پاکستان میں سرمایہ کاری کے بڑھتے ہوئے رجحانات

ایم آئی خلیل  ہفتہ 18 جنوری 2014

یورپی یونین کی جانب سے پاکستان کو جی ایس پی پلس کا اسٹیٹس ملنے کے بعد کئی ممالک اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کی جانب سے پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کی خواہش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ گزشتہ ہفتے ہی حکومت پنجاب اور چینی کمپنی کی جانب سے دو ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کے لیے مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کیے جاچکے ہیں۔ موٹروے کے قریب کا علاقہ اس مقصد کے لیے مختص کیا جاچکا ہے، جب کہ سعودی عرب نے ہائیڈرل پاور جنریشن منصوبوں کے لیے بھاری سرمایہ کاری کی پیش کش بھی کی ہے۔ بیرون ممالک کی کئی سرمایہ کار کمپنیوں نے پاکستان کی سرمایہ کاری کی پالیسی کو خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں سراہا ہے۔

برطانیہ، ترکی، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین و دیگر ممالک کی سرمایہ کار کمپنیاں پاکستان میں سرمایہ کاری کا جائزہ لے رہی ہیں۔ لیکن یہاں تشویشناک امر یہ ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں فرنٹ مین کا کردار ادا کر رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ملک میں دہشت گردی کے باعث بے پناہ جانی و مالی قربانی بھی دے رہا ہے، اس کے باوجود ترقی یافتہ ممالک اپنے سرمایہ کاروں تاجروں کو پاکستان کے بارے میں خوفزدہ کرتے رہتے ہیں۔ اکثر و بیشتر اپنے ممالک کے شہریوں کو آگاہ کیا جاتا ہے کہ وہ پاکستان کا سفر کرنے میں محتاط رہیں۔ لہٰذا ترقی یافتہ ممالک کے تاجر و سرمایہ کار پاکستان کا رخ کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔ اکثر و بیشتر زیادہ تر تاجروں کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ دبئی میں ہی کاروباری ڈیل کرلی جائے۔ وہ پاکستان کے بڑے شہروں کراچی، لاہور و اسلام آباد وغیرہ آنے کی زحمت ہی نہیں کرتے۔

آئی ایم ایف کی طرف سے جو شرائط عائد کی جاتی ہیں اگر سرمایہ کاری کے حوالے سے دیکھی جائیں تو وہ سرمایہ کار دوست پالیسی نہیں ہوتی ہے۔ کوئی بھی سرمایہ کار سرمایہ کاری سے قبل اس ملک میں بجلی گیس کی قیمتوں کا جائزہ لیتا ہے۔ اگر ان قیمتوں میں استحکام نہیں پایا جاتا ہے تو ایسی صورت میں اسے اپنے منافع میں کمی کا خدشہ پیدا ہوتا ہے۔ آئے روز بدلتی ہوئی قیمتوں کے باعث کسی بھی مصنوعات کے بارے میں صحیح لاگت کا اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے۔ آئی ایم ایف ہر دوسرے تیسرے مہینے احکامات صادر کردیتا ہے کہ بجلی گیس وغیرہ کی قیمتوں میں اضافہ کردیا جائے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں جتنی بھی حکومتیں آتی رہی ہیں وہ ملکی بجلی، گیس کی ضروریات کا صحیح اندازہ نہیں لگا سکی ہیں یا اس طرف بھرپور توجہ نہیں دی گئی ہے یا پھر توانائی کی پیداوار کے لیے انتہائی مہنگے ذرایع پر انحصار کیا گیا ہے جس کے باعث بجلی کی لاگت میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے اور یوں صورت حال گمبھیر ہوتی چلی جارہی ہے۔

چند سال قبل 2007 تک بجلی گیس کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ نہیں ہو رہا تھا۔ اس طرح 2007 میں ملک میں بیرونی سرمایہ کاری کا حجم 8 ارب ڈالر سے بھی زیادہ تھا۔ جو اب گھٹ کر گزشتہ مالی سال تک نصف ارب ڈالر تک گر چکا ہے۔ البتہ نئی حکومت کے قائم ہونے کے ساتھ ہی غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافے کا رجحان پایا جا رہا ہے۔ خصوصاً جی ایس پی کا اسٹیٹس ملنے کے بعد سے پاکستان میں سرمایہ کاری کے رجحان میں تیزی پائی جا رہی ہے۔

ادھر گزشتہ کئی مہینوں سے اسٹاک ایکسچینج مسلسل ریکارڈ بنائے جا رہا ہے۔ غیر ملکی فرمیں اسٹاک کے کاروبار میں سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔ سرمایہ کاری کی مجموعی مالیت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ گزشتہ دنوں اسٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کاری کی مجموعی مالیت 64 کھرب 64 ارب روپے تک جا پہنچی تھی۔ ادھر عالمی سرمایہ کی منڈی میں پاکستانی حکومت کے بانڈز بھی تیزی کے ساتھ خریدے گئے ہیں۔ 17 دسمبر 2013 کو لندن میں پاکستان برطانیہ تجارت و سرمایہ کاری کانفرنس بھی ہوئی تھی۔ جی ایس پی کے باعث یہ کانفرنس انتہائی اہمیت کی حامل بن چکی تھی۔ گزشتہ سال جب برطانوی وزیراعظم پاکستان کے دورے پر آئے تھے اس موقع پر دونوں ممالک کے وزرائے اعظم نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ جلد ہی دونوں ملکوں کی باہمی تجارت کو 3 ارب پاؤنڈز تک لے جایا جائے گا۔

اس وقت 100 سے زائد برطانوی کمپنیاں پاکستان کے مختلف شہروں میں کامیابی کے ساتھ اپنا کاروبار جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ماہ دسمبر میں بھی ترکی کے وزیراعظم ایک تجارتی وفد کے ساتھ پاکستان کے دورے پر تشریف لائے تھے۔ ان کے ساتھ آنے والے تاجروں، صنعتکاروں نے ملک میں مختلف منصوبوں اور شعبوں میں دلچسپی لیتے ہوئے پراجیکٹ شروع کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ چینی کمپنی نے بھی صرف بجلی کے ہی 4 منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ ان میں تھر میں کوئلے سے 900 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کا منصوبہ، دوسرا منصوبہ 660 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کا منصوبہ ہے جوکہ لاہور میں لگایا جائے گا۔ تیسرا شمسی توانائی کا منصوبہ ہے جس کے تحت 300 میگاواٹ بجلی حاصل کی جائے گی اور یہ منصوبہ بہاولپور میں لگایا جائے گا۔ اسی طرح 500 سے 1000 میگاواٹ بجلی کے حصول کا بھی ایک منصوبہ زیر غور ہے۔

پاکستان میں گیس کی قلت پائی جاتی ہے، گزشتہ کئی عشروں سے اس قلت پر قابو پانے کے سلسلے میں عملی اقدامات نہیں کیے گئے۔ البتہ لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بڑھا دیا جاتا ہے، یعنی مختلف صنعتوں کو کئی روز کے لیے گیس بند کردی جاتی ہے یا کئی ماہ تک انتہائی معمولی مقدار میں گیس فراہم کی جاتی ہے۔ جس کے باعث پیداوار کا حصول ناممکن ہوکر رہ جاتا ہے۔ پنجاب کی مختلف صنعتیں بھرپور پیداوار سے قاصر ہیں۔ گیس کی فوری درآمد کا طریقہ ایل این جی گیس ہے۔

گزشتہ دنوں جب یمن کے وزیر صنعت و تجارت پاکستان آئے تو اس سلسلے میں بات ہوئی تھی۔ جس کے بارے میں بتایا جارہا ہے کہ نومبر 2013 سے ایل این جی گیس کی درآمد ممکن ہوسکے گی۔ حالانکہ اس سلسلے میں پہلے ہی گفت و شنید کرکے آخری مراحل طے کر لیے جاتے اور سردیوں کے آغاز سے ہی ایل این جی گیس درآمد کرلی جاتی۔ یہاں پر اس بات کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے کہ سی این جی بند کردی جائے۔ گیس کی لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بڑھا دیا جائے یا صنعتوں کو کئی ہفتوں کے لیے گیس کی بندش سے دوچار کردیا جائے۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ بڑھا دیا جائے۔

موجودہ حکومت کو اس سلسلے میں ایسے اقدامات بروئے کار لانے چاہئیں جس سے توانائی بحران کے مسائل سے احسن طریقے سے نمٹا جائے۔ واضح پالیسی ہونی چاہیے، تمام امور اور مستقبل کی ضروریات کا صحیح اندازہ لگا کر ہی بہترین منصوبہ بندی کی جاسکتی ہے۔ توانائی بحران کا حل انتہائی ضروری ہے کیونکہ پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری کے بڑھتے ہوئے رجحانات کو کامیاب کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ملک سے توانائی کے بحران کو جلد از جلد حل کیا جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔