فلسطینیوں کی شہادتیں اور مسلم حکمران

عمران احمد سلفی  اتوار 30 مئ 2021

اسرائیلیوں کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ خوف لالچ ،دھونس ،دھاندلی اور مغربی ممالک کی زیر سرپرستی طاقت کے بے دریغ استعمال کے ہتھکنڈوں کے ذریعے زیادہ سے زیادہ فلسطینی سرزمین پر قبضہ جمایا جائے اور مسلم آبادی کو ان کی زمینوں سے بے دخل کر کے یہودیوں کو جو پوری دنیا میں بکھرے ہوئے ہیں یکجا کر کے فلسطین میں آباد کیا جائے۔

اس عمل میں اسرائیل کو امریکا،برطانیہ، روس اور دیگر مغربی ممالک کی مکمل تائید حاصل رہتی ہے اگرچہ یہ مغربی ممالک دنیا بھر میں اپنی جمہوریت، انسانیت اور اعلیٰ اقدار کا ڈھنڈورا پیٹتے نہیں تھکتے۔

انھیں انڈونیشیا کے مشرقی تیمور میں تو ظلم نظر آ جاتا ہے لیکن فلسطین، برما ،کشمیر میں بہتا ہوا انسانی لہو دہشت گردی نظر نہیں آتا ہے ،اس پر مستزاد یہ کہ اقوام متحدہ جو کہ ظلم و انصافی کے خلاف مظلوموں کی داد رسی کا بین الاقوامی چارٹر اپنے سر پر سجائے پھرتا ہے وہ بھی وہیں کارروائی کرتا ہے جہاں امریکا، برطانیہ و دیگر مغربی ممالک چاہتے ہیں۔

فلسطین میں جاری تشدد کئی برس قبل بالخصوص تحریک انتفادہ کے وجود میں آنے کے بعد بہت اضافہ ہو گیا تھا،جب یاسر عرفات کے ذریعہ امریکا نے امن مذاکرات کے نام پر اسرائیل اور فلسطین اتھارٹی کو یکجا بٹھانے کا ڈرامہ کیا تھا۔

یہ مذاکرات محض اسرائیل کی ہٹ دھرمی اور ہوس ملک گیری کے لیے جاری متشددانہ پالیسیوں کی وجہ سے بار آور نہ ہو سکے تھے۔بلکہ فلسطینیوں کی نسل کشی کے لیے امریکا بش انتظامیہ نے بھی 11 ستمبر کے بعد اسرائیل کو کھلی چھوٹ دے دی تھی جسکی وجہ سے آج فلسطین کا مسئلہ بین الاقوامی سطح پر FOCUS ہوگیا ہے اور اسرائیلی فوجی کارروائیوں کا منطقی نتیجہ فلسطینیوں میں ایک نیا جذبہ آزادی خودکش حملوں کی صورت میں پروان چڑھ رہا تھا۔

حالیہ دنوں میں اسرائیل کا بیت المقدس میں نمازیوںپر دہشت گردانہ حملے اور فلسطینیوں کی شہادتوں میں مسلسل اضافہ ہوا ہے، گو کہ گیارہ دن بعد اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی ہوگئی ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کشت و خون کا یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا۔ عالمی ضمیر کب بیدار ہوگا؟ آیا امت مسلمہ کے وجود میں زندگی کی رمق بھی باقی ہے یا نہیں؟ OIC کا کردار کیا ہے؟

حالیہ اجلاس میں قرارداد ایک مذمتی اعلامیہ تک محدود رہی، ایسے ماحول میں جب کہ عالم اسلام بحیثیت مجموعی بے حسی اور خوف و دباؤ کا شکار ہے کہ مبادا امریکا کہیں کسی ملک کو دہشت گرد قرار دے کر اپنے اتحادیوں کے ہمراہ چڑھ نہ دوڑے اور واحد سپر پاور ہونے کے دعویٰ کے ساتھ اسلامی ممالک کو تاخت و تاراج نہ کردے۔آخر کار امریکا نے اپنی وفاداری کا حق ادا کیااور موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن کا القدس سے متعلق کردار عالم اسلام کے قلب پر خنجر گھوپنے کے مترادف ہے ۔

سعودی عرب کی تجویز کے مطابق اگر اسرائیل 1967ء کی جنگ اور مابعد قبضہ کیے گئے علاقے خالی کردے اور جنگ سے پہلے کی پوزیشن پر واپس چلا جائے تو عرب ممالک بھی خیر سگالی کے طور پر اسرائیل کو تسلیم کر لیں گے اور باہمی امن کے قیام کے لیے مشترکہ کوششوں میں حصہ لیں گے۔

اس طرح اگرچہ بحیثیت امت مسلمہ اسرائیل کے ناجائز و ناپاک وجود کو سند قبولیت حاصل ہو جائے گی اور فلسطین جو کہ پورے کا پورا مسلمانوں کا ہے اور یہودیوں کو امریکا،روس اور دیگر ممالک سے لاکر ناپاک یہودی تسلط ہر گز پسندیدہ نہیں ہو سکتا لیکن ان سب کے باوجود سعودی امن فارمولا فلسطین اسرائیل تنازعہ کی گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ایک امید کی کرن ثابت ہو سکتا تھا، بشرطیکہ اسرائیل بھی اس منصوبہ کو سند قبولیت عطا کرتا اور صدق دل سے امن کا خواہاں ہوتا اگرچہ اب تک اسرائیل کا جو کردار ہمارے سامنے ہے اس کے مطابق تو اس کی طرف سے کسی مثبت پیش رفت کا اظہار ممکن نہیں ہے۔

البتہ اگر امریکا، برطانیہ، فرانس، روس و دیگر مغربی ممالک اس پر دباؤ ڈالیں تو شاید ایسا ممکن ہوتااور فلسطینی جو اپنے ہی وطن میں بے گھر کر دیے گئے ہیں انھیں کسی حد ریلیف مل سکتا ہے اور آئے دن کی دہشت و بر بریت اور قتل و غارت گری کا سدباب ہو سکتا تھا۔

چونکہ اسرائیل کا سابق وزیر اعظم ایریل شیرون بھی فلسطینی مہاجر کیمپوں پر بربریت کا ذمے دار رہا ہے اور اس کے بر سر اقتدار آنے کے بعد اسرائیلی فوجی تشدد و بربریت میں حیرت انگیز طور پر اضافہ ہوا تھا۔وہ وحشی درندا مسلمانوں کے خون کا پیا سہ رہا اور کسی طور اپنی حقیقی دہشت گردی سے بعض آنے والا نہیں تھا مگر پھر بھی اس امید پر سعودی امن فارمولے کی دنیا بھر میں تائید و ستائش کی تھی کہ اس طرح نصف صدی سے ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار دونوں متحارب گروپوں کو امن و سلامتی سے رہنے کا موقع فراہم ہو سکتا تھا۔

بادی النظر میں یہ فارمولا بہت پر کشش تھا مگر اسرائیلی ہٹ دھرمی کا ریکارڈ ماننے والوں کے لیے یہ بات قرین قیاس محسوس ہوتی ہے کہ بیل منڈھے نہیں چڑھے گی کیونکہ اسرائیل اس فارمولے سے اتفاق نہیں کرے گا اور اگر بادل نخواستہ اس پراتفاق کر بھی دے تو جس طرح یاسر عرفات کے ساتھ امریکی نگرانی میں مذاکرات کا حشر کیا وہی سلوک اس منصوبے کے ساتھ کر سکتا ہے اور مشرق وسطیٰ میں امن کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو پایا۔

بہرحال امید پر دنیا قائم ہے، اگر امریکا بہادر چاہتا تو یہ مسئلہ مشرقی تیمور کی طرح حل ہو سکتا تھا، عالم اسلام کا اتحاد و اتفاق جرآت و بے باکی کفار سے مرعوبیت کا خاتمہ سیاسی معاشی اقتصادی سائنسی تعلیمی اور دیگر شعبہ ہائے زندگی میں ترقی ایک بار عہد اسلام کے احیا کا سبب بن سکتے ہیں اور مسلمان اپنا کھویا ہوا وقار و عظمت رفتہ حاصل کر سکتے ہیں بشرطیکہ قرآن و سنت سے خالص وابستگی اور دیگر تمام نظریات باطل سے مکمل علیحدگی اختیار کرلیں۔

تمام اسلامی سربراہان ذمے داری محسوس کریں کہ وہ عالمی ضمیر بیدار کر نے کے لیے فعالیت کا مظاہرہ کریں اور OIC کے بے جان وجود میں نئی روح پھونکیں تاکہ وہ اسلامی مفادات کے تحفظ کا فریضہ صحیح معنوں میں ادا کر سکیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔