- غزہ کی اجتماعی قبروں میں فلسطینیوں کو زندہ دفن کرنے کا انکشاف
- اسمگلنگ کا قلع قمع کرکے خطے کو امن کا گہوارہ بنائیں گے ، شہباز شریف
- پاکستان میں دراندازی کیلیے طالبان نے مکمل مدد فراہم کی، گرفتار افغان دہشتگرد کا انکشاف
- سعودی دارالحکومت ریاض میں پہلا شراب خانہ کھول دیا گیا
- موٹر وے پولیس اہل کار کو ٹکر مارنے والی خاتون جوڈیشل ریمانڈ پر جیل روانہ
- کراچی میں رینجرز ہیڈ کوارٹرز سمیت تمام عمارتوں کے باہر سے رکاوٹیں ہٹانے کا حکم
- اوگرا کی تیل کی قیمتیں ڈی ریگولیٹ کرنے کی تردید
- منہدم نسلہ ٹاور کے پلاٹ کو نیلام کر کے متاثرہ رہائشیوں کو پیسے دینے کا حکم
- مہنگائی کے باعث لوگ اپنے بچوں کو فروخت کرنے پر مجبور ہیں، پشاور ہائیکورٹ
- کیا عماد، عامر اور فخر کو آج موقع ملے گا؟
- سونے کی قیمتوں میں معمولی اضافہ
- عمران خان، بشریٰ بی بی کو ریاستی اداروں کیخلاف بیان بازی سے روک دیا گیا
- ویمنز ٹیم کی سابق کپتان بسمہ معروف نے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا
- امریکی یونیورسٹیز میں ہونے والے مظاہروں پر اسرائیلی وزیراعظم کی چیخیں نکل گئیں
- پولیس یونیفارم پہننے پر مریم نواز کیخلاف کارروائی ہونی چاہیے، یاسمین راشد
- قصور ویڈیو اسکینڈل میں سزا پانے والے 2 ملزمان بری کردیے گئے
- سپریم کورٹ نے اسپیکر بلوچستان اسمبلی عبدالخالق اچکزئی کو بحال کر دیا
- مرغی کی قیمت میں کمی کیلیے اقدامات کر رہے ہیں، وزیر خوراک پنجاب
- عوام کو کچھ نہیں مل رہا، سارا پیسہ سرکاری تنخواہوں میں دیتے رہیں گے؟ چیف جسٹس
- وزیراعلیٰ بننے کیلئے خود کو ثابت کرنا پڑا، آگ کے دریا سے گزر کر پہنچی ہوں، مریم نواز
بچوں میں موٹاپے کی ایک اور وجہ... اسمارٹ فون
سیئول: جنوبی کوریا کے ماہرین کا کہنا ہے کہ جو بچے روزانہ تین گھنٹے یا اس سے زیادہ دیر تک اسمارٹ فون استعمال کرتے ہیں ان میں وزن بڑھنے اور موٹاپے کا امکان بھی زیادہ ہوتا ہے۔
اس تحقیق کے لیے جنوبی کوریا میں نوبالغ (10 سے 18 سال عمر والے) بچوں سے متعلق ایک جامع سروے سے استفادہ کیا گیا جس میں پورے جنوبی کوریا کے 53 ہزار سے زیادہ بچے شریک تھے۔
مذکورہ سروے میں نوبالغ بچوں کی مختلف عادات اور صحت کے بارے میں معلومات جمع کی گئی تھیں۔
ان معلومات کا تجزیہ کرنے پر معلوم ہوا کہ روزانہ دو گھنٹے سے زیادہ اسمارٹ فون استعمال کرنے والے بچوں میں پھلوں اور سبزیوں کی جگہ فاسٹ فوڈ کھانے کا رجحان زیادہ تھا۔
یہی نہیں بلکہ جو بچے روزانہ تین گھنٹے یا اس سے بھی زیادہ اسمارٹ فون میں مگن رہتے تھے، ان کا وزن بھی ایسے بچوں کے مقابلے میں واضح طور پر زیادہ تھا جو روزانہ کم وقت کےلیے فون استعمال کرتے ہیں۔
’’مجھے ان نتائج سے بالکل بھی حیرت نہیں ہوئی،‘‘ ڈاکٹر ریکھا کمار نے کہا، جو امریکن بورڈ آف اوبیسیٹی میڈیسن کی میڈیکل ڈائریکٹر ہیں۔ ’’اسمارٹ فون اسکرین کے سامنے، ایک ہی جگہ بیٹھے رہنے کی وجہ سے بچے کھیل کود اور دوسری جسمانی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے پاتے (جو انہیں موٹاپے سے بچانے میں مددگار ہوتی ہیں)،‘‘ ڈاکٹر ریکھا نے وضاحت کی۔
جنوبی کوریائی مطالعے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جو بچے روزانہ کم از کم پانچ گھنٹے اسمارٹ فون استعمال کرتے ہیں ان میں سافٹ ڈرنکس سمیت، شکر سے بھرپور مشروبات، تلے ہوئے چپس اور انسنٹ نوڈلز جیسی چیزیں کھانے اور پینے کا رجحان بہت زیادہ تھا۔
البتہ جو بچے معلومات حاصل کرنے کےلیے اسمارٹ فون استعمال کررہے تھے، ان میں کھانے پینے کی عادات بھی صحت بخش تھیں۔
ان کے برعکس اسمارٹ فون پر گھنٹوں چیٹنگ اور میسیجنگ کرنے، گیمز کھیلنے، ویڈیوز دیکھنے، گانے سننے یا پھر سوشل میڈیا پر مٹرگشتی کرنے والے بچوں میں اس دوران اُلٹی سیدھی چیزیں کھانے کا رجحان بھی زیادہ دیکھا گیا۔
اسمارٹ فون استعمال کرتے دوران اکثر بچوں کی پوری توجہ فون کی اسکرین پر ہوتی ہے لہذا وہ جب کھانا شروع کرتے ہیں تو بے دھیانی میں کھاتے ہی چلے جاتے ہیں؛ اور معمول سے بہت زیادہ کھا جاتے ہیں جس کا اثر ان کی مجموعی صحت پر پڑتا ہے اور ان میں موٹاپے کا امکان بھی بڑھ جاتا ہے۔
جنوبی کوریائی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں وہ ادارے بھی قصور وار ہیں جو بچوں کےلیے کھانے پینے کی غیر صحت بخش مصنوعات فروخت کرنے کےلیے بھرپور مارکیٹنگ کرتے ہیں۔
یہ اشتہارات سوشل میڈیا پر بھی خوب چلائے جاتے ہیں جنہیں دیکھ کر بچوں میں ان چیزوں کو کھانے کا شوق پیدا ہوتا ہے اور اکثر وہ اپنے والدین سے ضد کرکے یہ چیزیں منگوا بھی لیتے ہیں۔
یہ تحقیق ہمیں یاد دلاتی ہے کہ کوئی بھی ایجاد تب تک مفید رہتی ہے کہ جب تک اسے اعتدال میں رہتے ہوئے، توازن کے ساتھ استعمال کیا جائے۔ بصورتِ دیگر وہ ہماری جسمانی اور ذہنی صحت کو شدید متاثر بھی کرسکتی ہے۔
نوٹ: یہ تحقیق امریکن سوسائٹی فار نیوٹریشن کی آن لائن کانفرنس ’’نیوٹریشن لائیو آن لائن 2021‘‘ میں پیش کی گئی۔ یہ کانفرنس 7 سے 10 جون تک جاری رہی۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔