بلاول بھٹو کہتے ہیں کہ …؟

نسیم انجم  اتوار 19 جنوری 2014
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

پاکستان کا نیا اور مستقل آئین 14 اگست 1973 میں نافذ کیا گیا تھا، اس آئین کی خصوصیات قابل توجہ ہیں اور بے حد اہم ہیں چونکہ یہ نیا آئین مکمل طور پر اسلام کی پاسداری کرتا ہے، آئین کے مطابق سرکاری مذہب اسلام کو قرار دیا گیا، اس بات کی بھی وضاحت کی گئی ہے کہ آئندہ کوئی بھی قانون اسلام کے خلاف نہیں بنایا جائے گا، نیز یہ کہ آئین پارلیمانی نظام کا علمبردار ہوگا۔ آئین میں بنیادی حقوق سے متصادم قوانین کالعدم اور بے اثر سمجھنے ہوں گے۔ آئینی پالیسی اور اصولوں کے مطابق لسانی، نسلی، گروہی، خاندان اور اقلیتوں کی حفاظت اور سماجی و معاشرتی برائیوں کا خاتمہ حکومت کا اولین فرض اور اسلامی طرز حیات کو فروغ دینا بھی اسلامی قوانین کا حصہ ہے۔ مذکورہ آئین میں عدلیہ کے نظام اور اختیارات کے بارے میں بھی وضاحت کی گئی ہے۔ موجودہ آئین کو غیر آئینی یا طاقت کے بل پر توڑنے کی مذمت اور سنگین غداری قرار دیا ہے۔ پاکستان کا آئین تحریری دستاویز کی شکل میں موجود ہے اور جو 280 آرٹیکل پر مشتمل ہے، اس میں چھ شیڈول بھی شامل کیے گئے اور جنھیں بارہ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔

موجودہ حالات میں یوں محسوس ہوتا ہے کہ آئین صرف غریبوں، محتاجوں اور مجبور و بے کس لوگوں کے لیے ہے، بڑے اور بااختیار حضرات آئین سے مستثنیٰ معلوم ہوتے ہیں، جب کہ بے اختیار لوگ آئین توڑنے کے جرم میں پابند سلاسل کردیے گئے ہیں۔ سالہا سال سے جیلوں میں مشقت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کے لیے جرمانہ اور دوسری سزائیں بڑی آسانی سے سنا دی جاتی ہیں، ہزاروں وہ لوگ جنھوں نے معمولی غلطیاں کی ہیں وہ سالہا سال سے جیلوں میں مقید ہیں، انھیں کوئی رہائی دلانے والا نہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ قانون کے محافظ اور مقدمات کی پیروی کرنے والے ہی بددیانتی کا ارتکاب کرتے ہیں۔ ایک عام آدمی پر بے جا تشدد کرکے اسے جان سے مار دیتے ہیں لیکن صاحب اقتدار، جاگیرداروں و وڈیروں کو قوانین توڑنے کی مکمل آزادی حاصل ہوتی ہے، وہ جس طرح چاہیں انسان کی عزت و وقار اور جان و مال کو نقصان پہنچائیں، انھیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ میرے اس بیان کی تازہ بہ تازہ مثال شاہ رخ جتوئی اور شاہ زیب کیس ہے، قاتل آزاد ہے اور مقتول کے گھر والے دیار غیر سدھار گئے ہیں کہ مصلحت و دور اندیشی کا تقاضا ہی یہ تھا، ایسے بے شمار واقعات ہر دوسرے روز جنم لیتے ہیں جو غیر منصفانہ رویوں پر مبنی ہیں۔

فی زمانہ اس بات کا احساس شدت سے ہوتا ہے کہ قانون نام کی کوئی چیز سلامت نہیں رہی ہے، گویا قانون ایک کمزور پرندے کا نام ہے جس کی اڑان اونچی نہیں ہے، وہ بہت نیچی سطح پر پرواز کرتا ہے۔ باکمال اور صاحب ثروت حضرات اس کا شکار بہت آسانی سے کرلیتے ہیں اور غریب و محتاج اس تک رسائی حاصل نہیں کرسکتا ہے۔ چونکہ اس کے پاس مال و زر ہوتا ہے اور نہ سفارش۔ اسی وجہ سے وہ جیل کی سنگلاخ سلاخوں کے پیچھے اپنی عمر کا بڑا حصہ گزار دیتا ہے۔ اس قسم کے حقائق سے اس بات کا اندازہ اچھی طرح ہوجاتا ہے کہ آج طاقت ور قانون کا خوب خوب مذاق اڑا رہے ہیں اور اسلامی قوانین کے نفاذ اور اس پر عمل درآمد پر مخالفت ببانگ دہل کررہے ہیں۔

حال ہی میں 25 دسمبر بابائے قوم کی سالگرہ اور کرسمس کے موقع پر اپنے عیسائی بھائیوں کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے کہا کہ وہ اس ملک میں عیسائی وزیراعظم کو دیکھنا چاہتے ہیں۔ صد افسوس کہ قائداعظم کے بارے میں انھوں نے کچھ نہیں کہا۔ ان کی ہمشیرہ عزیزہ نے پچھلے دنوں ملالہ کے لیے یہی الفاظ کہے تھے۔ اس بات سے سب واقف ہیں کہ پاکستان سازشوں کا شکار ہوچکا ہے، ایک لابی ہے جو پاکستان جیسے اسلامی ملک کو دوسروں کے قبضے میں دیکھنے کی خواہش مند ہے، اسی بناء پر اس ملک کو ہر طرح سے غیر مستحکم کیا جارہا ہے۔ سابق صدر آصف علی زرداری کے دور حکومت میں غیر ملکیوں کے لیے ویزوں کا اجرا، ریمنڈ ڈیوس کا قتل و غارت کرنا اور پھر اس ملک سے آسانی بلکہ عزت و احترام کے ساتھ اسے الوداع کہنا اور اہم جگہوں پر حملے، یہ سب باتیں اس بات کا پتہ دیتی ہیں کہ قدم قدم پر چند پاکستانی افراد ہی میر جعفر کا کردار ادا کرنے میں آگے آگے ہیں۔

جس مقصد کے لیے پاکستان وجود میں آیا ہے اسے اپنے قدموں تلے پامال کررہا ہے کہ ہمارے پڑوسی ملک ہندوستان کی بھی یہی خواہش تھی۔ قائداعظم محمد علی جناح نے جس دو قومی نظریے کی وضاحت کی وہ ایک ناقابل تردید حقیقت تھی اور ہے، اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ جب دوسری جنگ عظیم کے بعد انگریزوں نے ہندوستان سے جانے کے لیے ارادہ کیا تو اس وقت مسلمان بے حد نازک حالات سے گزر رہے تھے، اس کی وجہ یہ تھی کہ انگریز اپنی جمہوری روایات کے تحت ہند کو تقسیم کیے بنا اور مسلمانوں کو ہندوئوں کے زیر نگیں چھوڑنے کا پختہ ارادہ رکھتے تھے۔ لیکن 1946 میں ’’بہار‘‘ میں جو المیہ پیش آیا تو اس حادثے نے یہ بات واضح کردی کہ مسلمان اور ہندو الگ الگ قومیں ہیں۔ قائداعظم نے ایک موقع پر ڈاکٹر سید بدر الدین احمد رکن ’’تحریک پاکستان‘‘ سے مکالمہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’میں مطمئن ہوں کہ قرآن و سنت کے زندہ جاوید قانون پر مبنی ریاست (پاکستان) کی بہترین اور مثالی سلطنت ہوگی۔

یہ اسلامی ریاست اسی طرح سوشلزم، کمیونزم، مارکسزم، کیپیٹل ازم کا قبرستان بن جائے گی، جس طرح کہ سرکار دو عالم حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کا مدینہ، اس وقت کے تمام نظام ہائے فرسودہ کا گورستان بنا۔ پاکستان میں اگر کسی نے روٹی کے نام پر یا مارکسزم کے لیے راہ ہموار کرنے کی کوشش کی تو پاکستان کی غیور قوم اسے کبھی برداشت نہیں کرے گی۔ یاد رکھو! کہ میں نہرو نہیں ہوں کہ وہ کبھی سیکولرسٹ بنتے ہیں، کبھی مارکسٹ! میں تو اسلام کے کامل نظام زندگی اور خدائی قوانین کی بادشاہت پر ایمان رکھتا ہوں، مجھے عظیم فلاسفر اور مفکر ڈاکٹر اقبال سے نہ صرف پوری طرح اتفاق ہے بلکہ میں ان کا معتقد ہوں اور میرا ایمان ہے کہ اسلام ایک کامل ضابطہ حیات ہے، دنیا کی تمام مصیبتوں اور مشکلوں کا حل اسلام سے بہتر کہیں نہیں ملتا۔ سوشلزم، کمیونزم، مارکسزم، کیپیٹل ازم، ہندو ازم، امپریل ازم، امریکا ازم، روس ازم، ماڈرن ازم یہ سب دھوکا اور فریب ہے۔ مختصر الفاظ میں یہ سمجھ لو کہ نمرود، قارون، شداد اور مزوک کے یہ نظریات ہیں جنھیں نئے رنگ میں پیش کیا جارہاہے۔ آپ یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ ان نظاموں کے علمبردار ایسے لوگ تھے جو انسانوں کے لباس میں بھیڑیے تھے اور آج بھی ایسے ہی لوگ ان کی علمبرداری کررہے ہیں۔‘‘

سرور کائنات صلی اﷲ علیہ وسلم بیک وقت صدر مملکت اور پیغمبر تھے، ان کے نظام سلطنت کا ڈھانچہ قیامت تک کے انسانوں کے لیے بہترین ہے اور اسلام دنیا کی تمام مشکلوں کو حل کرسکتا ہے۔ خلافت راشدہ نے جو نظام مالیات قائم کیا تھا وہ ہر شخص کی خوشحالی اور فارغ البالی کی ضمانت دیتا ہے۔ دنیا کی تمام مشکلات کا حل اسلامی حکومت کے قیام میں ہے، انشاء اﷲ پاکستان کے نظام حکومت کی بنیاد ’’لا الٰہ الا اﷲ‘‘ ہی پر ہوگی اور ایسی مثالی اور فلاحی اسٹیٹ قائم ہوگی کہ دنیا اس کی تقلید کرے گی۔ میر ایمان ہے کہ خداوند کریم اسے (پاکستان) ہمیشہ قائم رکھے گا اور آج علامہ کا خواب اور اس کی تعبیر پاکستان اور بانی پاکستان کی جد وجہد آزادی کو فراموش کردیا گیا ہے۔ پاکستان غیر مسلموں کی حکومت کے لیے معرض وجود میں نہیں آیا تھا۔ پاکستان کی اساس ہی کلمہ طیبہ کے ابتدائی لفظوں پر ہے۔ پھر کسی کی کیسے جرأت ہوسکتی ہے کہ وہ اس پاک ملک پر حکومت کی نیت سے اپنے ناپاک قدم رکھے۔بلاول بھٹو کی عمر بھی کم ہے اور تجربہ بھی، لہٰذا انھیں تعلیم و تربیت اور مسلمانوں کا روشن ماضی، اسلامی قوانین و تعلیمات سے آشنا کرنے کی ضرورت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔