جماعتِ اسلامی کے ایک لیڈر کی سیاسی یادیں

تنویر قیصر شاہد  جمعـء 4 جون 2021
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

وہ زمانہ ابھی بہت دُور نہیں گیا جب ہماری سیاست اور ہمارے پرنٹ میڈیا میں اسلامی جمعیت ِطلباء اورجماعتِ اسلامی کے تربیت یافتہ افراد کی بہتات ہُوا کرتی تھی۔

ان لوگوں نے سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی شخصیت اور تصنیفات سے براہِ راست فیض حاصل کیا تھا۔کئی نظریاتی اختلافات کے باوجود یہ افراد ہماری سیاست ، صحافت اور ادب میں تعمیری کردار ادا کرتے رہے ہیں۔

جمعیت اور جماعتِ اسلامی کی تربیت گاہوں سے تیار ہونے والے متعدد سیاستدان اب بھی ہماری سیاست کا نمایاں نام ہیں ، اگرچہ ان میں سے کئی ایک نے جماعتِ اسلامی کے پلیٹ فارم سے علیحدگی اختیار کرکے دوسری سیاسی جماعتوں کو اپنا آشیانہ بنا لیا ہے ۔ ادبی دُنیا میں بھی جماعتِ اسلامی کے کئی افراد نے نمایاں کردار ادا کیا۔اس سلسلے میں مولانا نعیم صدیقی صاحب  ؒکا نام خاصا نمایاں ہے ۔

پروفیسر خورشید احمد صاحب کی تحریریں بھی خاصی اہم خیال کی جاتی ہیں۔ ہم چوہدری غلام جیلانی صاحب مرحوم المعروف جیلانی بی اے کی تحریروں کو کبھی فراموش نہیں کر سکتے ۔ اُن کے تاریخی افسانے ’’احوبہ‘‘ اور ’’بعلم بن بعور‘‘ آج بھی دل کے تار چھیڑ دیتے ہیں ۔

جیلانی بی اے صاحب کا تعلق بھی جماعتِ اسلامی ہی سے تھا۔ اُن کے22 افسانوں کا مجموعہ ’’ زندگی کیا ہے‘‘ بے مثال ادبی تحریروں کا مرقع ہے۔ پروفیسر عبدالغنی فاروق کی لکھی گئی پاپولر کتاب ’’ہم کیوں مسلمان ہُوئے ‘‘ بھی ہماری تصنیفات میں اعلیٰ مقام رکھتی ہے۔ فاروق صاحب بھی جماعت اسلامی کے سینئر رفقا میں شمار ہوتے ہیں۔

خرم مراد صاحب مرحوم نے اپنی آنکھوں سے مشرقی پاکستان کو علیحدہ ہوتے دیکھا کہ وہ اُن دنوں مشرقی پاکستان ہی میں انجینئرنگ کی ایک اعلیٰ ملازمت کے ساتھ ساتھ جماعتِ اسلامی کے متعینہ فرائض بھی انجام دے رہے تھے۔ اُن کی تحریر کردہ تصنیف’’لمحات‘‘ ہمارے سیاسی لٹریچر کا جھومر ہے جس میں المیہ مشرقی پاکستان کی کئی خوں رنگ داستانیں رقم کی گئی ہیں ۔چونکہ بانیِ جماعتِ اسلامی خود بھی کئی عظیم المرتبت تصنیفات کے خالق تھے؛ چنانچہ اُن سے فیضان پانے اور جماعتِ اسلامی سے تربیت حاصل کرنے والے کئی احباب نے کئی شاندار کتابیں لکھی ہیں ۔

اور اب جماعتِ اسلامی ہی کے ایک دیرینہ سینئر کارکن اور لیڈر ڈاکٹر فرید احمد پراچہ کی تحریر کردہ سوانح حیات’’عمرِ رواں‘‘ منصہ شہود پر آئی ہے۔ فرید پراچہ صاحب چونکہ جماعتِ اسلامی کے ساتھ زمانہ طالبعلمی سے لے کر اب تک وابستہ چلے آ رہے ہیں، اس لیے پوری کتاب میں اُن کا اسلوبِ تحریر بھی جماعتِ اسلامی کے ایک پُر جوش اور سخت کمٹمنٹ رکھنے والے نظریاتی کارکن کا لہجہ و آہنگ محسوس ہوتا ہے ۔ محسوس ہی نہیں بلکہ یہ لہجہ اُبلتا ہُوا نظر آتا ہے ۔

چار صد صفحات پر مشتمل اِس کتاب کو یوں ترتیب دیا گیا ہے جیسے جماعتِ اسلامی کا کوئی سینئر کارکن جماعتی جذباتی رَو میں جلسے کی رُوداد لکھ رہا ہو۔شائد اسی اسلوب کے تحت ’’عمرِ رواں‘‘ میں جماعتِ اسلامی اور جماعت کے کئی سینئر قائدین کی بھرپور سیاست بھی سمٹ کر آگئی ہے ۔ فرید پراچہ صاحب خود رکن صوبائی اسمبلی بھی رہے ہیں اور رکن قومی اسمبلی بھی؛ چنانچہ انھوں نے پارلیمنٹ میں گزرے کئی شیریں و تلخ واقعات و سانحات بھی قلمبند کر دیے ہیں۔ وہ متعدد مشاہدات کی بنیاد پر ہمیں بتاتے ہیں کہ ارکانِ اسمبلی سرکاری وسائل سے ذاتی دولت اور جائیدادوں میں کن کن ہتھکنڈوں سے اضافہ کرتے ہیں۔

ہمیں بتاتے ہیں کہ وطنِ عزیز کے مختلف ادوارِ حکومت کے دوران وہ اب تک 15بار گرفتار کیے گئے ہیں ۔ ایک بار تو اُن کے خلاف قتل کا مقدمہ بھی درج ہو گیا تھا۔ انھوں نے اپنے قیدو بند کی کہانیاں بڑے پُر لطف انداز میں لکھی ہیں۔اُن کی بیان کردہ بعض کہانیوں میں مگر خود ستائی کا پہلو بھی سامنے آتا ہے ۔

فرید احمد پراچہ صاحب ممتاز عالمِ دین مولانا گلزار احمد مظاہری صاحب مرحوم کے فرزند ہیں۔ مظاہری صاحب ، سید مودودیؒ کے بھی معتمد دوست تھے۔ اسی تربیت کا اثر تھا کہ مصنف نے جماعتِ اسلامی کے پلیٹ فارم سے اُٹھنے والی ہر معروف و غیر معروف سیاسی و مذہبی تحریک میں دیوانہ وار شرکت کی۔ انھیں یہ اعزازبھی حاصل ہے کہ انھوں نے جماعتِ اسلامی کے پانچ امرائے جماعت (سید مودودیؒ، میاں طفیل محمد ؒ، قاضی حسین احمدؒ، سید منور حسنؒ اور سراج الحق) کو دیکھا ہے ، اُن سے بقدرِ استعداد فیض حاصل کیا اور اُن کے ساتھ کام بھی کیا۔

ان شخصیات کے ساتھ وابستہ کئی یادوں کو  زیر نظر کتاب میں سمیٹنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن مجھ ایسے قاری کو توقع تھی کہ وہ مزید کھل کر لکھتے ۔ بہت سی تشنگی رہ گئی ہے۔یہ سوانح حیات کوئی ’’دھماکا خیز انکشافی‘‘ کتاب نہیں ہے۔

اس کا اعتراف خود مصنف نے بھی کیا ہے لیکن میرا خیال ہے کہ جماعتِ اسلامی کے مجموعی تاریخی کردار کی تفہیم کے لیے ’’عمرِرواں‘‘ ایک بنیادی ماخذ بن سکتی ہے ۔ بعض جگہ مصنف نے نظریاتی جذبات سے مغلوب ہو کر اپنے سیاسی مخالفین کو جن قابلِ گرفت الفاظ سے یاد فرمایا ہے ، اس سے احتراز اور اعراض برتا جاتا تو زیادہ مناسب ہوتا۔ انھیں اب ستر، پچھتر سال کی عمرِ عزیز میں یہ خیال رکھنا چاہیے تھا کہ وہ اب بھی پنجاب یونیورسٹی میں زیر تعلیم کسی طلبا تنظیم کے کوئی کارکن نہیں ہیں کہ اپنی مخالف طلبا تنظیم کو قابلِ اعتراض الفاظ سے یاد کریں ۔ یہ واقعات کتاب کے سقم کہلاتے رہیں گے۔

جماعتِ اسلامی کو ذوالفقار علی بھٹو سے جو اختلافات رہے ہیں اور یہ جماعت جنرل ضیاء الحق کی کابینہ میں جس طرح شریک رہی ہے ، ان ’’محبتوں‘‘ کا عکس بھی ’’عمرِرواں‘‘ میں ملتا ہے۔ بھٹو دَور میں بھی فرید پراچہ صاحب قید میں ڈالے گئے ۔

جیل میں اُن کی ملاقات وطنِ عزیز کی ایک مشہور قیدی خاتون سے بھی ہُوئی اور تفصیلی باتیں بھی۔ اس خاتون کا نزلہ بھی بھٹو صاحب پر گرا۔ مصنف نے اس مشہور خاتون کی زبانی یہ بات کہلوائی ہے کہ ’’ میرے پاس بھٹو اور یحییٰ کی ملاقاتوں کی ایسی ریکارڈنگ ہے جو تاریخ کے کٹہرے میں ثابت کر سکتی ہے کہ سقوطِ ڈھاکا کا ذمے دار مجیب ہے نہ یحییٰ بلکہ وہ صرف بھٹو ہے ۔‘‘لیکن ایسی ’’ریکارڈنگ‘‘ کبھی سامنے نہیں آ سکی ۔ مصنف نے جنرل ضیاء الحق کا سیاسی کردار کسی مصلحت کے تحت گول کر نے کی بھی کوشش کی ہے ۔

وہ ہمیں یہ تو بتاتے ہیں کہ جماعتِ اسلامی نے ’’آئی جے آئی ‘‘ میں شمولیت بھی اختیار کی اور اس اتحاد سے چند سیٹیں بھی جیتیں لیکن یہ بتانے کی جسارت نہیں کی گئی کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کا راستہ روکنے کے لیے ’’آئی جے آئی‘‘ کا وجود کیسے تشکیل پایا اور کونسی قوتیں اس پُر اسرار اتحاد کی اصل بانی تھیں؟وہ ہمیں بین السطور یہ بھی بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ’’ متحدہ مجلسِ عمل‘‘ کا خاتمہ امریکی اشارے پر ہُوا تھا۔ ’’عمرِ رواں‘‘ کا مجموعی اسلوب مصنف کے مزاج اور شخصیت کی طرح سادہ بھی ہے اور بغیر کسی تصنع و بناوٹ کے۔ واقعات اور تاریخوں کی بھرمار نے کتاب کو قدرے بوجھل کر دیا ہے لیکن مجھے اُمید ہے کہ اس کے باوجود یہ سوانح حیات اپنے مواد اور معلومات کی بنیاد پر قارئین کی توجہ ضرور حاصل کرے گی ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔