کوئی بھوکا…نہیں سوئے گا

سعد اللہ جان برق  پير 31 مئ 2021
barq@email.com

[email protected]

بالکل ٹھیک بلکہ ٹھیک ’’ٹاک‘‘ ہے یعنی سو فی صد ٹھیک ’’ٹاک‘‘ ہے کہ اب کوئی بھوکا نہیں سوئے گا۔ ویسے تویہ بات ہمارے امیرالمومینین اور والی ولایت خیرپخیر نے کہی ہے لیکن سنئے تو چاروں اطراف بلکہ شش جہات سے یہ آواز آرہی ہے اوراگر معاون خصوصیان کی آوازوں کو بھی شامل کردیںتو…

اب دوعالم سے یہی صدائے سازآتی ہے مجھے

دل کی آہٹ سے یہی آوازآتی ہے مجھے

لیکن ہمارے خیال میں اس جملے میں۔یہ پہلے والے دوالفاظ فالتوہیں۔یعنی اب کوئی …بھوکا نہیں سوئے گا۔

کیوںکہ اب اورتب یاآج اورکل کی کوئی بات نہیں، تاریخ کی تمام کتابوں میں کوئی ایک بھی ایسا واقعہ درج نہیں ہے کہ کوئی ’’بھوکا سویا ہو‘‘۔ ہرظل اﷲ،ظل الٰہی اورسایہ ذوالجلال کے دور میں کبھی کوئی بھوکا نہیں سویا،کیوں کہ کسی بھوکے کو نیند کہاں آتی ہے۔ رحمان بابا نے بھی کہاہے کہ

خوب خندا پہ بے غمی کیگی رحمانہ

چہ پہ زڑہ کے دیارغم وی سہ بہ خو ب کا

یعنی سونا اورہنسنا ’’بے غمی ‘‘سے ہوتا ہے اورجس کے دل میں ’’یار‘‘ کاغم ہو وہ کیا سوئے گا،انھوں نے تو’’یارکاغم‘‘کہاہے لیکن ’’غم‘‘ کوئی بھی ہومثلاً بے چارے وزیروں، مشیروں کو قوم کاغم توہمیشہ ہوتا ہے بلکہ بہت زیادہ ہوتاہے، کم سے کم درد سے تو زیادہ ہوتاہے، اس سے بیچارے ۔

نیند کیا آئے گی فراز

موت آئی تو سو لیں گے

کیوں کہ ان کو پتہ ہوتاہے کہ ’’موت‘‘ کم ازکم جیتے جی تو ان کے پاس آتی نہیں، اگر زبردستی بذریعہ بم یاکلاشن کوف لائی بھی جائے گی تو وہ اتنا کچھ سیکھ چکے ہیں کہ موت کوبھی موت دے دیں گے ۔

گولی بغیر مرنہ سکا لیڈراے اسد

بچپن میں وہ پئے ہوئے بلی کا دودھ تھا

خیر۔موت کو ایک طرف کردیجئے، بات سونے کی ہورہی ہے اورجس جملے یاخوشخبری یا قوالی کی آج کل دھوم ہے کہ اب کوئی بھوکا نہیں سوئے گا۔سراسر یہ دھاندلی ہے، دھوکا ہے، فریب ہے، نوسربازی ہے کیونکہ بھوکانہ پہلے کبھی سویا تھا،نہ اب سوئے گا، کیونکہ بھوک کی وجہ سے کوئی سو نہیں سکتا جب تک اس کا پیٹ نہ بھر جائے۔

ویسے بھی سب جانتے ہیں کہ جوسوتاہے وہ کھوتاہے لیکن اس ’’سونے‘‘میں بھی بڑا ابہام ہے کیونکہ ظل اللہ کے بابرکت سایے میں دونوں ’’سونے‘‘ وافر ہوتے ہیں، لوگ پیٹ بھر کر سوتے بھی ہیں اورجب جاگتے ہیں تو سونا اچھال اچھال کر جاتے ہیں تاکہ شیر اوربکری کو ایک ہی گھاٹ پر پانی پیتے دیکھ کرعنداللہ ماجورہوں اورظل اللہ کے لیے ’’گاڈسیودی کنگ‘‘ گائیں۔

آپ تو جانتے ہیں کہ ہم ڈرتے بہت ہیں، اس لیے اس فقرے میں بھی ہمیں بہت بڑا’’ڈر‘‘ دکھائی دے رہاہے ۔اب تو خیرخدائے فضل،آئی ایم ایف کی اورریاست مدینہ کی برکت سے ہم بھوکے نہیں سوئیں گے کہ جگہ جگہ لنگرخانے ہوں گے اورگوشت پکے گا، روزپلاؤ کھائیں گے اورحلوہ کھا کر سوئیں گے۔لیکن اگر خدانخواستہ خدانخواستہ کچھ ایسا ویسا ہوگیاجیساکہ اکثر ہوتاہے تو ہم تو مفت کی کھاکھا کر بلکہ ڈکار ڈکار کر سونے کے عادی ہوچکے ہوں گے اورعادت تو چھٹتی ہے نہیں۔ تو پھر کیاہوگابلکہ تیراکیابنے گا کالیا۔اورہمارے اس ڈر کے پیچھے ایک حقیقہ ہے۔

گاؤں کے لوگ ایک شخص کے بارے میں کہتے تھے کہ وہ اپنے ڈیرے میں لوگوں کومفت چرس پلاتاتھا، لوگ جوق در جوق آتے اور مفت کے سوٹے مارتے اورجب اچھی طرح عادی ہوجاتے تو وہ شخص اپناہاتھ کھینچ لیتا۔اس کافقرہ اب بھی ہمارے گاؤں میںمروج ہے کہ بھئی منگنی میں نے کرا دی ہے، اب شادی جانے اورتم جانو۔ یعنی اب خرید کر پیو اورپھر اپنا دھندہ چلادیتا۔

ایک مرتبہ پھر خدانخواستہ ،خدانخواستہ اگر ایسا ہوگیا تو۔اگر لنگرخانے بند ہوگئے تو۔نکل کر تیری محفل سے یہ ’’سونے والے‘‘ کہاں جائیں گے۔گویا پھرجگاڑ ہی جگاڑ…

ساقیا آج مجھے نیند کہاں آئے گی

سنا ہے تیری محفل میں رت جگا ہے

اس مسئلے پر تو بات ہی نہیں کرینگے کہ بھیک مانگ مانگ کر بھیک دینا ٹھیک ہے یاغلط ؟ کیونکہ جب حکومت کہتی ہے، سربراہ حکومت کہتاہے ، چھوٹے بڑے سارے ستارے نین تارے کہہ رہے ہیں تو ٹھیک ہی کہتے ہونگے ورنہ ہمارا اپنا تجریہ تویہ ہے کہ اگر کارخانے سے برف کی سل چلتی ہے توراستے کے گرم مقامات پر پگھلتے پگھلتے ،اخروٹ جتی برف رہ جاتی ہے۔

ایک مرتبہ پھر ہم نے کسی اخبار میں ایک کارٹون دیکھاتھا۔ایک شخص بغل میں مرغی دبائے بس پر چڑھ رہاتھا لیکن جب وہ بس سے اتررہاتھا تو اس کی بغل میں صرف ایک ’’پر‘‘ دباہواتھا۔

ویسے ایک کہاوت ہے کہ قرضہ جب سو روپے سے بڑھ جائے تو پھر گھی چاول ۔

ہرطرف ابرکرم ہے تو ادھر اشک رواں

میری دنیامیں ہمیشہ یہی برسات رہا

کوئی بھوکا۔۔نہیں سوئے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔