عام آدمی کی جیت یا معجزہ۔۔۔؟

رئیس فاطمہ  ہفتہ 18 جنوری 2014

ستمبر 2013ء میں انڈیا جانا ہوا تو ہر سی این جی رکشہ (جسے وہاں آٹو کہتے ہیں) کے پیچھے نہرو ٹوپی لگائے ایک شخص اور سامنے جھاڑو کا نشان۔ پتہ چلا کہ یہ ایک نئی سیاسی جماعت ’’عام آدمی پارٹی‘‘ کے نام سے قائم کی گئی ہے۔ دلی کا کوئی رکشہ ایسا نہ تھا جس کے پیچھے جھاڑو نظر نہ آ رہی ہو۔ بعض ثقہ لوگوں نے طنزاً کہا ’’کیا یہ بھنگیوں کی پارٹی ہے؟‘‘ کسی نے بھی سنجیدگی سے نہ لیا۔ کیونکہ کانگریس کی جڑیں تقسیم ہند سے پہلے ہی بہت گہری ہیں۔ پنڈت جواہر لعل نہرو کی وفات کے بعد کانگریس بھی موروثی سیاست میں تبدیل ہو گئی، لیکن اس حقیقت کا آپ اعتراف کیے بنا نہیں رہ سکتے کہ مسز اندرا گاندھی نے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور بے پناہ مسائل میں مبتلا بھارت کو بڑی عقل مندی سے سنبھالا اور وہاں ہزار مشکلات کے باوجود فوج نے اپنے دائرہ اختیار سے باہر قدم نہ نکالا۔

بھنڈرانوالہ کی بغاوت اور سرکشی کو کس طرح اس مضبوط اعصاب کی مالک عورت نے ختم کیا، یہ سب جانتے ہیں۔ لیکن اپنے ہی محافظوں کے ہاتھوں قتل ہونے والی وزیر اعظم کے بعد واقعی کانگریس موروثی سیاست میں تبدیل ہو گئی۔ پھر بھی کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ’’عام آدمی پارٹی‘‘ کا سربراہ اروند کچریوال دلی کی سینئر ترین وزیر اعلیٰ شیلا ڈکشٹ کو 25 ہزار ووٹوں سے شکست فاش دے کر بھارت کی راجدھانی کا وزیر اعلیٰ بن جائے گا۔ 70 نشستوں میں سے 28 کا حاصل کر لینا ایک نئی پارٹی کے لیے معجزہ ہی لگتا ہے۔ لیکن یہ کوئی آسمانی معجزہ نہیں بلکہ عام آدمی کے شعور اور ووٹ کی طاقت ہے۔ دلی میں بہت سے لوگوں سے ملاقاتیں رہیں۔ لیکن سوائے ایک کے کسی کو بھی اس نئی پارٹی کی کامیابی کی ذرہ برابر امید نہیں تھی۔ اکثریت تو ان کے انتخابی نشان ہی کا مذاق اڑاتی پائی گئی۔

جو صاحب پرامید تھے، وہ اس لیے کہ خود ان کی بیگم اس پارٹی سے الیکشن لڑ رہی تھیں۔ جن کا گھر گیتا کالونی میں ہے۔ میں یہاں اروند کجریوال کی زندگی اور پارٹی کی تاریخ ہرگز بیان نہیں کروں گی، کیونکہ انٹرنیٹ پر ساری تفصیلات موجود ہیں جنھیں بیشتر کالم نویسوں نے قارئین تک پہنچا دیا ہے۔ پھر بھی کچھ موضوعات ایسے ہوتے ہیں جن سے پہلو تہی ممکن نہیں۔ انڈیا سے واپسی پر ایک کالم میں اس پارٹی کا ذکر میں نے کیا تھا، لیکن میرا اندازہ بھی یہی تھا کہ کانگریس اور بی جے پی کے مقابلے پہ کھڑا ہونا شاید حماقت ہی ہو۔ لیکن یقین کیجیے کہ ہمیں دوران سفر جو معلومات رکشہ ڈرائیوروں، چھوٹے موٹے دکانداروں، چھابڑی فروشوں اور ہوٹل کے بیروں سے ملیں، وہ حیرت انگیز طور پر درست نکلیں۔

ایک صاحب نے جھاڑو کے انتخابی نشان کا مذاق اڑایا، تو ایک کباب فروش نے جو جواب دیا وہ یہ تھا۔۔۔۔ ’’ہاں! آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ بھنگیوں کی پارٹی ہے، جس طرح بھنگی غلاظت صاف کرتا ہے، اسی طرح ہماری پارٹی کرپشن کا صفایا کرے گی۔‘‘ اس نے سچ ہی تو کہا تھا، سماج کا سب سے زیادہ کچلا ہوا طبقہ جسے چوڑے، چمار اور نہ جانے کیا کیا کہا جاتا ہے۔ لیکن اگر یہ نہ ہوں تو سانس لینا دوبھر ہو جائے، یہ تو وہ ہیں جو شہروں، قصبوں، گلیوں اور بازاروں کی اس غلاظت اور کوڑے کے ڈھیروں کو صاف کرتے ہیں، جس کو غیر ذمے دار شہری ہر جگہ پھیلاتے ہیں۔

دراصل مجھے کجریوال کی حکمت عملی نے بہت متاثر کیا۔ وہ یقیناً ایک ذہین آدمی ہے جو لوگوں کی نفسیات کے ساتھ ساتھ عام آدمی کے مسائل کا ادراک بھی رکھتا ہے۔ ایک دن ہم ہمایوں کے مقبرے سے جس رکشے میں واپس ہوٹل آ رہے تھے اس کا ڈرائیور سکھ تھا، اور نام تھا اس کا سُکھبیر سنگھ۔ اس کو جب پتہ چلا کہ ہم پاکستانی ہیں تو وہ شروع ہو گیا اپنی داستان غم سنانے، کیونکہ اب دلی میں بھی کئی کئی منٹ سگنل پہ ٹریفک جام رہتا ہے۔ کہتے ہیں کہ نائی بولے بنا بال نہیں کاٹ سکتا، اس کی قینچی کے ساتھ ساتھ جب تک زبان نہ چلے وہ اپنا کام ٹھیک سے نہیں کر سکتا، لیکن اب اس صف میں دلی کے سکھ رکشہ ڈرائیوروں کو بھی شامل کر لیجیے۔ یہ بہت خوش طبع اور باتونی ہوتے ہیں۔ سکھبیر سنگھ پشاور میں پیدا ہوا تھا، اس کے خاندان کے بہت سے لوگ اب بھی پشاور اور پنجاب میں رہتے ہیں۔ اس کے سات بھائیوں نے اسے جائیداد میں سے کوئی حصہ نہ دیا، کیونکہ اس کا جرم یہ تھا کہ 1955ء میں وہ دلی آ گیا تھا۔ لیکن اب بھی پاکستان کے ذکر پر وہ جذباتی ہو جاتا ہے۔

اس نے کجریوال کی کامیابی کو سو فیصد قرار دیا اور بتایا کہ اس نے پارٹی ٹکٹ کے لیے ان لوگوں کا انتخاب کیا ہے، جن کی ان کے علاقے میں عزت ہے اور انھوں نے اپنے علاقے کے لیے کوئی نہ کوئی اچھا کام کیا ہے اور بغیر کسی لالچ کے کیا ہے۔ علاقے کے لوگوں کی مرضی و منشا کو بھی شامل کیا گیا ہے اور عام لوگوں کی رائے کا احترام کرتے ہوئے صرف ان لوگوں کو منتخب کیا گیا جو نیک نام اور ایماندار ہیں۔ کردار کے حوالے سے ان کے دامن داغدار نہیں ہیں۔ نتیجہ سب نے دیکھ لیا۔۔۔۔ اقتدار کے ایوانوں میں برسوں راج کرنے والوں کا ’’دھڑن تختہ‘‘ ہو گیا۔

کیا پاکستان میں ایسی تبدیلی آ سکتی ہے؟ ۔۔۔۔ نہیں۔۔۔۔ کیونکہ یہاں جاگیرداروں کے پنجے بہت گہرے ہیں، عام آدمی اگر اسمبلی میں پہنچ بھی جائے، اس کی جماعت اکثریت بھی حاصل کر لے تو بھی اس کو اقتدار کبھی منتقل نہیں کیا جائے گا، لولا لنگڑا اختیار اگر مل بھی گیا تو فنڈز نہیں ملیں گے، مکمل اختیار نہیں ملے گا۔ اس طرح عام آدمی بددل ہو کر گھر بیٹھ جائے گا یا پھر خود بھی وڈیروں، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی صف میں شامل ہونے کے لیے ان ہی سے گٹھ جوڑ کر لے گا، جن کی کرپشن کو بنیاد بنا کر کامیابی حاصل کی تھی۔ پاکستان دس فیصد سے شروع ہو کر سو فیصد تک کمیشن کھانے والوں کی جنت ہے۔ یہاں چالیس چالیس لاکھ کے بلٹ پروف گیٹ لگائے جاتے ہیں۔ جن کے اندر رہائش پذیر بااثر لوگوں کے پاس اقتدار سے پہلے جیب میں کتنے سکے تھے اور آج کتنے ہیں۔

پاکستان وہ بدنصیب ملک ہے جہاں دہشت گرد، ڈاکو، مولوی، انتہاپسند مذہبی جماعتیں بے شک متحد ہو کر اپنا ٹارگٹ حاصل کر سکتی ہیں لیکن عوام کبھی یکجا نہیں ہو سکتے، کیونکہ ان سب نے اپنے اقتدار کو قائم رکھنے کے لیے، عوام کو مذہب، مسلک، زبان، صوبوں اور طبقاتی نفرتوں میں تقسیم کر کے ہمیشہ اپنا ٹارگٹ حاصل کیا ہے۔ غربت اور جہالت نے ان رسہ گیروں کو خوب کامیابی عطا کی ہے۔ یہی کھیل آیندہ بھی جاری رہے گا، پاکستان میں کوئی اروند کجریوال یا انا ہزارے پیدا نہیں ہو گا۔ کیونکہ ہمارے ہاں عوام کو متحد نہیں ہونے دیا جاتا۔ بھارت میں عام آدمی کی جیت بہت اہم ہے اور معجزاتی بھی، لیکن اس سے زیادہ حیرت ناک بات یہ ہے کہ شیلا ڈکشٹ نے بغیر دھاندلی کا الزام لگائے ہوئے نہایت جمہوری طریقے سے اقتدار اروند کچریوال کے حوالے کر دیا۔ اسے کہتے ہیں جمہوریت۔ کیا ہمارے ہاں یہ ممکن ہے کہ بڑے بڑے زمینداروں اور جاگیرداروں کی اولاد کو شکست دے کر اگر کوئی جیت جائے تو کیا اس کو اقتدار اسی طرح منتقل ہو جائے گا؟ بس یہی سوال ہے میرا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔