روک سکو تو روک لو...

محمد کامران کھاکھی  منگل 1 جون 2021
موجودہ حکومت ہر غلطی کا ملبہ بڑی ڈھٹائی سے گزشتہ حکومتوں پر ڈالے جارہی ہے۔ (فوٹو: فائل)

موجودہ حکومت ہر غلطی کا ملبہ بڑی ڈھٹائی سے گزشتہ حکومتوں پر ڈالے جارہی ہے۔ (فوٹو: فائل)

ایک مالشیا اپنے روزگار کی تلاش میں پارک میں موجود لوگوں کو آواز دے کر اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کررہا تھا کہ کاٹن کے صاف ستھرے لباس میں موجود بارعب شخص نے اسے اپنی مالش کرنے کا کہا۔ مالشیا بہت خوش ہوا کہ چوہدری صاحب کی اچھے سے مالش کروں گا تو اپنی مزدوری کے ساتھ کچھ بخشش بھی مل ہی جائے گی۔

اس نے اپنی سائیکل کھڑی کی اور تیل کی شیشیاں اتار کر چوہدری صاحب کی مالش کرنے میں مصروف ہوگیا۔ اتنی دیر میں ایک شخص وہاں آیا اور بڑے زور سے کہا ’’کیا حال ہیں چوہدری صاحب؟ کیسے ہیں؟‘‘ چوہدری نے کوئی جواب نہیں دیا اور اپنی آنکھیں بھی بند ہی رکھیں تو اس شخص نے کہا ’’چوہدری جی میں ذرا کام سے جارہا ہوں، یہ سائیکل لے کر جارہا ہوں، آپ مالش کرائیں اور میں ابھی آیا۔‘‘

مالشیا سمجھا چوہدری کا کوئی جاننے والا ہے تو وہ چپ رہا اور وہ شخص اس کی سائیکل لے کر چلا گیا۔ کچھ دیر بعد مالشیے نے کہا کہ چوہدری صاحب وہ آپ کا جاننے والا آیا نہیں ابھی تک؟ چوہدری نے کہا وہ میرا جاننے والا نہیں تھا پتہ نہیں کون تھا۔

مالشیے کے تو ہوش ٹھکانے آگئے اور وہ رونے لگا کہ چوہدری جی وہ تو میری سائیکل بھی لے گیا۔ چوہدری نے کہا اچھا رو مت، چل میں تجھے نئی سائیکل لے کر دیتا ہوں۔ مالشیا بہت خوش ہوا اور دل سے چوہدری کو دعائیں دینے لگا کہ کتنا اچھا بندہ ہے۔ چوہدری اسے لے کر سائیکل کی دکان پر گیا اور ایک سائیکل پسند کرکے مالشیے سے کہا کہ اسے چلا کر دیکھ لے، ٹھیک ہے نا۔ مالشیے نے چلا کر دیکھی اور کہا کہ چوہدری جی بالکل ٹھیک ہے۔
چودھری بولا ’’تو بھی ناں بالکل بے وقوف ہے۔ مجھے لگتا ہے اس کا فریم کچھ ٹیڑھا ہے۔ لا میں چلا کر دیکھتا ہوں‘‘۔

چوہدری جی سائیکل لے کر نکلے اور پھر واپس نہیں آئے اور مالشیا بے چارہ اپنی سائیکل کے ساتھ ایک نئی سائیکل کے پیسے دینے کا مقروض بھی ہوگیا۔

آج ہمارے حکمران بھی چوہدری اور اس کے ساتھی جیسے ہیں اور عوام کی حالت اس مالشیے جیسی ہے کہ جو ان کے بھلے کی تھوڑی سی بات کردے یہ اپنے تن من دھن سے اس کی پوجا شروع کر دیتے ہیں اور پھر اس سے دھوکا کھانے کے بعد بھی کچھ عقل سے کام نہیں لیتے، بلکہ پورے زور و شور سے اگلے حاکم کے گن گانے شروع کردیتے ہیں۔

جب پاکستان کی معاشی ترقی کی شرح تقریباً چھ فی صد کے قریب تھی تو اس وقت کچھ چوہدریوں نے کہا کہ ہمارے ملک کے غریب عوام کو مقروض کردیا گیا ہے اور ہر ایک شخص اتنے کا مقروض ہے اور یہ سب ان حکمرانوں نے کیا اور اپنے گھر کو بھرتے جارہے ہیں اور ان کے اپنے اثاثوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ عوام نے اس آواز پر لبیک کہا اور پھر نئی سائیکل ملنے کی خوشی میں عوام نے چوہدری صاحب کو حکومت میں لا کر بٹھا دیا۔ پھر کچھ عرصہ تو سائیکل چوروں کی خوب برائیاں ہوتی رہیں اور اسی اثنا میں معاشی ترقی کی شرح دھڑام سے منفی صفر اعشاریہ چار پر جا پہنچی۔ پچھلی حکومتوں کا اربوں روپیہ قرض واپس کرنے کے باوجود قرضہ پچاس فیصد تک بڑھ گیا، ترقیاتی کام بالکل بند ہوگئے، مہنگائی آسمان کو چھونے لگی تو یہ سب پہلے والے چوہدریوں کے کھاتے میں ڈالا گیا۔

پھر یوں ہوا کہ اچانک سے معاشی ترقی کی شرح بڑھنے لگی اور صرف ایک ہفتے کے اندر اندر یہ دو اعشاریہ نو سے چار فیصد تک ہونے کی امید اجاگر کی جانے لگی ہے اور وجہ بھی شاندار ہے کہ اس بار فصل بہت اچھی رہی اور وہ بھی گندم کی، مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اب آٹا بھی سستا ہوجائے گا۔ گنا بھی ہمارے اندازے سے زیادہ پیدا ہوگیا مگر چینی کی قیمت کم ہونے کی اگر امید ہے تو مت رکھیں، کیونکہ چینی اسی قیمت پر ہی ملے گی۔ غیر ملکی سرمایہ کاری میں بھی اضافہ ہوا جس سے روپیہ مستحکم ہوا مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اب روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوجائیں گے۔ بلکہ بے روزگاری میں روز بروز اضافہ ہوتا جائے گا۔ کاٹن کی پیداوار میں ریکارڈ کمی کے باوجود ہماری ٹیکسٹائل انڈسٹری مضبوط ہوئی ہے اور کپڑا مزید مہنگا ہوا جاتا ہے۔

کسی بھی گھر میں اگر اولاد میں سے کوئی نالائق نکل آئے تو اسے بار بار طعنے ملتے ہیں کہ کچھ کرتا نہیں، مفت کی کھانے کی عادت پڑچکی ہے، آوارہ گردی سے فرصت ملے تو کچھ کرے ناں، کھانے کو مل رہا ہے تو ہاتھ پاؤں چلانے کی کہاں سوچے گا، دیکھ ذرا فلاں کو، کیسے دن رات محنت کرکے اپنے گھر والوں کا پیٹ پال رہا ہے، اپنے بوڑھے ماں باپ کا احساس ہی نہیں وغیرہ وغیرہ۔

اگر اس میں کچھ شرم ہو تو محنت کرنے کی کوشش کرتا ہے اور آخر کچھ کمانا شروع کردیتا ہے، ورنہ تنگ آکر یا تو وہ ڈھیٹ بن جاتا ہے، یا بدمعاشی شروع کردیتا ہے یا بلند بانگ دعوے کرنا شروع کردیتا ہے۔ کچھ یہی حال ہماری حکومت کا بھی ہے کہ ہر طرف نااہلی کے شور اور پچھلی حکومتوں میں کیے گئے ترقیاتی کام ان کےلیے عذاب بنے ہوئے ہیں۔ اسی لیے کبھی پچھلی حکومتوں کے شروع کردہ کاموں پر اپنی تختی لگا کر دل کو تسلیاں دیتے ہیں، کبھی بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا نام بدل کر احساس رکھ لیتے ہیں اور لوگوں کو بتانے پر مجبور ہوتے ہیں کہ یہ میرا پروگرام ہے اور کبھی بلند بانگ دعوے کہ ہماری بہترین کارکردگی سے اتنا فائدہ ہوا۔ ہماری حکومت میں پہلی دفعہ عوام نے تاریخی اخراجات کیے۔

اب یہ کون بتائے کہ ایک روپے کی چیز اگر دس روپے کی ہوگی تو خرچہ بڑھے گا ہی ناں۔ آئی، پی، پیز سے معاہدہ ہوا، اربوں روپے کا عوام کا فائدہ ہوا مگر بجلی کی قیمت ہر پندرہ دن، مہینہ بعد بڑھ جاتی ہے۔ کسی مافیا کو نہ چھوڑنے کے دعوے اور مافیا مضبوط تر ہوتا گیا، بلکہ کھلے عام عوام کی جیبوں پر ڈاکا ڈالا جانے لگا اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ کسی کو این آر او نہیں دوں گا، مگر اپوزیشن کے کیس کی پیروی کرے تو نیب یا ایف آئی اے اور اگر اپنی پارٹی کا کوئی کرپٹ ظاہر ہوجاتا ہے تو اس کی تفتیش اپنی ہی پارٹی کے سینیٹرز کے سپرد کردی جاتی ہے، اور اگر کوئی حکومتی وزیر ہو تو اس کی وزارت بدل دی جاتی ہے۔

پہلے حکومتوں میں مشیروں کے ناموں سے کوئی واقف نہیں ہوتا تھا مگر یہ پہلی حکومت ہے جس میں حکمرانی وزیروں کے بجائے مشیروں کے سپرد کی گئی ہے۔ ہر مشیر اپنے اپنے حصے کی کمائی کرتا ہے، اپنے محکمے کا بیڑہ غرق کرتا ہے اور استعفیٰ دے کر پورے طمطراق کے ساتھ نیک نامی سے علیحدہ ہوجاتا ہے۔

بجٹ پاس کرانے کےلیے بھی عالمی مالیاتی ادارے کی اجازت کی ضرورت ہے۔ خودپسندی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ اب تو دھڑلے سے کہا جاتا ہے کہ عوام مرتے ہیں تو مریں، مگر ہم تن کے پانچ سال پورے کریں گے اور اگلے پانچ سال بھی حکومت ہماری ہی ہوگی۔ روک سکتے ہو تو روک لو۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔