یادوں کا اسٹور روم …

شیریں حیدر  جمعـء 11 جون 2021
 Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

چند دن قبل ایک آرکیٹیکٹ سے بات ہو رہی تھی تو باتوں باتوں میں وہ ہمارے ہاں کے عام گھروں کے بارے میں بتاتے ہوئے کہنے لگے، ’’ جو چیز ہمارے ہاں کے گھروں میں بہت پائی جاتی ہے اور باہر کے ممالک میں ناپید یا کم کم ہوتی ہے، وہ گھروں میں اسٹور روم کا ہونا ہے… اسٹور روم گھر کا وہ کمرہ ہے، جس میں وہ چیزیں رکھی جاتی ہیں جن کی برس ہا برس اور بسا اوقات عمر بھر ضرورت نہیں پڑتی، اگر کسی چیز کی ضرورت پڑ جائے تو وہ ملتی نہیں ! ‘‘

یہ بات اتنی درست محسوس ہوئی کہ مجھے لگا آپ سب بھی اس سے اتفاق کریں گے۔ آج سے نہیں، ہمیشہ سے… شہروں اور دیہات میں، ہر گھر میں ایک ایسا کمرہ ضرور ہوتا ہے، اس کمرے میں گھر کی ہر وہ چیز رکھی جاتی ہے جس کا کوئی اور ٹھکانہ نہ ہو۔

کبھی کبھار ہم کچھ چیزیں عارضی طور پر بھی وہاں رکھ دیتے ہیں کہ دو ایک دن میں وہاں سے اٹھا لیں گے مگر وہ دو ایک دن بھی سالوں پر محیط ہو جاتے ہیں۔ اس کمرے میں صرف میں یا آپ ہی اس نوعیت کی چیزیں نہیں رکھتے بلکہ گھر کا ہر فرد اور ملازمین بھی اس کام میں شریک ہوتے ہیں، گھر کا بے کار ترین کمرہ جس میں کئی کارآمد چیزیں ، دوسری چیزوں کے نیچے اس لیے بھی دب جاتی ہیں کہ اس کمرے کو ترتیب دینے والا کوئی نہیں ہوتا، بے ترتیبی سے رکھ دیتے ہیں۔

آپ کی رکھی ہوئی چیز، دوسروں کی مہربانی سے اتنی گہری تہوں میں دب جاتی ہے کہ جب آپ اسے لینے جاتے ہیں تو کمرے میں کئی اور چیزوں کا انبار دیکھ کر ہی ہانپ جاتے ہیں اور گبھرا کر دروازہ بند کر دیتے ہیں۔ ’’ بہتر ہے کہ اس کے بغیر گزارہ کر لیا جائے یا کہیں سے اور لے آئیں! ‘‘ ہم دل ہی دل میں کہتے ہیںکیونکہ اس کوہ اشیاء سے اسے دریافت کرنا قریب از ناممکن ہوتا ہے۔

عمر بھر تبادلوں والی ملازمت تھی صاحب کی، ایک جگہ ٹھکانہ سیٹ کرتے تو کوچ کا اذن مل جاتا، اس قیام و کوچ کے عمل نے کچھ منظم ہونا سکھا دیا ۔ پہلے پہل قیمتی اشیاء، گھر کا بڑا بجلی کا سامان مثلا ٹیلی وژن، فرج اور ائیر کنڈیشنرز اور کچن کے استعمال کی مشینری، اپنی گتے والی پیکنگ میں منتقل کی جاتیں، دو تین دفعہ کے بعد وہ ڈبے ناکارہ ہو گئے تو لوہے کے بکس بنوا لیے گئے جن کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا گیا۔ بستروں کے لیے لوہے کی بڑی پیٹیاں جو کہ ہر گھر میں عام ہیں ۔

ہر بکسے میں سامان رکھتے وقت ساتھ ساتھ اس کی رف لسٹ بنتی، اس بکسے کو تالا لگاتے وقت اس لسٹ کی دو فوٹو کاپیاں، ایک بکسے کے اندر رکھی جاتی اور دوسری بکسے کے باہرچپکائی جاتی تا کہ ہر کسی کو علم ہو کہ اس بکسے کے اندر کیا سامان ہے ۔ بچوں کو ان کے سامان کے لیے ایک ایک بکس دے دیا جاتا جس میں وہ اپنی کتابیں اور کھلونے وغیرہ رکھ لیتے اور کپڑوں کے لیے علیحدہ سوٹ کیس ہوتے تھے ۔

عمر عزیز کی لگ بھگ اٹھائیس بہاریں اور خزائیں یونہی خانہ بدوشوں کی طرح گزریں اور پھر ریٹائر ہوئے تو ایک ٹھکانے پر یہ سامان سیٹ ہوا، اس گھر میں گھر کے باقی کمروں کی طرح اسٹور بھی تھا اور خاصا بڑا کہ اب اسٹور کو پیٹ بھرنے کا بہت کچھ تھا۔ بہت سا سامان تو ایسا ہوتا ہے کہ جس کا ہمیں علم ہوتا ہے کہ شاید کبھی استعمال نہ ہو مگر اس سے ہماری کوئی نہ کوئی جذباتی وابستگی ہوتی ہے۔ وہ سامان بھی ہم ضروری سامان کے ساتھ رکھ لیتے ہیں۔ جب گھر میں فالتو سامان کے لیے ایک کمرہ ہے تو پھر اس سامان کو پھینکنے کی مجبوری کیا ہے ۔

میری والدہ کا چرخہ… ساس امی کے جہیز کے پلنگ کی ٹیک، جس میں شیشے جڑے ہوئے ہیں، میرے بچوں کی وہ کاٹ جس میں وہ سب باری باری تین چار سال کی عمر تک سوئے ہیں، اسٹیل کے پائپ کی یہ کاٹ میرے والد صاحب رحمتہ اللہ کراچی سے لائے تھے، اس وقت یہ بہت ماڈرن چیز تھی۔ بڑی بیٹی کی گڑیاں اور چوڑیاں … بیٹے کی وہ سائیکل جس پر سے وہ گرا تھا اور اس کی کندھے کی ہڈی فیکچر ہو گئی تھی، چھوٹی بیٹی کی ڈینٹسٹری کی تعلیم کے دوران کے وہ لوگوں کے پلاسٹر آف پیرس کے بنے ہوئے جبڑے جو اس کے سیکھنے کے لیے تھے۔

میرے قلمی کارناموں کے مسودے اور وہ اخبار اور رسالے جن میں وہ تحریریں چھپیں ۔ لندن کے تین سال سے زائد کے عرصے کی یادوں کے درجنوں البمز… فون میں کیمرے تو اب چند سالوں سے آئے ہیں، اس سے قبل کی ساری تصاویر، بڑی بڑی البموں میں پیسٹ کی ہوئی… اب تو ان کے رنگ بھی ماند پڑ چکے ہیں مگر ان سے منسلک وہ میٹھی میٹھی یادیں ایک خزانے کی مانند اس اسٹور میں ہیں۔

آپ کے گھر میں اگر کوئی اسٹور ہے، خواہ وہ ایک بڑاسا اسٹور ہے، درمیانہ سائز کا، چھوٹا یا حتی کہ ایک الماری نما سائز کا یا ایک کچا سا چھپر… اس اسٹور کو آپ کسی دن کھول لیں، آپ اس کا ایک کونہ بھی کھنگال لیں تو گھنٹوں گزر جائیں گے۔ آپ کو وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہو گا، آپ کو علم ہی نہیں ہو گا کہ دن چڑھا کب اور ڈوباکب۔ آپ سوچتے ہیں کہ سرسری سا جائزہ لے لیں، بعد میں کسی وقت آپ تفصیل سے دیکھ لیں گے مگر اسٹور اور اس کا سرسری جائزہ… دیوانے کا خواب ہوتا ہے ۔ جس دن آپ اسٹور کھول لیں اس دن آپ کسی اور چیز جوگے نہیں رہتے ۔ اس لیے اس کمرے کو پلان کر کے کھولیں، اس وقت اور اس دن ، جس دن آپ کے ایجنڈے میں فرصت ہی فرصت ہو، نہ کوئی اور کام ہو، نہ کہیں جانا ہو، نہ کسی نے آنا ہو ۔

اسٹور کی ایک ایک چیز آپ کا ہاتھ پکڑ لیتی ہے، توجہ مانگتی ہے … خود کو نظر انداز نہیں ہونے دیتی، آپ کو اپنے ساتھ ایک انوکھے سفر پر لے جاتی ہے، آپ کو یادوں کے سمندرمیں اتار دیتی ہے، اس سمندر میں کتنے ہی مد وجذر ہیں ، ناؤ چلتی ہیں، سیپیاں ہیں، موتی اور گھونگے۔ کچھ چیزیں آپ کے دماغ کو آلودہ کر دیتی ہیں کہ ان سے منسلک یادیں خوشگوار نہیں، کچھ آپ کو تازگی بخشتی ہیں کہ ان سے آپ کے دل کا قرار جڑا ہے۔ یہ اسٹور کسی اور کے لیے کچھ اہمیت رکھتا ہو یا نہیں… آپ کے لیے خزانے کا انبار ہے ۔

آپ ارادہ کرتے ہیں کہ آج آپ چھانٹی کریں گے، اس اسٹور میں سے بہت سا سامان نکال باہر کریں گے، اسے ہلکا کر دیں گے کہ صرف یہاں ضروری اشیاء رہ جائیں گی۔ نظر دوڑاتے ہیں کہ کس ترتیب سے سامان کو چیک کرنا ہے، فرنیچر کے ڈھیر ہیں، اس میں زیادہ تر وہی فرنیچر ہے جسے دوبارہ گھر کے کسی کمرے میں نہیں سجنا۔ پھر بستراور برتن، یہ بھی زائد سامان ہے ، گھر میں استعمال کے بستر اور برتن اس کے علاوہ ہیں۔ پھر کھیل کا سامان رکھا ہے، یہ کھیل اب کوئی نہیں کھیلتا مگر کیا معلوم… کبھی ان بچوں کو احساس ہو جائے کہ موبائل فون کے ساتھ مصروف رہنے کے علاوہ بھی کوئی کھیل ہوتے ہیں۔ پھر کپڑا لتا اور پھر جوتے ہیں جو ہم نے خود آؤٹ ڈیٹڈ کردیے ہوتے ہیں مگر ہم سوچتے ہیں کہ شاید ہمارے بچوں کے جوان ہونے پر وہی فیشن لوٹ آئیں ۔ پھر کتابیںہیں، جنھیں اب کوئی پڑھتا نہیں۔

پھر البم ہیں جن کی ہمارے سوا کسی اور کو قدر نہیں۔ پھر کھلونے ہیں جن سے ہمارے بچے سالوں پہلے کھیل چکے، اب ان کے بچے  کھیلیں گے… اس اسٹور میں کام شروع کرنے کے لیے آپ کا سر گھوم جاتا ہے کہ سب سے پہلے کیا کریں ۔ سب سے پہلے تو آپ جگہ بنائیں اس کمرے میں کھڑے ہونے اور بیٹھنے کی کہ جہاں تل دھرنے کو جگہ نہیں ہوتی۔ گرد اور مٹی کی تہیں ہوتی ہیں کہ انھیں ہٹائے بغیر آپ کسی کتاب کا عنوان تک نہیں پڑھ سکتے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔