’’وائرس‘‘ سے ہوں آشنا

 راؤ محمد شاہد اقبال  اتوار 6 جون 2021
 اسے تجربہ گاہ میں تیار کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟ اس سوال کا جواب اوروائرسوں کے بارے میں دیگربہت سے حقائق بیان کرتا مضمون۔ فوٹو: فائل

 اسے تجربہ گاہ میں تیار کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟ اس سوال کا جواب اوروائرسوں کے بارے میں دیگربہت سے حقائق بیان کرتا مضمون۔ فوٹو: فائل

 کورونا وائرس کی عالم گیر وبا کے ظہور سے قبل عام افراد کے نزدیک وائرس کا زیادہ سے زیادہ خطرہ اور نقصان یہ ہوا کرتا تھا کہ اس کی وجہ سے اُن کے کمپیوٹر خراب ہوجاتے تھے۔

یعنی چند برس قبل تک وائر س کو فقط کمپیوٹر کی ایک تیکنیکی بیماری سمجھا جاتا تھا اور کمپیوٹر وائرس کا ذکر خیر بھی روزمرہ گفتگو میں زیادہ تر صرف وہی افراد کیا کرتے تھے کہ جن کا واسطہ یا بالواسطہ تعلق کمپیوٹر مشین کے ساتھ استوار ہوتا تھا، جب کہ انسان جس واحد غیرمرئی، یک خلوی مخلوق سے خوف کھاتے تھے، اُسے جراثیم کے نام سے پکارتے تھے اور دنیا بھر میں حفظان صحت کے تمام قواعد و ضوابط جراثیم کے انسداد یا اُن سے بچاؤ کے لیے ہی ترتیب دیے جاتے تھے ۔

حد تو یہ ہے کہ بڑے تجارتی ادارے اپنی گھریلو مصنوعات مثلاً صابن، شیمپو اور ٹشوپیپر وغیرہ کے الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا میں مشتہر ہونے والے اشتہارات میں بھی یہی ترغیب دیتے دکھائی دیتے تھے کہ’’اگر اُن کی فلاں فلاں مصنوعہ کو ترجیحی بنیادوں پر زیادہ سے زیادہ استعمال کیا جائے تو آپ بیماریوں کا باعث بننے والے جراثیم سے خود کو محفوظ و مامون رکھ سکتے ہیں۔‘‘ مگر شومئی قسمت کہ کورونا وائرس کی آمد نے ہماری روزہ مرہ زندگی سے جراثیم کا بوریا بستر ہی گو ل کردیا ہے اور اَب تو کوئی بھولے سے بھی ’’جراثیم‘‘ کے مضر اثرات کا ’’ذکرِبد‘‘ کرنا پسند نہیں کرتا بلکہ کم و بیش تمام کاروباری ادارے اپنی جراثیم کش مصنوعات کو بھی ’’وائرس دشمن ‘‘ بناکر ہی فروخت کر رہے ہیں۔

یوں سمجھ لیجیے کہ وائرس نے انسان کے ذہن میں جراثیم کے صدیوں پرانے خوف کا خاتمہ بالخیر کر کے اپنا ڈر، پوری طرح سے راسخ کردیا ہے اور وائرس کی ہلاکت خیزی کا یہ خوف اتنا زیادہ بڑھ چکا ہے کہ اگر زبان و بیان کی باریکیوں پر تحقیق کرنے والا کوئی ادارہ اعدادو شمار اکھٹے کرے تو منکشف ہوگا کہ گذشتہ دو برسوں میںہم انسان نے سب سے زیادہ جس لفظ کو بولا، لکھا اور سنا ہوگا۔

وہ لفظ یقیناً ’’وائرس‘‘ ہی ہوگا۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ ہم دو سال سے مسلسل ’’وائرس گردی‘‘ کا شکار رہنے کے بعد بھی اس موذی کے بارے میں زیادہ سے زیادہ یہی جانتے ہیں کہ ’’ہم وائرس کے متعلق یقین سے کچھ بھی تو نہیں جانتے۔ ‘‘ دراصل ہم وائرس کی تفہیم اور اسے جاننے کے لیے زیادہ تر جس علمی مواد پر انحصار کررہے ہیں وہ کورونا وائرس کے نمودار ہونے کے بعد عجلت میں مرتب کیا گیا ہے، جب کہ کورونا وائرس کی ہیئت، ساخت اور طریقۂ واردات کو درست انداز میں سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے اُن سائنسی تحقیقات کو کھنگالا جائے جو سائنس داں گذشتہ دو صدیوں کے دوران وائرس پر کرچکے ہیں۔

یاد رہے کہ کورونا وائرس فقط وائرس کا ایک چھوٹا سا جز ہے جب کہ وائرس یک خلوی مخلوقات کا پورا ایک جہان ہے۔ زیرنظر مضمون میں کورونا وائرس کی شاخ کو زیربحث لانے کے بجائے وائرس کی اصل جڑ پر ہونے والی سائنسی تحقیق کے ذریعے ’’وائرس شناسی‘‘ کی ایک عاجزانہ سی تحریری کوشش پیش خدمت ہے۔

٭وائرس اور جراثیم کے فرق کو سمجھیں

عام طور پر جراثیم کی اصطلاح ایسے یک خلوی جانداروں کے لیے استعمال کی جاتی ہے کہ جن کا مرکزہ مکمل طور پر ترقی یافتہ نہ ہو۔ یاد رہے کہ جراثیم کو انگریزی زبان میں بیکٹیریا(Bacteria) کہا جاتا ہے، جب کہ وائرس اپنی ساخت میں خلیہ (Cells) نہیں ہوتے۔ بظاہر سائز میں بڑے تو جراثیم ہی ہوتے ہیں لیکن زیادہ خطرناک اور موذی وائرس ہوتے ہیں۔

نیز جراثیم کی اکثر اقسام انسانوں کے لیے خطرناک بھی نہیں ہوتیں اور صرف ایک فی صد جراثیم ہی انسانی جسم میں بیماری کا سبب بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ علاوہ ازیں بے شمار جراثیم یعنی بیکٹیریا ہماری صحت اور نشوونما کے لیے بھی بے حد مفید اور مددگار واقع ہوئے ہیں۔ مگر جراثیم کے مقابلے میں وائرس کی ہر قسم انسان کے لیے ہمیشہ نقصان دہ ہی ہوتی ہے۔

وائرس زیادہ تر نیم مردہ حالت میں ہی بے حس و حرکت پڑے رہتے ہیں، جب تک کہ وائرس کو کوئی زندہ خلیہ دست یاب نہ ہو۔ جیسے ہی وائرس کو میزبان زندہ خلیہ میسر آجاتا ہے۔ وہ بہت تیزرفتاری کے ساتھ اپنے جیسے دوسرے وائرس بنانا شروع کردیتا ہے۔ وائرس کی میزبانی کرنی والا خلیہ جانور، انسان، پودے کا بھی ہو سکتا ہے۔ مصیبت یہ ہے کہ اگر ایک دفعہ وائرس کے بڑھنے کا عمل شروع ہوجائے تو پھر یہ نہیں رکتا، کیوںکہ وائرس میں مختلف درجۂ حرارت میں محفوظ رہنے اور خاص درجۂ حرارت پر اپنی افزائش کئی گنا بڑھا کر بیماری کو آخری حدود تک لے جانے کی زبردست صلاحیت پائی جاتی ہے۔

واضح رہے کہ وائرس اور جراثیم کے انسانی جسم پر حملہ آور ہونے کے طریقے کو جاننے کے لیے ضرور ی ہے کہ سب سے پہلے انسانی جسم کی ساخت کو سمجھ لیا جائے۔ ایک انسانی جسم کی عمارت خلیات سے مل کر بنتی ہے۔ یہ بالکل ویسے ہی جیسے ہمارے اردگرد اکثر و بیشتر اینٹوں سے تعمیر کی گئی کوئی پرشکوہ عمارت ہوتی ہے۔ انسانی جسم میں خلیات کی حیثیت اینٹوں کی ہوتی ہے۔ جراثیم یا بیکٹیریا خلیات پر حملہ آور ہونے کے بجائے دو خلیات کے درمیانی جگہ کو اپنا نشانہ بناتے ہیں۔

اس لیے حملہ آور ہونے والے جراثیم کو اینٹی بایوٹک ادویات دے کر ختم کردیا جاتا ہے ۔ لیکن چوںکہ وائرس براہ راست خلیات پر حملہ آور ہوکر اُن کے اندر داخل ہوجاتا ہے، اس لیے طبی ماہرین وائرس کو مارنے کے لیے ادویات استعمال نہیں کرسکتے، کیوںکہ وائرس کا خاتمہ کرنے والی ادویات سے خلیات میں بھی ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہوسکتا ہے۔ اس لیے طبی ماہرین انسانی جسم میں موجود مدافعتی نظام کو تحریک کر وائرس کو شکست دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اچھی طرح ذہن نشین رہے کہ وائرس کے خلاف واحد دفاع انسانی جسم میں موجود اپنی قوت مدافعت ہی ہے۔

اسی قوت مدافعت کے باعث انسانی جسم بن بلائے مہمان کی شناخت کرتا ہے اور خون میں موجود سفید سیلز اینٹی باڈیز بناکر وائرس کو ناکارہ کردیتے ہیں۔ لیکن وائرس کا خاتمہ تب ہی ممکن ہوپاتا ہے، جب مدافعتی نظام وائرس کے مقابلے میں زیادہ مضبوط ہو، جب کہ کسی بھی وائرس کے شدید حملہ یا کم زور قوت مدافعت کی صورت میں ویکسین اور اینٹی وائرل ادویات سے وائرس کی افزائش کی روک تھام اور اس کے خاتمے کے لئے جسم کو قوت مدافعت کو بڑھایا اور مضبوط بنا یا جاتا ہے۔

٭کیا وائرس زندہ ہوتے ہیں؟

اگر کوئی دلائل سے یہ ثابت کرنے میں کام یاب ہوجائے کہ وائرس کسی سائنسی لیبارٹری میں تیار ہونے والاایک ہتھیار ہے تو پھر ایک عام شخص کے ذہن یہ سوال ہونا فطری ہے کہ وائرس حقیقی زندگی رکھتا ہے یا پھر اسے طبی ماہرین نے مصنوعی حیات سے سرفراز کیا ہوا ہے؟ بدقسمتی سے ہمارے ہاں! آج بھی سوشل میڈیا پر یہ سازشی تھیوری سب سے زیادہ مشہور و معروف ہے کہ کورونا وائرس سائنس دانوں نے کسی لیبارٹری میں تیار کیا تھا۔

ابتدا میں یہ موقف صرف سوشل میڈیا پر گھڑا گیا ایک نظریہ تھا، لیکن جب اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین ہارون نے سوشل میڈیا پر اصرار کیا کہ’’اُن کی تحقیق کے مطابق کورونا وائرس کو بل گیٹس نے کسی طبی لیب میں تیار کروایا تھا‘‘ تو پھرمختلف نیوزچینلز کی سب سے پہلے بریکنگ نیوز دینے کی مجبوری نے حسین ہارون کی اِس انکشاف کو پاکستانی میڈیا کی سب سے بڑی خبر بنادیا۔ واضح رہے کہ اس بریکنگ نیوزکے افشاء ہونے کے بعد وائرس کی صحت پر تو ذرہ برابر اثر نہیں پڑا لیکن پاکستانی عوام میں ضرور وائرس کی حقیقت ایک تماشے اور لطیفے کی بن کر رہ گئی۔

بہرکیف سائنسی تحقیقات یہ بتاتی ہیں کہ وائرس خوردبین میں بے حس و حرکت اور بے جان ضرور دکھائی دیتا ہے لیکن حقیقت میں ہوتا ایک زندہ خلیہ ہی ہے اور جوں ہی اسے کوئی دوسرا زندہ خلیہ دست یاب ہوتا ہے تو یہ خود کو پوری طرح سے فعال کرلیتا ہے۔ نیز فعال ہونے کے بعد یہ بڑی تیزرفتاری کے ساتھ اپنے جیسی شکل و صورت اور خاصیت رکھنے والے دوسرے وائرس بنا نا شروع کردیتا ہے۔

علاوہ ازیں سائنس داں بھی کسی لیبارٹری میں پروٹین، لیپڈ اور نیوکلیک ایسڈ جیسے کیمیائی مرکبات کی مدد سے وائرس بنانا بھی چاہیں تو اُس کے لیے بھی انہیں مطلوبہ خاصیت رکھنے والے ایک عدد میزبان زندہ خلیے اور نیم مردہ وائرس کی ضرورت ہوتی ہے۔ یعنی سائنس دانوں کو کورونا وائرس تیار کرنے کے لیے لازمی طور پر ایک عدد میزبان کورونا وائرس درکار ہوگا، جب ہی کہیں جاکر سائنس داں وائرس زدہ، ڈی این یا آر این اے بناسکتے ہیں، کیوںکہ طبی ماہرین کسی وائرس کو سست، بے حس، نیم مردہ یا اس کی تعداد میں اضافہ تو ضرور کرسکتے ہیں لیکن وائرس کی تخلیق فی الحال سائنس کے لیے بھی ایک کارِمحال ہی ہے۔

٭زمین کے اصل مالک وائرس ہیں

عالمی ادارہ صحت کے مطابق چوںکہ کورونا وائرس ایک عالم گیر وبا ہے، اس نسبت سے زیادہ تر افراد، وائرس کو ایک ایسا حملہ آور یک خلوی جرثومہ تصور کرتے ہیں، جو مختلف ادوار میں نہ جانے کہاں سے اچانک زمین پر نمودار ہوکر انسانی زندگی پر حملہ آور ہوتا رہا ہے۔ کچھ لوگ تو یہ بھی رائے رکھتے ہیں کہ وائرس شاید کسی دوسرے سیارے سے ہماری زمین پر اُترنے والی ایک غیرمرئی ایلین مخلوق ہے۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ بے شمار سائنس دانوں کے نزدیک ہمارے کرۂ ارض پر سب سے پہلے وائرس آئے تھے اور اِن کی وجہ سے ہی زمین پر دیگر حیات کا ظہور ممکن ہوا ، جب کہ نظریہ ارتقاء پر تحقیق کرنے والے محققین بھی کچھ اسی بات سے ہی ملتی جلتی رائے کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’زمین پر اگر کسی یک خلوی جرثومے سے زندگی کا آغاز ہوا ہو گا تو پھر وہ وائرس ہی ہوگا، کیوںکہ حیاتیاتی چِپ ’’ڈی این اے ‘‘ کی ابتدا ’’آر این اے ‘‘ سے ہوئی ہے اور ’’آر این اے‘‘ میں اپنی جیسی شکل و صورت اور خاصیت رکھنے والے مزید آر این اے بنانے کی فطری صلاحیت بدرجہ اتم پائی جاتی ہے، جب کہ وائرس بھی اس خوبی اور صلاحیت کے حامل ہوتے ہیں۔ اس لیے غالب امکان یہ ہی ہے کہ ہمارے دنیا میں سب سے پہلے وائرس آئے تھے اور بعدازاں وائرس کے ارتقاء کے نتیجے میں ہی زمین پر زندگی وجود میں آئی ہوگی۔‘‘ اگر یہ سائنسی نظریہ درست تسلیم کرلیا جائے تو پھر ہماری زمین کے اصل باسی تو وائرس ہوئے نہ کہ ہم انسان۔

٭سارا جہاں وائرس ہے

ہمارے دوست اور معروف شاعر جناب فہیم شناس کاظمی کا ایک شعر ہے کہ ’’ہر عکس، اُس کا عکس ہے۔۔۔ سارا جہاں آئینہ ہے۔‘‘ اگر اس شعر کو تھوڑے سے تصرف کے ساتھ ’’وائرس زدہ‘‘ کردیا جائے تو بات کچھ یہ یوں بھی بنائی جا سکتی ہے کہ ’’ہر عکس، اُس کا عکس ہے۔۔۔ سارا جہاں وائرس ہے۔‘‘ دراصل وائرس ہر جگہ موجود ہیں۔ یعنی جہاں زندگی پائی جاتی ہے، وہاں وائرس بھی موجود ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ زندہ اجسام کے اندر بھی عجیب و غریب وائرس کا ایک جہاں آباد ہوتا ہے۔ مگر ہم انسانوں پر خدائے لم یزل، کا بے پایاں لطف و کرم یہ ہے کہ چوںکہ زیادہ تر وائرس غیرفعال اور نیم مردہ حالت میں ہی ہوتے ہیں۔

اس لیے حضرت انسان وائرس کے مضر اثرات سے محفوظ و مامون ہی رہتا ہے۔ لیکن اگر کوئی وائرس کبھی فعال ہوجائے تو پھر طاعون، ہیضہ، پولیو اور کورونا وائرس جیسی جان لیوا وباؤں کی صورت میں زمین پر وہ قیامت صغریٰ برپا ہوجاتی ہے کہ رہے نام اللہ کا۔

سادہ الفاظ میں یوں سمجھ لیجیے کہ وائرس کی فعالیت متاثرہ جان دار کی موت کا دوسرا نام ہی ہے۔ قصہ مختصر یہ ہے کہ ایک انسانی جسم میں تقریباً 10,000,000,0000,000 خلیات ہوتے ہیں، جن سے مل کر ایک انسان کی تشکیل ممکن ہوتی ہے۔ نیز اِن خلیات میں موجود بیکٹیریا کا شمار کیا جائے تو مذکورہ بڑی مشکل سے شمار میں آنے والا طویل عدد، بھی انتہائی مختصر دکھائی دے گا۔ حیران کن طور پر ہم میں سے ہر انسان اپنے اندر موجود انسانی خلیات کے مقابلے میں ایک سو گنا زیادہ وائرس لے کر گھومتا پھرتا رہتا ہے۔

اس اصول کو پیش نظر رکھتے ہوئے اگر زمین پر موجود دیگر جان دار وں کے خلیات اور اُن میں پائے جانے والے وائرس کی اصل تعداد سے متعلق قیاس کیا جائے تو عین ممکن ہے کہ ہماری دنیا میں رائج عددی نظام ہی تہہ و بالا ہوجائے مگر وائرس کی درست تعداد جاننا تو ایک طرف رہا، شاید اندازہ بھی نہیں لگایا جاسکے۔

٭چھوٹے وائرس

عام طور پر ہم جانتے ہیں کہ وائرس انتہائی چھوٹے ہوتے ہیں لیکن وائرس کتنے چھوٹے ہوتے ہیں؟ شاید اس بابت آپ نے کبھی تصور بھی نہ کیا ہو۔ یاد رہے کہ ایک وائرس جراثیم یعنی بیکٹیریا سے بھی 100 گنا چھوٹا ہوتا ہے۔

یہ ہی وجہ ہے کہ وائرس کو کسی عام خوردبین سے بھی دیکھنا کم و بیش ناممکن ہی ہوتا ہے۔ اس لیے وائرس کا مشاہدہ اور مطالعہ کرنے کے لیے طبی ماہرین خاص قسم کی الیکٹران مائکرواسکوپ کا استعمال کرتے ہیں۔ وائرس پروٹین کی ایک جھلی کے اندر بند نیوکلیک ایسڈ (RNA یا DNA) پر مشتمل ہوتا ہے۔ دھاگے، راڈ، گول یا دیگر مختلف شکلوں کے ان وائرس کی پیمائش معلوم کرنی ہو تو ہمیں نینومیٹر کا پیمانہ استعمال کرنا پڑتا ہے۔ اور اندازہ لگائیے کہ ایک انچ کے دسویں حصے میں 2,54,000 نینو میٹر ہوتے ہیں۔ قطر 20 سے 300 نینو میٹر اور لمبائی 700 سے 1400 نینو میٹر ہوسکتی ہے۔

عجیب بات یہ ہے کہ اگر وائرس کو جان دار اجسام میں موجود کسی ایک زندہ خلیے کی میزبانی بھی دست یاب ہوجائے تو وہ اَن گنت وائرس بنالیتا ہے۔ یہاں تک کہ وائرس نووارد، وائرس کی تعداد جان دار جسم میں موجود خلیات سے بھی کئی گنا بڑھ سکتی ہے۔ یہی وہ بدنصیب لمحہ ہوتا ہے جب یہ چھوٹا سا وائرس خلیات کی وسیع وعریض اقلیم کا خاتمہ کرکے جان دار کے جسم پر اپنا اقتدار قائم کرلیتا ہے۔

٭وائرس بمقابلہ وائرس

جیسا کے آپ سب ہی بخوبی جانتے ہوں گے کہ وائرس کو عام ادویات سے ختم نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی وائرس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بیماریوں کے خلاف اینٹی بایوٹک ادویات موثر ثابت پائی گئی ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا وائرس کے خلاف وائرس کو استعمال کیا جاسکتا ہے؟ کمپیوٹر وائرس کو ختم کرنے کی حد تک تو ایسا بالکل ممکن ہے اور اینٹی وائرس کی اصطلاح استعمال بھی ایسے سافٹ ویئرز کے لیے ہی کی جاتی ہے، جن کی مدد سے کسی وائرس سے متاثرہ کمپیوٹر میں سے وائرس زدہ مواد میں سے وائرس کا سراغ لگا کر وائرس کو ختم کردیا جاتا ہے اور فائلیں یا دیگر مواد محفوظ بنالیا جاتا ہے۔

شاید یہی وجہ ہے کہ اکثر افراد سوال کرتے ہیں کہ آخر ہم انسان پر حملہ آور ہونے وائرس کے خاتمے کے لیے اینٹی وائرس کا استعمال کرنے بجائے ویکسین کیوں استعمال کرتے ہیں؟ دراصل طبی ماہرین کو ابھی تک اینٹی وائرس بنانے میں خاطر خواہ کام یابی حاصل نہیں ہوسکی ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ تما م سائنس داں صرف ویکسین کی ایجاد میں ہی مصروف ہیں۔

واضح رہے کہ بعض سائنس داں یا سائنسی ادارے ایسے بھی ہیں جو وائرس کے خاتمے کے لیے وائرس یعنی اینٹی وائرس کو استعمال کرنے کے خیال کو عملی جامہ پہنانے کے لیے برسوں سے مسلسل تحقیقات میں مصروف ہیں۔ اچھی خبر یہ ہے کہ سپوتنک (Sputnik) کے نام سے ایک ایسا وائرس تیار کرنے میں کام یابی حاصل ہوگئی ہے جو ٹھنڈے پانی میں دریافت ہونے والے ’’ماما وائرس‘‘ (Mamavirus) پر حملہ آور ہوکر اُس کی مزید وائرس بنانے کی صلاحیت کو غیرمعمولی حد تک متاثر کر سکتا ہے۔

ابھی یہ تحقیقات ابتدائی مرحلے میں ہیں لیکن اس تحقیق کے نتیجے میں سائنس دانوں کو پہلی بار اُمید ملی ہے کہ وہ مستقبل قریب میں کسی موذی وائرس کا مقابلہ کرنے کے لیے وائرس کو اُتار سکیں گے۔ یعنی جان داروں کو متاثر کرنے والے وائرس کے قلع ،قمع کرنے کے لیے اینٹی وائرس کی ایجاد اَب زیادہ دور نہیں ہے۔

 ٭نوبیل انعام اور وائرس

اگر آپ نوبیل انعام حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اپنی تحقیق کا مرکز وائرس کو بنالیں۔ یہ ہم نہیں کہتے بلکہ اکثر ماہرین کا ماننا ہے کہ’’حالیہ وقت میں کسی بھی وائرس پر منفرد تحقیق بلاشبہہ محقق کو یقینی طور نوبیل انعام کا بہ آسانی حق دار بنا سکتی ہے۔‘‘ دراصل گذشتہ ایک دو دہائیوں سے مختلف طرح کے عجیب و غریب اور مہلک صفات سے لیس نت نئے وائرسوں نے نمودار ہوکر انسانی آبادی کو جس طرح سے اپنا نشانہ بنایا ہے۔

اُس کے بعد تو انسانیت کی بقا کے لیے وائرس کی اُلجھی ہوئی گنجلگ گتھی کو سلجھانا ازحد ناگزیر ہوگیا ہے اور جو بھی سائنس داں، محقق یا طبی علوم کا ماہروائرس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے وبائی امراض کے علاج اور روک تھام میں قابلِ قدر تحقیقی کام کرے گا۔ اُسے یقینی طور پر نوبیل انعام سے سرفراز کردیا جائے گا۔ واضح رہے کہ وائرس کا تخصیصی علم جدید اصطلاح میں ویرولوجی (Virology)کہلاتا ہے۔

سال گذشتہ 2020 میں بھی جن دو محققین نے ہیپاٹائٹس سی وائرس کے علاج کے لیے دو اکی دریافت میں معاون بننے والی تحقیقات کی پیش کی تھیں انہیں نوبل انعام کا اعزاز دیا گیا تھا۔ یاد رہے کہ وائرس کو سب سے پہلے 1892 میں دریافت کیا گیا تھا، جب Dmitri Ivanovsky نے سراغ لگایا کہ تمباکو کے پودوں میں ایک انجیکشن کے ذریعے سیال بیکٹیریا کی تھوڑی سی مقدار داخل کرکے بیماری سے متاثر کیا جاسکتا ہے۔ انسانی آنکھ سے دکھائی نہ دینے والے اس بیکٹیریا کو ’’وائرس‘‘ کا نام دے دیا گیا، جب کہDmitri Ivanovsky کو 1946 میں اسی سائنسی تحقیق پر نوبیل انعام کا حق دار قرار دے دیا گیا تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔