’چینی قرض کا شکنجہ‘ ایک اور مغربی جھوٹ ہے، تجزیہ نگار

ویب ڈیسک  بدھ 9 جون 2021
چین کی جانب سے ترقی پذیر ممالک کےلیے بڑھتی ہوئی امداد سے بھی مغرب خوفزدہ ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

چین کی جانب سے ترقی پذیر ممالک کےلیے بڑھتی ہوئی امداد سے بھی مغرب خوفزدہ ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ہانگ کانگ: معروف صحافی اور تجزیہ نگار ڈیوڈ ڈوڈویل کا کہنا ہے کہ آج کل مغرب میں جس شدت سے چین کے بارے میں ’’قرض کے شکنجے سے سفارتکاری‘‘ کا شور مچایا جارہا ہے، وہ صرف مغربی پروپیگنڈا اور واویلا ہے۔

’’ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ‘‘ میں شائع ہونے والے اپنے تازہ مضمون میں انہوں نے جھوٹے پروپیگنڈے کی مدد سے حقائق پر اثر انداز ہونے کے مغربی طرز سیاست پر کھل کر تنقید کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ سیاست کے اوّلین اصولوں میں سے ایک یہ ہے کہ جھوٹ اتنا بولو کہ سچ دکھائی دینے لگے اور اس کے سامنے ہزار حقائق بھی چھوٹے معلوم ہونے لگیں۔

وہ لکھتے ہیں کہ جھوٹ کو کارگر بنانے کےلیے پہلے جھوٹ کو متعارف کروایا جاتا ہے، پھر اسے بار بار دہرایا جاتا ہے۔ اسے جعلی خبروں کے ذریعے اتنا پھیلایا جاتا ہے کہ اس کا انکار ہی ممکن نہیں رہتا۔ انہوں نے کہا کہ مجھےچین کے ’’قرض کے شکنجے سے سفارت کاری‘‘ کے تازہ ترین دعووں نے ایک بار پھر اسی اصول کی یاد دلا دی ہے۔

ڈیوڈ ڈوڈویل کے مطابق، چین نے ترقی پذیر دنیا کی مدد کی ہے لیکن اس حوالے سے جو تصور پیش کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ چین کا اپنی امداد پر انحصار پیدا کرنے کا مقصد ترقی پذیر ممالک کے اسٹریٹجک وسائل اور انفراسٹرکچر کا کنٹرول حاصل کرنا ہے۔

ترقی پذیر ممالک پر طاقت کے حصول کےلیے چین کی حکمت عملی سے غیر ملکی سرمایہ کاری کرنے کی پہلی داستان 2018 میں ٹرمپ کے دور میں سامنے آئی تھی۔ اس وقت کے امریکی قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن نے متنبہ کیا تھا کہ زیمبیا کی مالی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانے کےلیے چین زیمبیا کی قومی طاقت اور وسائل کو سنبھالنے کےلیے تیار ہے۔

قدامت پسند امریکی انٹرپرائز انسٹی ٹیوٹ اور ہیریٹیج فاؤنڈیشن نے نام نہاد ’’چائنا گلوبل انویسٹمنٹ ٹریکر‘‘ منصوبے کے تحت چین کے 300 منصوبو ں کی نشاندہی کی جن کے ذریعے چین نے 400 بلین امریکی ڈالر کی معاونت کے ذریعے دیگر ممالک پر ’’اثرانداز‘‘ ہونے کی کوشش کی۔

تاہم فروری میں اٹلانٹک میگزین میں پہلی بار جان ہاپکنز یونیورسٹی کے محققین ڈیبرا براٹیگم اور ہارورڈز میگ ریتھمائر کی سربراہی میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں ’’قرضوں کے شکنجے سے سفارت کاری‘‘ کے بیانیے پر سوالات اٹھائے گئے ہیں۔

مصنف نے خدشہ ظاہر کیا کہ چین کی ’’قرضوں کے شکنجے کی سفارت کاری‘‘ کا اتنا واویلہ کیا جارہا ہے کہ اب بہت سارے لوگوں کے اس یقین کو تبدیل کرنا مشکل ہوگا کہ چین دنیا کے بڑے حصوں پر کنٹرول قائم کرنے پر تلا ہوا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔