سروسز کیس میں سندھ ہائیکورٹ حدود سے تجاوز کر رہی ہے،سپریم کورٹ

اصغر عمر  اتوار 19 جنوری 2014
سندھ ہائیکورٹ آرٹیکل212اور189کی خلاف ورزی کی مرتکب ہورہی ہے،  سپریم کورٹ کی آبزرویشن فوٹو: فائل

سندھ ہائیکورٹ آرٹیکل212اور189کی خلاف ورزی کی مرتکب ہورہی ہے، سپریم کورٹ کی آبزرویشن فوٹو: فائل

کراچی: سپریم کورٹ آف پاکستان نے ملازمتوں کے مقدمات میں حدود سے تجاوزکرنے اور سپریم کورٹ کے احکام کی موجودگی میں ریلیف دینے سے متعلق سندھ ہائیکورٹ کے احکام پربرہمی کااظہار کرتے ہوئے آبزرویشن دی ہے  کہ سندھ ہائیکورٹ کے بعض فیصلے سپریم کورٹ کے فیصلوں میں مداخلت کے مترادف ہیں اس لیے یہ معاملات چیف جسٹس آف پاکستان کے روبروپیش کیے جائیں۔

جسٹس امیرہانی مسلم نے یہ آبزرویشن کیپٹل پولیس افسرکی پولیس افسران کی ترقیوں سے متعلق سندھ سروسز ٹریبونل کے فیصلے کے خلاف سول پٹیشن کی سماعت کرتے ہوئے جاری کی۔ ملازمتوں سے متعلق مقدمات کی سماعت کے دوران یہ صورتحال سامنے آنے کے بعدکہ سندھ ہائیکورٹ ان معاملات پرحکم امتناع جاری کرچکی ہے، جسٹس امیرہانی مسلم نے سخت نوٹس لیااور سپریم کورٹ کے واضح فیصلے کے باوجودخلاف ضابطہ ترقی پانے والے پولیس ودیگر افسران کوعدالت عالیہ سے ریلیف ملنے کانوٹس لیتے ہوئے تفصیلات طلب کیں۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سرور محمدخان اوراے آئی جی(لیگل) پولیس علی شیرجکھرانی نے سندھ ہائیکورٹ میں ڈیپوٹیشن اورخلاف ضابطہ ترقی پانے والے افسران کی جانب سے دائرکردہ آئینی اورسول درخواستوں کی تفصیلات پیش کیں۔ عدالت کے استفسارپر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے بتایاکہ آئی جی سندھ نے پولیس افسران کی سینیارٹی سے متعلق ایک اسٹینڈنگ جاری کردیا تھامگر تنزلی پانے والے افسران نے سندھ ہائیکورٹ سے ریلیف حاصل کیااور عدالت عالیہ نے مختلف مقدمات میں ان افسران کے حق میں حکم امتناعی جاری کردیے ہیںجس کے باعث صوبائی حکومت کوان افسران کی سینیارٹی طے کرنے میں مشکلات کاسامنا ہے۔ عدالت عالیہ نے مذکورہ اسٹینڈنگ آرڈرپر عمل درآمدبھی معطل کردیا ہے۔

 

انھوں نے بتایاکہ ضابطہ دیوانی کی دفعہ11(VII) کے تحت عدالت کے حکم کے خلاف نظرثانی کی درخواست دائرکرنے کی بھی گنجائش نہیںتھی۔ اس حوالے سے عدالت عالیہ کی توجہ بھی اس جانب دلائی گئی کہ آئین کی دفعہ212 کے تحت سروسزکے معاملات میں تمام عدالتیں ایسی درخواستوں کو سننے کی مجازنہیں، سرکاری وکیل نے موقف اختیارکیا کہ آئی جی سندھ نے سپریم کورٹ کے حکم کے عین مطابق اسٹینڈنگ آرڈرجاری کیا تاکہ افسران کی ترقی اورسینیارٹی طے کی جائے۔ اگرکوئی افسرمتاثر ہورہا تھاتو اسے براہ راست سپریم کورٹ سے ہی رجوع کرناچاہیے تھاکیوں کہ فاضل عدالت کے حکم پرعمل درآمدکرتے ہوئے یہ اسٹینڈنگ آرڈرجاری کیا گیاتھا اورسپریم کورٹ ہی اس معاملے کی سماعت کی مجازتھی۔ سپریم کورٹ نے آبزرویشن دی کہ سپریم کورٹ کے واضح احکام کے باوجودعدالت عالیہ کی جانب سے ان افسران کے حق میںحکم امتناع جاری کرناآئین کے آرٹیکل189 اور سپریم کورٹ کے احکام کی بھی خلاف ورزی ہے۔

عدالت عالیہ نے آئین کی دفعہ212 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سروسز معاملات کی آئینی وسول درخواستوںکی سماعت شروع کردی ہے جس کی سماعت سروسزٹریبونل میںہونی چاہیے۔عدالت عالیہ کایہ اقدام ہرگزمناسب نہیں۔ جسٹس امیرہانی مسلم نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سرورمحمد خان اوراے آئی جی (لیگل) علی شیرجکھرانی کی جانب سے سندھ ہائیکورٹ میں زیرسماعت متعلقہ مقدمات کی فہرست اورمعاملہ چیف جسٹس آف پاکستان کوبھجواتے ہوئے سفارش کی ہے کہ ضابطہ دیوانی اورآئین کے تحت عدالت عالیہ کے اختیارات اورحدود کاحتمی تعین کردیا جائے تاکہ یہ معاملہ ہمیشہ کے لیے طے ہوجائے کہ سپریم کورٹ کاحکم آجانے کے بعدعدالت عالیہ اس حوالے سے درخواستوںکی سماعت کی مجازہے یانہیں؟ ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔