کھلاڑی کراچی والوں کو خوش نہ کرسکے

مزمل فیروزی  جمعـء 11 جون 2021
کپتان کو کراچی کے مسائل حل کرنے کےلیے اقدامات کرنا ہوں گے۔ (فوٹو: فائل)

کپتان کو کراچی کے مسائل حل کرنے کےلیے اقدامات کرنا ہوں گے۔ (فوٹو: فائل)

پاکستان تحریک انصاف شہر قائد کی سب سے بڑی جماعت کو شکست دینے کے بعد عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی 14 نشستیں جیت کر ’’بدلے گا پاکستان، بنے گا نیا پاکستان‘‘ کا نعرہ لگاکر کراچی کی سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آئی تھی۔

کراچی سے اتنی بڑی تعداد میں نشستیں جیتنا ایک حیران کن امر تھا، جس کی سب سے بڑی وجہ موجودہ ایم کیو ایم میں قیادت سنبھالنے کی رسہ کشی تھی۔ مگر اتنا بہترین موقع ملنے کے باوجود بھی تحریک انصاف اس خلا کو پُر کرنے میں کامیاب نہ ہوسکی اور پونے تین سال کی ناقص کارکردگی اور اندرونی اختلافات کی وجہ سے کراچی میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں اپنی ہی جیتی ہوئی نشست برقرار نہ رکھ سکی۔ اگر عمران خان، عارف علوی، عمران اسماعیل کی نشستوں پر اب انتخابات ہوتے تو حالیہ کارکردگی کو دیکھتے ہوئے یہ نشستیں جیتنا بھی مشکل ہوجاتا، جس کی تازہ مثال این اے 249 میں تحریک انصاف کی شکست ہے۔

سابقہ حکمرانوں کے دور اقتدار کی طرح 69 فیصد ریونیو دینے والے شہر قائد کا کوئی پرسان حال نہیں۔ وفاق اور صوبے کی لڑائی کی وجہ سے آج بھی بجلی کی بندش، پانی کا بحران، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، کچرے کے ڈھیر اور لاقانونیت کا سامنا ہے۔ سونے پہ سہاگہ کراچی کے نوجوانوں کو سرکاری ملازمتوں تک سے محروم کردیا گیا اور وفاق سے جاری ہونے والی آسامیوں میں بھی کراچی والوں کا نمبر نہیں آتا۔ جبکہ دوسری طرف بے گھر افراد کو چھت دینے کا آسرا دے کر آنے والی جماعت نے تجاوازات کے نام پر بڑی تعداد میں کراچی والوں کو بے گھر کردیا۔ ہمیں تجاوزات کے خلاف آپریشن پر کوئی اختلاف نہیں، مگر اچانک بے دخل کرنے اور کوئی نعم البدل فراہم نہ کرنے پر تحفظات ہیں۔ جہاں سے حکومت خود کرایہ وصول کرتی تھی یا سرکاری محکموں نے رشوت لے کر لیز یا این اوسی جاری کی تھی، ان محکموں کے خلاف کیا کارروائی عمل میں آئی؟ یہ دیکھنے اور سننے میں نہیں آیا۔

یہی وجہ ہے کہ حکمراں جماعت کے اتحادی اور کراچی والے تحریک انصاف اور ان کے اراکین اسمبلی سے نالاں نظر آتے ہیں۔

تقریباً تین سال اقتدار کا مزہ لینے والے اراکین اسمبلی نے اب تک کراچی والوں کےلیے کیا کیا؟ اس کا اندازہ ہر ذی شعور انسان کو بخوبی ہے کہ عام آدمی کے ریلیف کےلیے کچھ نہیں کیا گیا۔ صرف نعروں، وعدوں اور کاسمیٹک ورک سے دل بہلایا جارہا ہے۔ نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم کا آغاز بھی شہر اقتدار سے کیا گیا، جب کہ اسلام آباد شہر میں غربت کی شرح فیصد سب سے کم ہے۔ مگر پھر بھی وہاں پر ایک ہزار فلیٹس اور پانچ سو مکانات تعمیر کروائے گئے، جو سالانہ پانچ لاکھ سے کم کمانے والے افراد کو قرعہ اندازی کے ذریعے دیے جائیں گے۔

کیا ہی اچھا ہوتا اگر کراچی سے جیتنے والے وزیراعظم ہاؤسنگ اسکیم کا آغاز کراچی سے کرتے۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ کیونکہ یہاں سے جیتنے والے اراکین اسمبلی نے کراچی کا مقدمہ اس طرح سے پیش ہی نہیں کیا جس طرح سے کرنا چاہیے تھا۔ یہاں سے جیتنے والے عہدوں کی میوزیکل چیئر میں مصروف تھے۔ کوئی صدر بن گیا تو کوئی گورنر، کسی کو وزارت لینی تھی تو کسی نے سینیٹر شپ۔ بس سب اسی میں لگے رہے اور کراچی نظرانداز ہوتا رہا۔ دو سال گزر جانے کے بعد کراچی سے جیتنے والوں کو یاد آیا کہ ہمیں دوبارہ بھی الیکشن میں جانا ہے تو کپتان پر اسد عمر اور علی زیدی کی طرف سے کراچی کے اراکین اسمبلی کو ترقیاتی فنڈ جاری کرنے کا پریشر ڈالا جانے لگا۔ اور پھر وہی وزیراعظم جو ماضی میں اراکین اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز دینے کی مخالفت کیا کرتے تھے انہوں نے ہر رکن اسمبلی کو تقریباً پچاس کروڑ کے ترقیاتی فنڈز کا اعلان کیا ہے۔

کراچی کے ارکان کےلیے پہلی بار مارچ 2020 میں تین ارب چالیس کروڑ کے فنڈز جاری کیے گئے، جبکہ دوسری بار جنوری 2021 کے آخری دنوں میں فنڈز جاری کیے گئے، جو کہ مجموعی طور پر چھ ارب اسی کروڑ روپے بنتے ہیں۔ تحریک انصاف کراچی کے صدر اور رکن صوبائی اسمبلی خرم شیرزمان کے مطابق کراچی کے ہر رکن اسمبلی تقریباً پینتیس کروڑ کے ترقیاتی فنڈز کے کام کروا سکتے ہیں۔ جبکہ ان کا کہنا تھا کہ یہ رقم کسی بھی رکن کے اکاؤنٹ میں نہیں گئی۔ گوکہ وہ اتنی رقم کے اپنے حلقے میں ترقیاتی کام کروا سکتے ہیں اور یہ تمام کام پاکستان پبلک ورکس ڈپارٹمنٹ کے تحت کروائے جارہے ہیں۔

اگر پاکستان پبلک ورکس ڈپارٹمنٹ کی بات کی جائے تو اس محکمے نے بھی ساٹھ سے ستر فیصد ٹھیکے غیر مقامی ٹھیکیداروں کو دیے، جس کی وجہ سے کراچی کنٹریکٹر ایسوسی ایشن نے وزیراعظم کو خط بھی لکھا۔ جبکہ دوسری طرف کراچی میں ہونے والے ترقیاتی کاموں میں ناقص میٹریل کا استعمال اور کام ادھورا رہ جانے والے علاقے سوشل میڈیا پر چرچے میں ہیں۔ کراچی کے رہائشی اپنے اپنے علاقوں کے نئے کارپٹیڈ روڈ کے ٹوٹنے اور گٹر لائن ڈالنے کے بعد روڈ دوبارہ نہ بنانے اور کام ادھورا رہ جانے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل کررہے ہیں۔
حال ہی میں عامر لیاقت حسین کے حلقے این اے 245 جہانگیر روڈ 2 نمبر کی ویڈیو نظر سے گزری، جس میں سوشل میڈیا صارف کے مطابق یہ سڑک ڈھائی ماہ پہلے ہی مرمت کی گئی تھی اور اب جگہ جگہ سے روڈ اکھڑ گیا ہے۔ اسی طرح گٹر بنانے کے ایک ماہ گزر جانے کے باوجود ان پر ڈھکن نہیں لگائے گئے تھے۔ فہیم خان کے حلقے این اے 241 کے عوام شکایت کرتے نظر آئے کہ قیوم آباد میں چار سیکٹرز کی 95 گلیاں ہیں، جبکہ بلاکس روڈ صرف پانچ گلیوں میں ڈلوایا گیا ہے۔ قیوم آباد کے رہائشیوں کے مطابق قیوم آباد میں کچرے اور سیوریج کا نظام ویسے کا ویسا ہی ہے۔ عوام پانی کےلیے پہلے کی طرح ہی پریشان ہیں۔ حالانکہ الیکشن سے پہلے عارف علوی قیوم آباد کے لوگوں سے وعدہ کرکے گئے تھے کہ پانی کا مسئلہ حل کیا جائے گا، مگر قیوم آباد کے رہائشی انتظار ہی کرتے رہے گئے۔ جبکہ دوسری طرف ٹینکرز مافیا قیوم آباد پر قابض ہے اور قبرستان کی جگہ پر ڈیفنس اتھارٹی والوں نے قبضہ جمایا ہوا ہے، مگر ایم این اے اور ایم پی اے ان کے خلاف کچھ نہیں کرسکے۔

دوسری طرف کچھ اراکین پارلیمنٹ اور مقامی رہنماؤں کو کراچی ٹرانسفارمیشن پلان کی تاخیر پر تحفظات ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر اس گیارہ کھرب تیرہ ارب کے منصوبے پر کام شروع ہوجاتا تو کراچی کے عوام ہمیں دوبارہ منتخب کرتے، مگر ابھی ہم نے کچھ ایسا خاص کام نہیں کیا جس کی بنیاد پر ہم آنے والے الیکشن میں اپنے علاقے کے عوام کا سامنا کرسکیں۔ تفصیلات کے مطابق کراچی ٹرانسفارمیشن پلان کا آخری اجلاس فروری 2021 میں ہوا تھا۔ کراچی ٹرانسفارمیشن پلان کا مقصد پانچ اہم شعبوں پر کام کرنا تھا۔ اگر واقعی تحریک انصاف کراچی والوں کےلیے کچھ کرنا چاہتی ہے تو سب سے پہلے واٹر سپلائی کے منصوبے کےلیے فنڈز کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ کراچی سرکلر ریلوے اور گرین لائن منصوبے کو فوری مکمل کیا جائے۔ بے گھر افراد کی بحالی کےلیے جو منصوبہ شروع کرنا تھا، اس کےلیے سندھ حکومت نے اراضی دینا تھی، اس پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ کم از کم جگہ کا تعین کرنے کےلیے سندھ حکومت پر زور دیا جائے۔

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ شہر قائد کا انفرااسٹرکچر بہتر بنانے اور عوام کو سہولیات فراہم کرنے کےلیے صوبائی مالیاتی کمیشن ختم کرکے ضلعی مالیاتی کمیشن کا قیام عمل میں لایا جائے۔ جس کےلیے بلدیاتی الیکشن کرانا انتہائی ضروری ہے۔

تحریک انصاف وہ جماعت ہے جو سب سے زیادہ بلدیاتی الیکشن کی حامی تھی، مگر تین سال ہونے والے ہیں ابھی تک پنجاب اور کے پی کے میں بھی بلدیاتی الیکشن نہیں کرواسکی۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی سندھ میں بلدیاتی الیکشن کی بات کرتے ہیں تو پیپلزپارٹی دوسروں صوبوں میں بلدیاتی الیکشن کروانے کی بات کرتی ہے۔ تحریک انصاف جو بھی کام کروا رہی ہے وہ صرف اپنی بقا کےلیے ہے۔ مگر یہ کاسمیٹک ورک عوام کا دل نہیں جیت سکتے۔ اس کےلیے تحریک انصاف کو دیرپا حل دینا ہوگا۔ جیسے پانی کے بحران کا مسئلہ۔ ’’کے فور‘‘ جو کافی عرصے سے التوا کا شکار ہے، اگر کراچی کے اراکین پارلیمنٹ ایک آواز ہوکر اس کو مکمل کروا دیں تو یہ کراچی والوں کےلیے بہترین کام ہوگا۔ دوسرا بڑا مسئلہ بجلی کی بندش کا ہے۔ اگر یہ لوگ کسی طرح K الیکٹرک کی اجارہ داری ختم کردیں اور مزید کمپنیاں متعارف کروا دیں تو یقیناً یہ کراچی والوں پر احسان ہوگا۔ تیسرا اہم مسئلہ سیوریج نظام اور نکاسی آب کے نظام کو بہتر بنانا ہے۔ جس کو حل کیے بغیر روڈ بنانا سراسر فنڈز کا ضیاع ہے۔ کسی بھی علاقے میں روڈ یا کارپیٹنگ کروانے سے پہلے اس علاقے کے سیوریج نظام اور نکاسی آب کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ مگر تحریک انصاف کے اراکین کی ساری توجہ روڈ کارپیٹنگ پر ہے، جو ہلکی سی بارش بھی برداشت نہیں کرسکے گا۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ جس مستعدی سے کپتان نے کووڈ 19 کے بحران کا سامنا کیا، ایسے ہی کراچی کے مسائل کو حل کرنے کےلیے اقدامات کرنا ہوں گے۔ اگر تحریک انصاف ان دو سال میں کراچی کے لوگوں کو ریلیف دینے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو اسی میں تحریک انصاف کی بقا ہے۔ ورنہ کراچی میں تحریک انصاف کی گرتی ہوئی مقبولیت کو دیکھ کر نہیں لگتا کہ آنے والے الیکشن میں تحریک انصاف اپنی ہی پرانی نشستیں برقرار رکھ پائے گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

مزمل فیروزی

مزمل فیروزی

بلاگر انگریزی میں ایم اے کرنے کے بعد ایک مقامی روزنامہ میں بطور صحافی اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ آپ ٹوئٹر پر ان سے @maferozi پر رابطہ کرسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔