کیا واقعی بدلا ہے خیبر پختونخوا؟

محمد کامران کھاکھی  ہفتہ 5 جون 2021
پورے پاکستان میں ’’بدلا ہے خیبرپختونخوا‘‘ کے اشتہار چلائے جارہے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

پورے پاکستان میں ’’بدلا ہے خیبرپختونخوا‘‘ کے اشتہار چلائے جارہے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

خیبرپختونخوا والوں نے تو تبدیلی کی ڈبل ڈوز لی ہے، یعنی پچھلے نو سال سے وہاں پر تبدیلی سرکار راج گدی پر براجمان ہے اور اسی کو ماڈل بناکر پورے پاکستان میں یہ اشتہارات چلائے گئے کہ ’’بدلا ہے خیبر پختونخوا، بدلیں گے پاکستان‘‘، ’’اگر خیبرپختونخوا تو پاکستان کیوں نہیں‘‘ وغیرہ۔

ان پانچ سال میں خیبرپختونخوا میں تو تبدیلی سرکار نے دودھ کی نہریں بہا دی ہیں، اسی لیے دوبارہ جیت سکے اور اب ان نہروں سے پورا پاکستان مستفید ہورہا ہے۔ خیبرپختونخوا میں تو پانچ سال میں 350 ڈیم بنا دیے گئے، جن کی وجہ سے آج پورا ملک سیراب بھی ہورہا ہے اور بجلی بھی پورے پاکستان کو مل رہی ہے اور سب سے بڑھ کر پورے ایک ارب درخت لگا کر تبدیلی سرکار نے خیبرپختونخوا کو ہرابھرا بھی تو کیا ہے جو کہ پاکستان کی تاریخ میں کسی اور صوبائی تو کیا وفاقی حکومت نے بھی نہیں کیا اور اب مخالفین کو اس میں بھی کرپشن نظر آتی ہے تو آتی رہے کیونکہ تمام ادارے تو ایک پیج پر ہیں اور دوسرا پیج ہم کسی کو دیکھنے نہیں دیں گے۔ اس لیے الزامات، الزامات ہی رہیں گے۔

ان ہی پانچ سالہ صوبائی حکومتی برسوں میں خیبرپختونخوا میں صحت کے محکمے میں انقلاب برپا ہوگیا اور محکمہ صحت اتنا ترقی کرگیا کہ بیمار علاج کرا کے خوش اور معالج علاج کرکے، سب کو ایک خوشگوار اور شاندار زندگی ملی تو تبدیلی سرکار کی وجہ سے اور یہی خوشگوار تبدیلی پنجاب میں بھی لانے کی کوشش کی گئی، جو ابھی تک نہیں لائی جاسکی مگر لائیں گے ضرور، کیونکہ تبدیلی ہی تو ہمارا عزم ہے۔

اس ترقی اور خوشحالی کی روشنی سے چندھیائی آنکھیں جب کچھ دیکھنے کے قابل ہوئیں تو لیڈی ریڈنگ پشاور کے ساتھ باقی صحت کے شعبوں کی حالت کا ادراک ہوا، مگر تب تک تو چڑیاں کھیت چگ چکی تھیں۔ اور وہی ڈاکٹر جو کبھی تبدیلی سرکار کے گن گاتے نہیں تھکتے تھے پورے ملک میں تبدیلی کے کرشموں کو ظہور پذیر ہوتا دیکھ کر پتہ نہیں کیوں سڑکوں پر آگئے۔ مجھے تو لگتا ہے وہ یہ نہیں چاہتے ہوں گے کہ پورا ملک ان کرشموں سے سرفراز ہوسکے جو پانچ سال میں خیبرپختونخوا میں ظہور پذیر ہوئے تھے۔ اب یہ تو تعصب ہے ناں، اس لیے ان کے ساتھ بڑی سختی سے نمٹنا ضروری تھا۔

ایک اور کرشمہ جو پانچ سالہ صوبائی حکومت کے دوران تبدیلی سرکار نے دکھایا، وہ تھا تعلیم کے شعبے میں بے پناہ ترقی۔ صرف پانچ سال میں کئی اسکول بنانے کے علاوہ لاکھوں ان بچوں کو اسکولوں میں داخلہ ملا جو اسکول نہیں جاتے تھے۔ لوگوں نے اپنے بچوں کو پرائیویٹ اسکولوں سے نکال کر سرکاری اسکولوں میں داخلہ دلوایا کیونکہ سرکاری اسکولوں میں تبدیلی آچکی تھی۔ مگر یہ نیک کام بھی کچھ لوگوں کو پسند نہیں آیا اور تحقیقاتی ٹیم نے الزام عائد کیا کہ کئی داخلے اور اسکول دونوں ہی صرف کاغذوں میں ہیں، جن کا حقیقت سے تعلق نہیں۔ مگر پھر اسے بھی ہم نے دوسرے پیج پر دھکیل دیا تاکہ بات زیادہ لوگوں تک نہ پہنچ سکے۔

ایک اور کارنامہ خیبرپختونخوا پولیس کو عوام دوست بنانا تھا اور اس میں اتنی کامیابی ملی کہ وفاق کی حکومت ملتے ہی ہم نے وہاں کا آئی جی، پنجاب میں لگادیا تاکہ جس طرح خیبرپختونخوا پولیس ایک مثالی پولیس بن چکی تھی۔ اسی طرح پنجاب پولیس کو بھی بنایا جائے مگر پانچ سے زیادہ آئی جی بدلنے کے باوجود بھی کوئی خاطر خواہ نتائج نہیں مل سکے۔

اب آپ لوگ سوچ رہے ہوں گے کہ میری ان سب باتوں کو بیان کرنے کی وجہ کہ یہ سب تو ہم جانتے ہوئے بھی فراموش کرچکے تو پھر سے بتانے کی کیا ضرورت ہے۔ تو اس کی وجہ خیبرپختونخوا میں فیڈریشن آف آل پاکستان یونیورسٹیز اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن کی طرف سے کے پی کے اسمبلی کے سامنے احتجاج اور اس پر پولیس تشدد ہے۔

ہوا کچھ یوں کہ جب ترقی یافتہ محکمہ تعلیم خیبرپختونخوا کی یونیورسٹیز کے اسٹاف نے اپنے مطالبات کےلیے احتجاج کیا تو ان پر مثالی کے پی کے پولیس نے تشدد کرکے منتشر کردیا اور میڈیا خاموش تماشائی بنا رہا۔ یہ ایک انتہائی قابل مذمت حرکت ہونے کے باوجود نہ کسی اپوزیشن والے نے اس کی مذمت کی اور نہ کسی حکومتی وزیر/ مشیر نے کوئی ہمدردانہ رویہ اپنایا۔ کئی پی ایچ ڈی اساتذہ کہ جن سے کئی طالب علموں نے علم جیسی نعمت حاصل کی، ان کے ساتھ ایسا رویہ ناقابل برداشت ہے۔ پنجاب میں اس واقعے پر یوم سیاہ منایا گیا اور ایف اے پی یو اے ایس اے کے صدر ڈاکٹر عبدالستار ملک اور جنرل سیکریٹری ڈاکٹر احتشام علی نے اس موقع پر کہا کہ پنجاب فیڈریشن بھی خیبرپختونخوا فیڈریشن کے ساتھ ہے اور یہ مطالبہ کیا کہ گورنمنٹ نے جو اساتذہ کے الاؤنس کم کرنے کا حکم نامہ جاری کیا ہے، اسے فی الفور واپس لے اور صوبائی ایچ ای سی کا قیام عمل میں لایا جائے۔ تعلیمی بجٹ کم کرنے کے بجائے اس میں اضافہ کیا جائے اور اگر حکومت نے خیبرپختونخوا کی یونیورسٹیوں کی آزادی میں مداخلت بند نہ کی تو پھر پورے پاکستان میں احتجاج کیا جائے گا اور یونیورسٹی کے اساتذہ اپنے حق کےلیے ہر قانونی حربہ استعمال کریں گے۔

اسلام آباد میں احتجاج کرتے طلبا کے ساتھ جو ہورہا ہے، قابل مذمت تو وہ بھی ہے کہ جب پڑھائی آن لائن ہوئی تو امتحانات بھی آن لائن کیوں نہیں؟ مگر جو قوم اپنے معماروں کے ساتھ ایسا برتاؤ کرے جو کہ ایک مثالی صوبے میں کیا گیا اور اس پر کوئی آواز بھی نہ اٹھے، تو سمجھ جانا چاہیے کہ ہم زندہ نہیں بلکہ ایک مردہ قوم ہیں۔ ہم اپنے مستقبل کو روشن نہیں بلکہ تاریک کرنے کی تگ و دو میں لگے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔