات کے خرچوں کا بوجھ اٹھائے گا جب کہ کراچی کے محکوم و مجبور شہری اب خود اپنے روزگار اورکاروبار سے تیزی سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ ہمارے حالات کافی دگرگوں ہو چلے ہیں۔

ہم زرعی ملک ہیں اور کپاس، شکر، گندم اور دالیں امپورٹ کر رہے ہیں۔ ہم ویلیو ایڈڈ برآمدات میں کوئی قابل ذکر اضافہ نہیں کر پائے۔ لے دے کے ایک سروس سیکٹر ہے کہ جس نے حالیہ برسوں میں کچھ ترقی کی ہے اور اس کی ایک شاخ فری لانسنگ سے ہزاروں پاکستانی اب آن لائن آمدنی حاصل کر رہے ہیں لیکن ملک کی حقیقی معاشی ترقی کا یہ معمولی حصہ بھی نہیں بنتا۔

پاکستان کی حقیقی معاشی ترقی صرف صنعتی ترقی سے ممکن ہے۔ دنیا میں آج تک کسی ملک کی معیشت صنعتی ترقی کے بغیر ترقی نہیں کرسکی۔ آپ سنگاپور اور دبئی جیسے ملکوں اور شہروں کی مثالوں میں نہ پڑیں۔ ان کی آبادی ہماری ڈھائی تین فیصد بھی نہیں۔ 2020 میں کورونا کی وبا پھیلنے کے بعد کے صرف 9 مہینوں میں ہی پاکستان میں کوئی 50 لاکھ بچوں کی پیدائش کا تخمینہ لگایا گیا یہ سنگاپور کی کل ستاون لاکھ کی آبادی سے ذرا ہی کم ہے۔ چنانچہ آپ بھول جائیے کہ نرا سروس سیکٹر پاکستان کی معیشت میں کوئی ننھا منا سا بھی انقلاب لاسکتا ہے۔

ناممکن ، مگر صنعتی ترقی ہو توکیسے؟ آپ اگر سچ پوچھیے تو کراچی، فیصل آباد اور سیالکوٹ کی آبادی کے چند طبقات کو چھوڑ کر بحیثیت قوم صنعتی ترقی ہمارے جین میں ہی نہیں۔ آپ دیکھیے ناں کہ 1960 کی دہائی کے آخر تک پاکستان پورے براعظم ایشیا میں جاپان کے بعد سب سے تیزی سے ترقی کرتا صنعتی ملک تھا ، اس صنعتی ترقی سے پورے ملک میں ترقی ہو رہی تھی، ڈیم پہ ڈیم ، تعلیم اداروں پہ تعلیمی ادارے ، بینک ، تجارتی ادارے قائم ہو رہے تھے ، روزمرہ کی اشیا کی قیمتوں میں استحکام تھا جن میں کئی کئی سال تھوڑا سا اضافہ بھی نہیں ہوتا تھا۔ معیار زندگی بتدریج بلند ہو رہا تھا۔ جنوبی کوریا جیسے ملک کی حکومت پاکستان کی نقل کرنے کی کوششوں میں تھی۔

روزگار وافر تھا اور بے روزگاری نہ ہونے کے برابر۔ دنیا بھر میں پاکستان کی عزت تھی۔ پاکستان جرمنی جیسے ملکوں کو امداد دینے والا ملک تھا مگر یہ صنعتی ترقی پیٹ بھرے کمیونسٹ نام نہاد دانشوروں اور خود عوام کو ایک آنکھ نہ بھائی۔

پاکستان کے عوام ملک کی صنعتی و معاشی ترقی وخوشحالی سے زیادہ سیاسی نعروں اور بھنگڑوں و بھڑکوں کے دلدادہ ہیں چنانچہ موقعہ ملتے ہی انھوں نے ایک ایسی پارٹی کو ووٹ دیا جس نے اقتدار میں آنے کے بعد ملک بھرکی صنعتیں ، بینکس ، تجارتی و تعلیمی ادارے قومیا کر قومی معیشت ایسی تباہ کی کہ ملک پھر کبھی معاشی ترقی کی راہ پر نہ آسکا البتہ ’’جمہوری‘‘ سیاستدان اور ان کے کارکن کرپشن کی معیشت سے ککھ پتی سے لکھ پتی، کروڑ پتی، ارب پتی اور اب کھرب پتی بن گئے ہیں مگر ’’جمہوریت‘‘ کا یہ حسن ہے کہ بڑھتا ہی جاتا ہے اور پیٹ ہیں کہ بھرتے ہی نہیں۔

پاکستان صنعتی ترقی کے لیے اب موزوں ملک نہیں رہا۔ یہاں صنعتی ترقی کے لیے نہ ملک گیر پالیسیاں بنائی جاسکی ہیں نہ ان پر عمل ہو سکتا ہے۔ میثاق کرپشن کے بعد کی جانے والی اٹھارہویں ترمیم نے ملک کو عملی طور پر چار خودمختار ریاستوں پہ مشتمل ایک ڈھیلی ڈھالی کنفیڈریشن میں بدل دیا ہے۔ ادھر عملاً پورے ملک پر مافیاؤں اور جتھوں کا راج ہے۔

ملک کی حالت کی ذمے دار کوئی ایک سیاسی یا آمر حکومت نہیں بلکہ 60 سال سے اس ملک پر قابض مقامی حکمران اشرافیہ ہے، اور یہی ہمارا بنیادی مسئلہ ہے کہ اس ملک کی مقامی حکمران اشرافیہ نے اپنی ہزار ، دو ہزار سال کی تاریخ میں کبھی بھی کسی سلطنت ، مملکت یا ملک پر حکومت نہیں کی ، زیادہ سے زیادہ راج واڑے چلائے ہیں اور وہ بھی طفیلی، باج گزار، کرائے کے راجواڑے چنانچہ یہ مقامی حکمران اشرافیہ پچھلے خصوصاً پچاس سالوں سے اس ملک کو بھی کرائے کے ایک راجواڑے کی طرح چلا رہی ہے۔

تو اب آپ بتائیے کہ بھلا آج کل کے زمانے میں اس قدیم راجواڑے میں کون آ کر صنعتیں لگائے گا؟ اگر کبھی کوئی بھولا بھٹکا بدنصیب یہاں کوئی کارخانہ لگانے کی غلطی کر بھی بیٹھے تو اس پر بھانت بھانت کے درجنوں سرکاری محکموں کے افسر و اہلکار حرام مال کی بھوک میں اس پر بھوکے بھیڑیوں اور گدھوں کی طرح ٹوٹ پڑتے ہیں اور اس وقت تک اسے نوچتے رہتے ہیں جب تک وہ جان چھڑا کر بھاگنے میں کامیاب نہ ہو جائے۔گوکہ اس ملک میں اس ملک کی صنعتی ترقی کے لیے کوئی آئیڈیا دینا کوئی اچھا آئیڈیا نہیں کیونکہ سب کو سیاست اور مال میں دلچسپی ہے پھر بھی ہم اپنا فرض پورا کرنے کو ’’ انڈسٹریل گاؤں بسانے‘‘ کا آئیڈیا پیش کیے دیتے ہیں۔

یعنی ایسے خصوصی بسائے گئے انڈسٹریل گاؤں جو برآمدی صنعتوں پر مشتمل ہوں، جن کے ٹیکس وغیرہ پانچ پانچ سال کے لیے فکس ہوں اور یہ تمام کرپٹ سرکاری اداروں کے دائرہ اختیار سے باہر ہوں۔ یہ گاؤں خود اپنی گرین توانائی پیدا کریں اور اپنے ورکروں کو رہائشی سہولت دیں، ان انڈسٹریل گاؤں میں ضرورت سے زیادہ ایک آدمی کو بھی آ کر رہنے کی اجازت نہ ہو، ان کی حفاظت خصوصی فورس کرے۔ یہ اس آئیڈیے کا بنیادی خاکہ ہے ظاہر ہے اس کی تفصیلات طے کی جاسکتی ہیں مگر بھلا یہاں کس کو ملک کی صنعتی ترقی میں دلچسپی ہوگی؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔