اپوزیشن مثبت معاشی عشاریوں کو جعلی ثابت کرنے سے قاصر

ارشاد انصاری  بدھ 9 جون 2021
بجٹ کی منظوری بھی حکومت کیلئے چیلنج ہے۔ فوٹو: فائل

بجٹ کی منظوری بھی حکومت کیلئے چیلنج ہے۔ فوٹو: فائل

 اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے چوتھے وزیر خزانہ شوکت ترین کی سربراہی میں اقتصادی ٹیم کی بجٹ سازی سے متعلق تیاریاںحتمی مرحلے میں داخل ہوچکی ہیں۔

بجٹ کی منظوری بھی حکومت کیلئے چیلنج ہے۔ جہانگیر ترین گروپ کا دباؤ حکومت کو پریشان کئے ہوئے ہے اور بعض حلقوں کا خیال ہے کہ اراکین اسمبلی کے حلف اٹھانے کیی معیاد سے متعلق آرڈیننس کے اجراء میں تاخیر کی بھی ایک وجہ یہ خوف ہی ہے۔ اگرچہ شیخ رشید اور اسپیکر اسد قیصر سمیت کپتان کے دوسرے کھلاڑی  دعویٰ کررہے ہیں کہ ترین گروپ کے تمام اراکین بجٹ کے حق میں ووٹ دیں گے۔

ماضی میں بجٹ سال کی اہم ترین دستاویز سمجھی جاتی تھی جسکا ہر کسی کو شدت سے انکار ہواکرتا تھا مگر جب سے بجلی، گیس پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں آئے روز رد و بدل شروع ہوا، بجٹ کی بھی وہ اہمیت نہیں رہی۔ مگرحکومت پوری تیاری کے ساتھ سالانہ رسم ادا کرتی ہے۔ بجٹ گیارہ جون کو پیش ہو گا۔ اس پہلے دس جون رواں مالی سال کی اقتصادی کارکردگی پر مشتمل اقتصادی سروے پیش کیا جائیگا۔

پیر کو وزیر اعظم  عمران خان کی زیر صدارت ہونے والے قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس میں رواں اور اگلے مالی سال کے اقتصادی اعشاریوں، سالانہ منصوبوں اور پی ایس ڈی پی کی بھی منظوری دی جا چکی ہے۔ اجلاس میں تمام  وزرائے اعلیٰ اور دیگر این ای سی ممبران شریک ہوئے۔ اجلاس میں مالی سال 2021-22 کے لئے میکرواکنامک فریم ورک کی منظوری کے ساتھ اگلے مالی سال کے معاشی اہداف کی بھی منظوری دی گئی ہے۔

آئندہ مالی سال کے لئے شرح نمو کا ہدف 4.8 فیصد مقرر کرنے کی منظوری دی گئی ہے،  زراعت  میں اضافے کا ہدف 3.5 فیصد، انڈسٹریئل سیکٹر 6.5 فیصد جبکہ سروسز سیکٹر میں 4.8 فیصد ہوگا۔ وزارتِ منصوبہ بندی کی جانب سے مالی سال 2021-22 کا پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام پیش کیا گیا اوراجلاس کو بتایا گیا کہ رواں مالی سال کے لئے ترقیاتی بجٹ نظر ثانی تخمینوں کے مطابق 1527 ارب روپے رہے گا۔ مالی سال 2021-22 کا ترقیاتی بجٹ 2100 ارب روپے مقرر کرنے کی منظوری دی گئی ہے۔

اگلے مالی سال کیلئے پی ایس ڈی پی کا حجم 900 ارب روپے ہوگا۔ ان میں سے 244 ارب ٹرانسپورٹ اینڈ کمیونیکیشن، 118 ارب روپے توانائی، 91 ارب روپے آبی وسائل، 113 ارب روپے سوشل سیکٹر، 100 ارب روپے علاقائی مساوات ، 31 ارب روپے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اور آئی ٹی سیکٹر۔ 68 ارب روپے ایس ڈی جیز جبکہ 17 ارب روپے پروڈوکشن سیکٹر پر خرچ کیے جانے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔

اگرچہ ہر سال کی طرح اس سال بھی اقتصادی اشاریئے متنازعہ ہیں لیکن آئی ایم ایف ،عالمی بینک سمیت دوسرے عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ ساتھ اسٹیٹ بینک کے اپنے تخمینہ جات کے برعکس مثالی کارکردگی نے سب کو ورطہ حیرت میں ڈالدیا ہے۔

اپوزیشن نے تو ان اعداد و شمار کو ہی جعلی قراردیدیا ہے لیکن کئی کئی سال اقتدار میں رہنے کے باعث اندر کی معلومات تک رسائی رکھنے، کئی ماہرین اور سابق وزراء خزانہ کی خدمات حاصل ہونے کے باوجود ابھی تک کوئی ٹھوس ثبوت سامنے نہیں لاسکی۔ البتہ سیاسی پوائنٹ سکورنگ خوب ہورہی ہے اور پاکستان مسلم لیگ(ن)نے  اپنے حالیہ پری بجٹ سیمنار میں حکومتی کارکردگی کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے موقف اپنایا ہے کہ پی ٹی آئی کے دور حکومت میںپاکستان کے عوام کو اپنے معیار زندگی میں بہت بڑی تنزلی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

ن لیگ کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کی غلط پالیسیز اور بدانتظامی سے ملک میں بے روزگاری اور غربت میں خوفناک اضافہ ہوا ہے۔ اس کے نتیجے میں 50 لاکھ پاکستانی بے روزگار ہوگئے جبکہ مزید 2 کروڑ لوگ خط غربت سے نیچے چلے گئے۔ تین سال کے مختصر عرصے میں اب صورتحال یہ ہے کہ فی کس آمدنی میں منفی شرح نمو، منفی کے بعد کم ترین قومی شرح نمو، انتہائی زیادہ مہنگائی، بلند ترین افراط زر کے باوجود جی ڈی پی کے فیصد کے لحاظ سے ٹیکس وصولیوں میں کمی ہوئی ہے۔

کچھ معاشی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اس سال بجٹ سازی کا زیادہ تر انحصار آئی ایم ایف پر ہے کیونکہ حکومت معاشی اشاریوں کی طرح اب اگلے بجٹ میں پاپولر فیصلوںکے ذریعے عوامی مقبولیت کے گراف کو بھی اوپر لے جانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ مگر آئی ایم ایف نے ہاتھ باندھ رکھے ہیں اور حکومت کی پوری کوشش ہے کہ آئی ایم ایف کو منالیا جائے۔

حکومت کی اقتصادی ٹیم اور آئی ایم ایف کے ساتھ بات چیت جاری ہے۔ اطلاعات یہ ہیں کہ ابھی آئی ایم ایف  کو راضی نہیں کیا جاسکا۔ آئی ایم ایف اگلے بجٹ میں حکومت  پر ڈیڑھ سے  200 ارب کے اضافی ٹیکسز لگانے کے لئے دباو ڈال رہا ہے مگر حکومت انکاری ہے۔

وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے اپنی ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ’’سابق دور میں قرضے لے کر معیشت کو بہتر دکھانے کی کوشش کی گئی ،مجبورہوکر اس حکومت کو آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا،ن لیگ کے غلط فیصلے سے معیشت کو 20 ارب ڈالر کا نقصان ہوا، کرنٹ اکاؤنٹ 20 ارب ڈالر خسارے میں تھا، ن لیگ نے ڈالر کے مقابلے میں روپے کو مصنوعی طریقے سے مستحکم رکھا، آئی ایم ایف کے پاس جانے سے اضافی ٹیرف لگانا پڑے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کے ماہرین جانتے ہیں اور ن لیگ کو بھی معلوم ہے کہ اسحاق ڈار نے معیشت کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ پاور منصوبوں کیلئے کوئی پلاننگ نہیں کی گئی۔ ہم کیپسٹی پیمنٹ دے دے کرتھک گئے ہیں‘‘۔

حکومت 8000ارب روپے کے لگ بھگ حجم کا وفاقی بجٹ اگلے ہفتے پیش کرنے جا رہی ہے۔ بجٹ میں گاڑیاں،صنعتی خام مال، سممیت دیگر اشیاء سستے ہونے کے امکانات ہیں۔ اور امیر لوگوں پر بوجھ ڈالنے کے بھی امکانات ہیں ،،بجٹ گروتھ اورئنٹڈ اور انویسٹمنٹ اورئنٹڈ ہوگا البتہ ملک میں مہنگائی نے عوام کا جینا مشکل کررکھا ہے اور مہنگائی کے ستائے ہوئے عوام کی نظریں بھی اگلے بجٹ میں ممکنہ ریلیف پر لگی ہیں۔

بجٹ میںملازمیں کی تنخواہوں میں دس سے پندرہ فیصد اضافہ متوقع ہے،معیشت کا حجم 52 ہزار57 ارب روپے تک پہنچے گا۔ وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین ہدایت کرچکے ہیں کہ نئی آٹو پالیسی صارف، مینوفیکچررز اور حکومت کیلئے مفید ہونی چاہئے  اوربجٹ میں شامل کرنے کیلئے تجاویز کو جلد حتمی شکل دی جائے لیکن سیاسی و اقتصادی ماہرین کا خیال ہے کہ اقتصادی تنزلی حقیقت میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے اپنے انتخابی منشور سے انحراف کا نتیجہ ہے۔ اگر تحریک انصاف ڈی ٹریک نہ ہوتی اور چور سپاہی کا کھیل کھیلنے میں وقت اور توانائیاں ضائع نہ کرتی تو اپنے انتخابی منشور میں اعلان کردہ دس نکاتی حکمت عملی پر پچاس فیصد سے بھی کم عملدرآمد کرکے نئی تاریخ رقم کرسکتی تھی۔

اگر موجودہ معاشی پالیسیاں برقرار رہیں تو آگے چل کر پاکستان کو پھر آئی ایم ایف سے نجاتی پیکیج کے لئے رجوع کرنا پڑے گا اس کے ساتھ ساتھ معیشت کو دستاویزی بنانا ، کالے دھن کو سفید ہونے سے روکنا، جائیدادوں کے ڈی سی ریٹ کو مارکیٹ کے نرخوں کے برابر لانا، ناجائز رقوم سے بنائے ہوئے ملک کے اندر موجود اثاثوں کو ٹیکس ایمنسٹی دینے کے بجائے ان پر مروجہ قوانین کے تحت ٹیکس وحکومتی واجبات وصول کرنا، ہر قسم کی آمدنی کو موثر طور پر ٹیکس کے دائرے میں لانا، جی ایس ٹی کی شرح کو 5فیصد کرنا،پٹرو لیم لیوی کو ختم کرنا، کھلی منڈی سے خریدی ہوئی بیرونی کرنسی کو بینکوں کے کھاتے میں جمع کرانے پر پابندی عائد کرنے۔مالیاتی و انٹلیکچوئل کرپشن پرممکنہ حد تک قابوپانا، ترسیلات کو جاری حسابات میں کمی کرنے کے لئے استعمال کرنے کے بجائے اس کے بڑے حصے کو ملک میں سرمایہ کاری کی طرف منتقل کرانے کی حکمت عملی وضع کرنا اور جی ڈی پی کے تناسب سے تعلیم کی مد میں 7فیصد اور صحت کی مد میں 4فیصد مختص کرنا لازماً شامل ہوں،ان اقدامات کے بغیر معیشت اور عام آدمی کی حالت میں بہتری اور قومی سلامتی کا تحفظ ممکن نہیں ہو گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔