کینیڈا میں پاکستانی مسلم خاندان کا قتل اور اسلاموفوبیا

تزئین حسن  منگل 8 جون 2021

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کیلئے سبسکرائب کریں

لندن میں ایک نسل پرست اسلام مخالف کا مسلم خاندان پر حملہ کینیڈا کی مسلم برادری کے ساتھ ساتھ پورے کینیڈا کےلیے بہت تکلیف دہ ہے۔ پاکستان میں اور مسلم دنیا میں بھی یقیناً اس درد کو محسوس کیا جارہا ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ کینیڈین پولیس کے ذمے داران کا کہنا ہے کہ حملہ اسلاموفوبیا کا نتیجہ ہے اور پہلے سے سوچا سمجھا تھا۔ کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو اور دیگر ذمے داران نے بھی اس واقعے کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔ حملے کو ہیٹ کرائم اور دہشت گردی بھی قرار دیا جارہا ہے۔

اس حوالے سے پاکستان میں لوگ عجیب عجیب طرح کے کمنٹ دے رہے ہیں، جو کینیڈا کی مسلم آبادی کےلیے اور بھی تکلیف کا باعث بن رہے ہیں۔ کسی کا کہنا ہے کہ یہ ایک یہودی نے کیا ہے۔ کوئی کہہ رہا ہے اسلاموفوبیا کے لیے خود مسلمان ذمے دار ہیں۔ کسی کا کہنا ہے کہ تحقیقات محض نام نہاد ہورہی ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ اسلاموفوبیا دیگر مغربی ممالک کی طرح کینیڈا میں بھی موجود ہے لیکن اس کا تعلق کسی مذہب سے نہیں۔ کینیڈا مسلمانوں کےلیے انتہائی محفوظ ملک ہے جہاں وہ سکون اور آزادی کے ساتھ اپنے دینی فرائض کی ادائیگی بھی کررہے ہیں اور ہر طرح کے اسلامی کاز میں بھی اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔

یہ کہنا کہ کسی یہودی نے ایسا کیا، ایسا ہی ہے جیسے کسی ایک مسلمان کی دہشت گردی کا الزام پوری مسلم دنیا پر ڈال دیا جائے۔ یہاں تمام مذاہب کے لوگ مل جل کر رہتے ہیں اور ایک دوسرے کا اور ان کے دین کا احترام کرتے ہیں۔

یاد رہے کہ اس سے قبل مسلمانوں پر اسلام مخالف نسل پرستانہ دہشت گرد حملہ چار سال قبل 2017 دارالحکومت اوٹاوا کی ایک مسجد میں ہوا تھا، جس میں چھ افراد شہید ہوئے تھے۔ حملہ آور فوری پکڑا گیا تھا اور اسے سزا بھی جلد سنا دی گی تھی۔ اس کے بعد سے اب تک کسی کی ایسی کسی حرکت کی ہمت نہیں ہوئی تھی۔ حالیہ واقعے میں بھی حملہ آور پکڑا گیا ہے۔ اور انشااللہ کینیڈا کے قانون کے مطابق جلد سزا ہوگی۔

ایسے واقعات کی کلی روک تھام تو شاید کہیں بھی ممکن نہ ہو، لیکن کینیڈا میں مسلم دنیا کے مقابلے میں انصاف بہرحال جلد ملتا ہے، خصوصاً اگر جرم نفرت کی بنیاد پر ہو یعنی ہیٹ کرائم ہو۔ ایسے واقعات کو مذہبی رنگ دینے یا مغرب کو گالیاں دینے کا ذریعہ بنانے سے پہلے اپنے گریبان میں لازمی جھانکنا چاہیے۔

اسی طرح پاکستان میں ہی سوشل میڈیا پر بعض لوگ یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ اسلاموفوبیا کا باعث خود مسلمان ہیں، کیونکہ وہ دہشت گردی کرتے رہے ہیں اور اپنے مذہب کو برتر سمجھتے ہیں۔ ایسے کمنٹس بھی مسلم برادری کےلیے بہت تکلیف دہ ہیں، خصوصاً اس موقع پر۔ یہ میرے نزدیک مظلوم سے نفرت کا اظہار ہے۔

یہ ٹھیک ہے کہ پچھلے بیس سال میں دنیا میں دہشت گردی کی شرح میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے اور ان میں خود کو مسلمان کہنے والے بھی ملوث تھے، لیکن ایسا نہیں کہ سارے مسلمان ہی تھے۔ ان میں یہود، ہندو، عیسائی، مسلمان، کالے، گورے، سب ہی کا حصہ ہے۔ صرف مسلمانوں کو دہشت گردی کا باعث بتانا کم علمی ہے۔

2015 میں جب امریکی ریاست کیلیفورنیا میں ماس شوٹنگ کا واقعہ ہوا تو بی بی سی کے مطابق اس سال امریکا میں تین سو پچاس سے زائد ماس شوٹنگ کے واقعات ہوچکے تھے، یعنی اوسطاً ہر روز ایک ماس شوٹنگ کا واقعہ ہوا۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ میڈیا عام طور سے دہشت گردوں کے مذہب کا تذکرہ صرف اس وقت کرتا ہے جب وہ مسلمان ہوں۔ اور یہ اسلاموفوبیا کی بہت بڑی وجہ ہے۔ واضح رہے کہ ماس شوٹنگ اس حملے کو کہا جاتا ہے، جس میں چار سے زائد افراد مارے جائیں۔ امریکا میں سیاہ فاموں کے چرچ مسلسل حملوں کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔

جو لوگ صرف مسلمانوں کو دہشت گردی کا مرتکب سمجھتے ہیں ان کو اسرائیل کے قیام کی تاریخ کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے، جہاں صہیونیوں نے برطانوی انتظامیہ اور صہیونیوں کو پناہ دینے والے فلسطینیوں پر بہت بڑے دہشت گرد حملے کے گئے۔ صرف ایک ڈیوڈ ہوٹل حملے کے بارے میں پڑھنا بھی ایسے لوگوں کےلیے مفید ہوگا جو صہیونیوں نے فلسطین میں برطانوی مینڈیٹ کی انتظامیہ سے اپنے مطالبات منوانے کےلیے کیا۔

نسل پرستی اور نفرت پر مبنی ہیٹ کرائم کا شمار بھی مغرب میں بڑے کرائمز پر ہوتا ہے، اگر یہ ثابت ہوجائے کہ ایسا محض کسی قوم سے نفرت کی وجہ سے کیا گیا ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ ابتدائی تحقیقات میں ہی پولیس نے یہ بیان دیا ہے کہ یہ حملہ اسلام مخالف ہے، سوچا سمجھا ہے اور نفرت پر مبنی ہے۔

صرف ہیٹ کرائم ہی نہیں کسی قوم، لسانی یا مذہبی گروہ کے خلاف نفرت پر مبنی اسپیچ بھی ایک جرم ہے، کیونکہ یہ نفرت ہی بعد میں پھیل کر بڑے جرائم کا باعث بنتی ہے۔ لیکن یہاں ہم پاکستانیوں کو اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنے کی ضرورت ہے، کہیں ہمارے ہاں تو کسی مذہبی گروہ کے خلاف کھلے عام نفرت نہیں پھیلائی جاتی؟ اور جو لوگ ایسا کرتے ہیں انہیں باقی پاکستانیوں سے کیسا ردعمل دیکھنے کو ملتا ہے؟

کیا پاکستان میں ایک عام پڑھے لکھے فرد میں یہ شعور موجود ہے؟ کسی دوسری قوم کے بارے میں نفرت پر مبنی بظاہر بے ضرر گفتگو سے ہم اپنے اردگرد کے لوگوں کو انتہاپسند بنا رہے ہوتے ہیں؟ اور پھر ایسے جرائم دیکھنے کو ملتے ہیں جن پر یہ کہا جاتا ہے کہ یہ تو انفرادی واقعات ہیں۔

آسیہ بی بی کو بری کیا گیا تو ایک موقر عالم نے فون پر بحث کے دوران مجھے کہا کہ اگر کوئی آپ کے سامنے گستاخی رسول صلیٰ الله وسلم کا مرتکب ہو تو آپ کو اجازت ہے کہ آپ اسے جان سے مار دیں۔ لیکن کچھ ہی عرصے بعد جب گستاخی کے خودساختہ دعوے پر گارڈ کے ہاتھوں بینک مینجر کے قتل کا واقعہ ہوا تو ان عالم صاحب کا اپنے فیس بک اسٹیٹس میں یہ کہنا تھا کہ یہ تو ایک انفرادی جرم ہے، مذہبی تعلیمات کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

سوال یہ ہے کہ مذہب کے نام پر گستاخ کا سر تن سے جدا کردینے کی ترغیب دینے والے کون ہوتے ہیں؟ سچ یہ ہے کہ دہشت گرد یا نسل پرست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تزئین حسن

تزئین حسن

تزئین حسن ہارورڈ یونیورسٹی امریکا میں صحافت کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ انکے مضامین پاکستان سمیت شمالی امریکا، جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے اخبارات و جرائد میں چھپتے رہے ہیں۔ تعلیم، بین الاقوامی سیاست، حقوق نسواں، میڈیا اور بہت سے دوسرے موضوعات پر مستقل لکھتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔