این ایس اے اسکینڈل

ندیم سبحان  اتوار 19 جنوری 2014
ایڈورڈ اسنوڈن کی بہادری آئی ٹی کمپنیوں کو اربوں ڈالر کا جھٹکا دے گئی۔  فوٹو : فائل

ایڈورڈ اسنوڈن کی بہادری آئی ٹی کمپنیوں کو اربوں ڈالر کا جھٹکا دے گئی۔ فوٹو : فائل

گذشتہ سال کی دوسری ششماہی کے دوران امریکا کی نیشنل سیکیورٹی ایجنسی ( این ایس اے) کے اہل کار ایڈورڈ اسنوڈن نے ایجنسی کی خفیہ معلومات کو افشا کرکے تہلکہ برپا کردیا تھا۔

افشائے معلومات کے نتیجے میں این ایس اے کا کردار کھل کر سامنے آگیا تھا کہ اس ادارے کے ذریعے امریکا ا پنے اتحادی ممالک سمیت دنیا بھر کی جاسوسی کرتا ہے۔ عالمی جاسوسی کے لیے انٹرنیٹ، نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کا مؤثر ترین ہتھیار ہے جس کے ذریعے وہ ڈیٹا کی منتقلی پر نظر رکھتی ہے اور فون کالز ٹیپ کرتی ہے۔ ایڈورڈ اسنوڈن نے ’’ این ایس اے لِیکس‘‘ کے ذریعے جہاں امریکا کے مکروہ چہرے کی بدنمائی میں اضافہ کیا وہیں اس کی یہ بہادری امریکی کمپنیوں کو اربوں ڈالرز کے نقصان سے دوچار کرگئی ہے۔

براعظم ایشیا ٹیکنالوجی سے متعلق امریکی کمپنیوں کی اہم مارکیٹ ہے۔ این ایس اے اسکینڈل منظرعام پر آنے کے بعد بیشتر ایشیائی اداروں اور حکومتوں نے حساس ڈیٹا کی ہینڈلنگ کے لیے امریکی کمپنیوں پر اعتماد کرنے سے معذوری ظاہر کردی ہے۔ ایک برطانوی اخبار کے مطابق جون میں اس اسکینڈل کے منظر عام پر آنے کے بعد سے دسمبر کے اختتام تک ’’ آئی بی ایم‘‘ اور ’’سسکو‘‘ کی آمدنی میں 1.7 ارب ڈالر کی کمی واقع ہوچکی تھی۔

ڈیٹا اسٹوریج کے معاملے میں امریکی آئی ٹی کمپنیوں سے احتراز کرنے والے ممالک میں چین سرفہرست ہے۔ سرمائے پر تحقیق کرنے والی کمپنی ’’ آرگس ریسرچ‘‘ سے وابستہ جیمز کیلیہر کے مطابق چین کا یہ اقدام جواب آں غزل بھی ہوسکتا ہے کیوں کہ امریکا نے چینی کمپنی Huawei کے ملکی فوج اور انٹیلی جینس اداروں کے اثر سے آزاد ہونے کے بارے میں شکوک وشبہات ظاہر کیے تھے۔ Huawei ٹیلی کمیونی کیشن کے آلات بنانے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی ہے۔ ہر اہم ملک میں اس کے دفاتر موجود ہیں، تاہم امریکا میں یہ کمپنی اب تک کوئی بڑا کنٹریکٹ حاصل نہیں کرپائی۔

این ایس اے اسکینڈل طشت از بام ہونے کے بعد امریکی کمپنیوں کو ہونے والا نقصان صرف ایشیا تک محدود نہیں بلکہ یورپی ممالک بھی ایسے اقدامات کررہے ہیں جن سے امریکی آئی ٹی کمپنیوں کی آمدنی میں مزید کمی آئے گی۔ جرمن حکومت نے ملکی انٹرنیٹ سروس پرووائیڈرز کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے جب کہ مختلف ممالک کے مابین ایسا نیٹ ورک انفرا اسٹرکچر تخلیق کرنے پر بھی بات چیت ہورہی ہے جو امریکی دست بُرد سے محفوظ ہو۔

امریکی کمپنی ’’ کلاؤڈ سیکیورٹی الائنس‘‘ کی جانب سے کیے گے سروے کے مطابق عالمی نگرانی کا نظام جسے ’’ پرزم پروگرام‘‘ کہا جاتا ہے اور جو این ایس اے کے زیر استعمال ہے، اگلے تین برسوں میں کلاؤڈ کمپیوٹنگ سے متعلق کمپنیوں کو مجموعی طور پر 35 سے 45 ارب ڈالر کے نقصان سے دوچار کرسکتا ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ کینیڈا، جرمنی، فرانس اور دیگر یورپی ممالک ایسے قوانین وضع کررہے ہیں جن کے تحت امریکی کمپنیاں ڈیٹا پرائیویسی کی ضمانت دینے کی پابند ہوں گی۔

کلاؤڈ سیکیورٹی سے متعلق ماہرین کا کہنا ہے کہ یورپی ممالک کے لیے اس ایشو کو سنجیدگی سے لینا بہت ضروری ہے۔ اگر تمام کمپنیوں کا ڈیٹا امریکی کنٹرول میں چلاگیا تو یہ یورپی عوام کے مستقبل کے لیے اچھا نہیں ہوگا۔

ماہ رواں کے آغاز پر ایپل، گوگل، یاہو، مائیکروسوفٹ، ٹویٹر اور فیس بُک جیسی بڑی کمپنیوں کے عہدے داران نے این ایس اے کی جاسوسی مہم کے اثرات کے تناظر میں امریکی صدر براک اوباما سے ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات میں اوباما پر زور دیا گیا تھا کہ وہ الیکٹرونی جاسوسی مہم کو لگام دیں، بہ صورت دیگر اس سے کمپنیوں کی ساکھ متاثر ہوگی۔ تاہم اس بات کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے کہ امریکا عالمی جاسوسی سے باز آئے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔