یادگارشریف سے قبر شریف تک

سعد اللہ جان برق  ہفتہ 5 جون 2021
barq@email.com

[email protected]

ہم نے تو یونہی ازراہ تفنن یعنی گپ شپ میں کہاتھاکہ صوبے میں یاشہرپشاورمیں کوئی یادگار، اسلام آباد کی شکرپڑیاں کی طرح ’’چل پڑیاں‘‘ نام کی ہونا چاہیے،یہ اس وقت کہاتھا جب ریاست مدینہ کی ولایت کے پی کے عرف خیرپخیرکے والی صاحب نے یہ مژدہ جان فزا ،روح افزا، جگرافزوں افزاسنایا تھا کہ صوبہ ترقی کی راہ پر چل پڑااوراب چلاچل ہی چلاچل ہوگا۔

اک تم،کہ تم کو فکر نشیب و فرازہے

اک ہم کہ چل پڑے تو بہرحال چل پڑے

لیکن اب تو ریاست کے رئیس اعظم نے بھی فرمادیاکہ ’’معیشت چل پڑی‘‘ٹرین پہلے ٹریک پر چل پڑی تھی،انصاف اس سے بھی پہلے چل پڑا تھا، تبدیلی تو اس سے بھی چل پڑی تھی اورنیا پاکستان ان سب سے پہلے چل پڑا تھا، گویا ہر طرف چلاچل چلاچل۔

ایسے میں تو اب ’’چل پڑیاں‘‘ نام کی یادگاراور بھی ضروری ہوگئی،آخر جب مستقبل کے ماہرین آثار قدیمہ جب کھدائی کریں گے کہ یہ کیسے لوگ تھے جو ایک یادگاربھی نہیں چھوڑ گئے۔

جانے وہ کیسے لوگ تھے جن کے پیار کو پیار ملا

اور جن کے چلاچل کو چلاچل ملا

ریاست کے رئیس اعظم نے بمقام ’’رشکئی‘‘ ایک قابل رشک،اکنامک زون چلا کر ریاست کو خطرے کے زون سے باہرنکال کر خوشخبری سنا دی ہے کہ ’’معیشت چل پڑی‘‘اوریہ بہت بڑی خبر ہے، اکہترسال سے جو معیشت لیٹی ہوئی،بیٹھی ہوئی یا سوئی ہوئی تھی وہ چل پڑی۔اس چلاچل میں ایک یادگار تو بنتی ہی بنتی ہے ۔

لیکن ہمیں یہ بھی پتہ ہے کہ حکومت نے چلاچل کی جو ٹرین بنا رکے ہوئے ٹریک پر رواں دواں کی ہے اوراس کے پیچھے تمام محکموں اوراداروں کے ڈبے بوگیاں بھی چلاچل کردی ہیں، مطلب یہ کہ گارڈ نے سیٹی بجا دی ہے اور جھنڈی ہلادی ہے ایسے میں حکومت کو اتنی فرصت کہاں کہ یادگاریں تعمیرکرسکے۔

ویسے بھی حکومت کی عادت ہے کہ ضروری کام تب کرتی ہے جب تمام غیرضروری کاموں سے فرصت ملے،اس لیے نہ جانے کب لنگرخانوں، بھیک خانوں، باورچی خانوں، تہہ خانوں اور ’’خانوں‘‘ سے فرصت میسر ہو اس لیے ہم نے سوچا کہ اس سلسلے میںہم بھی صرف قولے اورقلمے ہی نہیں، دامے درمے اورقدمے اپنا حصہ ڈالیں، نقشہ تو ہم نے پہلے ہی اس مجوزہ یادگار ’’چل پڑیاں‘‘ کا ایک ماہرترین، تجربہ کار ترین اورذہین ترین آرکیٹکٹ ،قہرخداوندی چشم گل چشم عرف کوئڈ نائنٹین سے بنوا رکھا ہے صرف اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے اوروہ ہم شروع کرنے والے ہیں، صرف چندے کے کتابچے چھپ جانے کاانتظار ہے، پھر دیکھیے اندازگل افشانی یادگار۔

لیکن اب ہمیں خیال آیاہے کہ وہ اتنا بڑا چل چلاچلاچل ہوگیاہے بلکہ چل پڑا ہے تو صرف ایک یادگارسے اس کاحق ادانہ ہوسکے گا، یادگار کے ساتھ ایک مزارکی تعمیربھی لازم ہوگئی ہے اوراگرمزار بھی پہلوئے یادگار میں بن گیا تو آمدنی کی بھی سبیل ہو جائے گی اورلنگرخانے کا انتظام بھی ہو جائے گا،مزار میں پھر کون دیکھتا ہے کہ کون لیٹا ہے یاکوئی ہے بھی نہیں،کیوں کہ اپنے ہاں عقیدت مندوں کاکوئی شمارنہیں صرف ایک مزارشریف ہوناچاہیے اس طرح ایک اورکام بھی خود بخود ہوجائے گاکہ اسلام آباد کی شکرپڑیاں سے ہماری ’’چل پڑیاں‘‘ ایک قدم آگے نکل کر ’’چل پڑیاںشریف‘‘ ہوجائیں گی۔

آپ کو شاید جعلی مزاروں شریفوں کے زورکا پتہ نہیں اس لیے یقین نہیں کررہے ہیں لیکن ہمیں پتہ ہے،اس لیے ہمارے پاس ایک نہایت ہی حقائق پر مبنی کہانی موجود ہے۔

کہتے ہیں ایک شخص مزدوری کی تلاش میں پردیس کونکل گیااورپھر پھرتے پھرتے مملکت ناپرسان جاپہنچا لیکن یہاں اس نے دیکھا کہ لوگ کام سے زیادہ لنگرخانوں سے دلچسپی رکھتے ہیں، سو وہ بھی ایک اچھا سالنگرخانہ دیکھ کر پڑگیابلکہ چل سے پڑگیااورپھر آہستہ آہستہ لنگرشریف کے متولی شریف کی نظروں میں چڑھ گیا ۔

مدتوں بعد اسے اپنے وطن کی یاد آئی تو اس نے مزار شریف کے چیف متولی سے جس کااب وہ ڈپٹی چیف متولی تھا اپنی خواہش کااظہارکیا،چیف متولی نے نہ صرف اجازت مبارک عطافرمائی بلکہ بہت سامال ومتاع شریف بھی مرحمت فرمایااورساتھ ہی اپنا خاص گھوڑابھی کہ خیرنال جا ۔تے خیرنال آ۔

وہ چل پڑا ۔چلتے چلتے ایک مقام پر گھوڑا شریف رک گیا پھرجھک گیا، پھر بیٹھ گیا اورپھر لیٹ گیا،اس نے دیکھا توگھوڑا انگریزی کالیٹ ہوگیا تھا، اس نے کسی طرح جتن کرکے قبرکھودی کہ پیرمبارک کاگھوڑا شریف ہے، تجہیزوتکفین شریف اور تدفین مبارک ضروری ہے۔ قبربنانے کے بعد تھکن کے مارے وہیں قبرکے ساتھ ٹیک شریف لگاکر محواستراحت شریف ہوگیا،جاگا تو اردگرد بہت سارے سکے پڑے ہوئے تھے جو راہ چلتے ہوئے لوگوں نے عقیدت کے مارے ڈالے تھے،اس کے دماغ شریف میں بھی کلک مبارک ہوگیا،قبر کوسنوار کر مزار میں تبدیل کیااور وہ دیکھتے دیکھتے مجمع خلائق ہوگیا،مسجد اورپھرمزار کمپلیکس۔

ادھر اس کے چیف متولی نے اس کے آنے میں دیرکودیکھا تو وہ بھی اس طرف چل پڑا،اس نے مزار کمپلیکس میں پہنچ کر دیکھا کہ اس کاڈپٹی چیف متولی بناہواہے ،پوچھنے پر سابق ڈپٹی اورموجودہ چیف نے ساراقصہ شریف سنایا توچیف مسکراکربولا،یہ ذات ہی بابرکت ہے جس مزار پر میں بیٹھا ہوں وہ اس گھوڑے کی والدہ محترمہ کا مزارہے۔ضروری چیز عقیدت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔