بُک شیلف

بشیر واثق / غلام محی الدین  اتوار 13 جون 2021
جانیے دلچسپ کتابوں کے احوال۔ فوٹو : فائل

جانیے دلچسپ کتابوں کے احوال۔ فوٹو : فائل

ماورائے خیروشر
مصنف : فریڈرک نطشے، قیمت:1100روپے، صفحات:280
ناشر: بک ہوم، مزنگ روڈ، لاہور (03014568820)

فلسفہ کی بنیاد عقل و دانش پر رکھی گئی ہے، یہ ناصرف الجھی ہوئی گھتیوں کو سلجھاتا ہے بلکہ اس سے دانش کے نئے در وا ہوتے ہیں ۔ فلسفے کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں ہر چیز کو دلیل سے ثابت کیا جاتا ہے یعنی کوئی بات بے سرو پا نہیں ہوتی تاہم یہ ضروری ہے کہ سمجھنے کیلئے کوئی صاحب دانش موجود ہو ورنہ کم تر ذہانت والوں کو چونکہ اس کی سمجھ نہیں آتی تو وہ اسے بے معنی قرار دے دیتے ہیں۔

اسی لئے فلسفہ کا رخ وہی لوگ کرتے ہیں جو اس درجے کی ذہانت رکھتے ہیں۔ فریڈرک نطشے کا شمار دنیا کے عظیم فلسفہ دانوں میں ہوتا ہے، انھوں نے اپنی تحریروں سے علم کے جویا افراد کو بہت جلد اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ جیسے وہ ساتویں باب ’’ہماری صلاحیتیں‘‘میں لکھتے ہیں ’’ جیسا کہ ستاروں کی دنیا میں بعض اوقات ایک سیارہ کے مدار کا تعین دو سورج کرتے ہیں جس طرح بعض مختلف رنگوں کے سورج ، ایک واحد سیارہ کے قریب چمکتے ہیں۔

بعض اوقات سرخ روشنی ، بعض اوقات سبز روشنی اور پھر بعض اوقات وہ سیارے کے قریب بیک وقت چمکتے ہیں اوراسے رنگوں سے بھر دیتے ہیں ۔۔۔ اس لئے ہم جدید افراد اپنے ’’ستاروں سے بھرے آسمان ‘‘ کے پیچیدہ میکانیات کی مہربانی سے پرعزم ہیں، مزید برآں، مختلف قسم کے اخلاقی ضابطوں کے ذریعے ہمارے افعال مختلف رنگوں میں باری باری چمکتے ہیں۔

وہ کبھی بیک وقت نہیں چمکتے ۔۔۔ اور یہ ایسے معاملات ہیں جن میں ہم بہت سے رنگوں کی سرگرمیاں انجام دیتے ہیں۔‘‘ موضوعات کے اعتبار سے کتاب کو نو ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے، جرمن زبان سے انگریزی میں ترجمہ والٹر کوفمین نے جبکہ اردو میں ترجمہ ریاض محمود انجم نے کیا ہے، ترجمہ آسان اور رواں زبان میں کیا گیا ہے ۔ مجلد کتاب کو نطشے کے عکس کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔

میرا عشق ہے پاکستان
مصنف:اکمل شاہد کنگ، قیمت:1450روپے، صفحات:176
ناشر: قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل، یثرت کالونی، والٹن روڈ، لاہور کینٹ (030005105101)

اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر پاکستانی اپنے وطن سے پیار کرتا ہے مگر بہت سے ایسے بھی ہیں جن کا اوڑھنا بچھونا ہی پاکستان سے عشق کرنا ہے ، اکمل شاہد کنگ کا شمار بھی ایسے ہی افراد میں ہوتا ہے، ان کی ہر بات سے پاکستان سے محبت ٹپکتی ہے اور ایسا کیوں نہ ہو، پاکستان ہمارے لئے اللہ کا خاص انعام ہے جس پر ہمیں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہونا چاہیے۔

ذرا سوچیے کہ اگر یہ ملک نہ ہوتا تو آج ہم ہندو کی غلامی کرنے پر مجبور ہوتے اور ہندوستان میں مسلمانوں کا حال کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کہتے ہیں ’’ میرا عشق پاکستان، سادگی سے لکھی گئی پاکستان کی یہ ایک ایسی کہانی ہے جوگزرے برسوں کی سکہ بند تاریخ بن گئی ہے ، کتاب میں جاذبیت ہے، شگفتگی ہے، سلیقے سے لکھی گئی روداد ہے، لفظوں کی بنت میں شائستگی ہے، کتاب کا مطالعہ علم میں اضافہ کرتا ہے، یہی مصنف کی کامیابی ہے۔

کالم نگاروں کے ہجوم میں جناب اکمل کنگ صاحب کی منفرد شناخت ہے، وہ سچے اور کھرے پاکستانی ہیں۔‘‘ ممتاز صحافی و ادیب محمود شام کہتے ہیں ’’ ایسے کالم نگار معدودے چند ہوتے ہیں جو اپنے وطن اور ہم وطنوں کے لئے لکھتے ہیں ، وطن کو درپیش خطرات سے آگاہ کرتے ہیں اور اپنے ہم وطنوں کی مشکلات اور مسائل کو موضوع سخن ٹھہراتے ہیں۔ اکمل شاہد کنگ ان عوام دوست کالم نگاروں میں سے ہی ہیں ۔ ‘‘ کتاب میں چالیس سے زائد کالم شامل کئے گئے ہیں ، ہر کالم سے پاکستان سے عشق کی جھلک نمایاں ہے۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔

پنجرے کے پنچھی
مصنف: رحمان مذنب، قیمت : 500 روپے، صفحات :240
ناشر: ٹی اینڈ ٹی پبلشرز، بینک کالونی، لاہور(03004191687)

مشاہدہ کی صلاحیت اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے کیونکہ یہ طاقت جسے حاصل ہوتی ہے وہ دوسروں کی نسبت بہت گہرائی اور باریک بینی سے جائزہ لیتا ہے، اگر ایسا فرد ادیب ہو تو وہ بال کی کھال اتار کر دیتا ہے اس کی تحریر میں معمولی معمولی جزئیات بھی اتنی باریک بینی سے بیان کی گئی ہوتی ہیں کہ یوں لگتا ہے یہی اس تحریر میں سب سے اہم ہیں اور پھر وہ اپنی محسوسات کی طاقت سے جب ان جزئیات کو کسی بہت اہم عنوان سے جوڑتا ہے تو قاری مسحور ہو رہ کر جاتا ہے۔

رحمان مذنب بھی اپنے قاری کو ایسے ہی  مسحور کر کے رکھ دیتے ہیں، اور پھر ان کے لہجے کی کاٹ بالکل نشتر کی کام کرتی ہے، گندگی سے بھرے اور پھولے ہوئے پھوڑے کو چیر کر رکھ دیتی ہے، پڑھنے والے کو شدید کراہت کا احساس ہوتا ہے اور یہی مصنف کا مقصد ہے کہ وہ اس کراہت کو محسوس کرے جسے وہ نظر انداز کئے ہوئے ہے۔ مصنف کا یہ کمال انھیں ادب کی بلندیوں پر لے جاتا ہے جیسے وہ اپنے افسانے ’’ لال چوبارہ ‘‘ میں لکھتے ہیں ’’ چوبارے کی جڑ میں نالی بہہ رہی تھی۔

گلی کے ایک سرے سے بل کھاتی، قریباً دو فرلانگ کا فاصلہ طے کرتی پست و بلند سے گزرتی دوسرے سرے پر آ کر بازار کے زمین دوز نالے میں جا کر غائب ہو جاتی۔ زندگی کی عجیب و غریب، مخفی اور عیاں داستانیں، دن رات نالی کے راستے بہتیں ۔ محراب و منبر کا تقدس آوارہ عورتوں کی کوکھ سے نکلی ہوئی سستی غلاظت سے مل کر بہتا۔ یوں لگتا جیسے آسمان اور زمین بغل گیر ہو کر اس میں سے گزر رہے ہوں۔ اونچی اونچی جگہوں پر چڑھ کر عظمت و بزرگی کا اعلان کرنے والوں کی اجلی اجلی ہستی کیچڑ بن کر کلبلاتی نظر آتی۔

ایمان و اخلاق کے ٹھیکیداروں کا پاکیزہ سرمایہ نام بتائے بغیر ڈبکیاں لیتا لیتا تلف ہو جاتا۔ ‘‘ زیر نظر کتاب میں پانچ افسانے اور دو ناولٹ شامل کئے گئے ہیں ۔ خاصے کی چیز ہیں، ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کو ضرور پڑھنا چاہئے۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔

نیشِ عشق

کہانی کسی مقصد کو حاصل کرنے کے لیے وجود پاتی ہے یا یہ بذات خود اپنے آپ میں ایک مقصد ہوتی ہے؟ یہ ایک بحث کا موضوع ہے جو کبھی ختم نہ ہونے والی ایک سرگرمی ہے اور فنون لطیفہ کی تمام اصناف بحث کے اس گرداب میں چکر کاٹتی رہیں گی۔ بات اب یہاں تک آن پہنچی ہے کہ کہانی کسی اعلیٰ و ارفع مقصد کے حصول کی جدوجد میں حصہ ڈالنے کی نیت سے تخلیق کی جائے تو اپنی فنی اور تخلیقی حیثیت کھو بیٹھتی ہے حالانکہ کہانی کا فنی بناؤ سنگھار تو طویل ارتقائی سفر کے نتیجے میں تشکیل پایا ہے جب کہ مقصدیت تو اس کی تخلیق کی بنیاد ہے۔

قبل از تاریخ کے عہد میں کسی جگہ پر انسان کی موجودگی کے جو نشان ملتے ہیں ہمیں کہانی کے وجود کا پتہ دیتے ہیں۔ جب انسان کی زندگی کا انحصار ہی صرف شکار پر تھا تو نئی نسل کو گزرے وقتوں کی شکاری مہموں کے قصے سنائے جاتے ہوں گے تاکہ بہادری کے ان کارناموں کی تقلید کا جذبہ پیدا ہو۔ یہ عمل مقصدیت سے عبارت ہے، انہیں کے نقش غاروں کی دیواروں پر تصویروں کی شکل میں ملتے ہیں۔

اُردو کے سحر آفریں افسانہ نگار غلام عباس سے ایک انٹرویو میں پوچھا گیا کہ حقیقت اور افسانے میں کیا فرق ہوتا ہے؟ اُن کا جواب تھا، حقیقت کیمرے سے کھینچی گئی تصویر جبکہ افسانہ مصور کے ہاتھ سے بنی تصویر ہے‘‘ افسانے کی ایسی جامع اور بامعنی تعریف شاید ہی کسی نے کی ہو۔ یعنی سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ افسانہ ہمارے معاشرے ہی کی کوئی تصویر ہوتا ہے اور دوسری بات یہ کہ اس کو زیادہ سے زیادہ اثر آفریں اور پُر تاثیر بنا دینا مصور کے موئے قلم کی پُرکاری اور رنگوں کی آمیزش پر منحصر ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’ نیشِ عشق‘ بھی ہمارے اپنے اردگرد وجود پاتی کہانیوں کی تصویریں ہیں جنہیں تخلیق کار اظہار ہاشمی نے پینٹ کیا ہے۔

’نیش عشق‘ ویسے تو اظہار ہاشمی کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ہے لیکن یہ ہر گز کسی تخلیق کار کی پہلی کاوش معلوم نہیں پڑتی۔ انسان کو وعظ و نصیحت کبھی خوش نہیں آئی۔ نصیحت اکثر مخالفانہ ردعمل پیدا کرتی ہے کیونکہ درحقیقت یہ سننے والے کی اپنی ذات پر نکتہ چینی ہوتی ہے۔ نصیحت اصل میں ا نسان کی توجہ کسی ایسے امر کی جانب مبذول کرا رہی ہوتی ہے جو اس کی ذات میں  عنقا ہوتا ہے، کوئی ایسا کام جسے نظر انداز کیا جا رہا ہو۔ کوئی ایسا عمل جسے کرنا باعث عزت و سعادت ہے لیکن وہ نصیحت کا ہدف اس سے بے بہرہ ہے۔

اس لیے حکماء کے نزدیک پند و نصائح ہمیشہ بالواسطہ پیرائے میں انتہائی دلکش ، پُر کشش اور ملفوف انداز میں کی جانی چاہیے۔ یہی وہ اوصاف ہیں جن کی پیروی میں تخلیق کاروں نے افسانے کے فنی محاسن کا ایک  پورا نظام تشکیل دے ڈالا اور یہ سلسلہ جاری و ساری رہے گا۔ یہ اوصاف کسی کہانی کو فنی تخلیق کے درجے پر فائز کرتے ہیں۔ الفاظ سے بنی ہوئی یہ تصویر مبہم نہیں رہتی اس کے کردار اپنی وضع قطع، عادات و اطوار اور اپنی نفسیاتی کفیات کے ساتھ جلوہ گر ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر اظہار ہاشمی کی کہانیاں اور اس کے کردار ہمارے معاشرے سے متعلق ہیں۔ ان میں وہی واقعات ، وہی دُکھ، وہی مسائل اور وہی نارسائیاں بیان کی گئی ہیں جو ہماری روز مرہ زندگی میں بار بار سامنے آتی ہیں لیکن ڈاکٹر ہاشمی نے معاشرتی بدنمائی کو اس انداز میں پینٹ کیا ہے کہ معاشرتی المیے کہانی کے اندر کسی انکشاف کی طرح وارد ہوتے ہیں ، ان کے افسانوں کی سب سے بڑی طاقت کسی بدترین المیے سے جانبر ہوجانے اور اُٹھ کھڑے ہونے کا یقین ہے ۔ وہ امید ہے جو بنجر زمین میں نمو پیدا کرنے پر قادر ہے۔

کسی کہانی کا مواد اور اس کے اجزاء کی اہمیت مسلم ہے لیکن کہانی کو بیان کرنا خود اپنی جگہ ایک عظیم فن ہے۔ کہانی بیان کرنے کا ہنر پڑھنے والے کو اپنے سحر میں جکڑ لیتا ہے۔یہاں پر بھی صورت یہ ہے کہ یا تو آپ کوئی افسانہ پڑھنا شروع نہ کریں اگر آپ آغاز کی چند سطریں پڑھ لیں گے تو پھر اس کو ختم کیے بغیر نہ رہیں گے۔ ’ نیش عشق‘ بجا طور پر اردو افسانہ نگاری کے حوالے سے قابل ذکر اضافہ ہے ، کتاب کی پیشکش کا انداز شاندار ہے۔ خاص طور پر سروق انتہائی پُر کشش اور با معنی ہے جسے سہیل احمد چوہان نے تخلیق کیا ہے۔اسے زاہد پبلشرز دوکان نمبر 34-G گولڈن پلازہ ، مین مارکیٹ گلبرگ لاہور نے شائع کیا ہے ۔ قیمت 500 روپے ہے۔

رُوبرُو(شہیدحکیم محمدسعید کے انٹرویوز)
مرتبہ: رفیع الزماں زبیری، مبصر:  عمران سجاد
صفحات: ۵۵۲، قیمت: ۰۵۲ روپے، ناشر: ہمدرد فاؤنڈیشن پاکستان

شہید حکیم محمدسعید اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے کام یاب ترین اور مقبول ترین معالج تھے۔ ا ُن کا دستِ شفا مریضوں کے دکھ درد رفع کرنے میں ہمہ وقت مصروفِ عمل رہتاتھا۔ ایک طبیب کی حیثیت سے ان کا  مزاج یہ تھا کہ وہ دنیائے طب و صحت میں انکشافات و اکتشافات سے خود کو پوری طرح باخبررکھتے تھے۔

وہ ایک حاذق طبیب ہونے کے علاوہ دواسازی کے ماہر اور جدّت آموز تھے، طبِ قدیم کی حیاتِ نو کے نقیب تھے، فروغِ تعلیم کے علم بردار تھے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ   بہ حیثیت انسان اعلا صفات کے حامل تھے۔ وہ اجتماعی مفاد کے کاموں پر خرچ کرنے میں دریادل تھے، لیکن اپنی ذات پر خرچ کرنے میں نہایت کفایت شعارتھے، خلیق تھے، متین تھے،منکسرالمزاج اور مجسّمِ عمل تھے۔ انھوں نے پوری زندگی خلقِ خدا کی خدمت میں گزاری، لیکن اپنی زندگی اتنی سادگی سے بسر کی کہ حیرت ہوتی ہے۔

وہ بنیادی طورپر میدانِ طب کے ہی آدمی تھے اوران کی زندگی میں طب اور مریضوں کی بے حد اہمیت تھی۔ وہ خود بھی اس بات کا اقرار کرتے تھے:’’ بنیادی طورپر میں طب کا آدمی ہوں۔میں نے اپنے منصوبوں اور تحریکوں کے ہجوم میں کبھی ایسا نہیں ہونے دیا ہے کہ طب نظرانداز ہوجائے یا میری اوّلیتوں میں طب کا مقام ثانوی ہوجائے۔

طب کے لیے پاکستان میں کام کرنے کے علی الرغم میں نے اس کی ضرورت محسوس کی کہ میں طب کے لیے پاکستان سے باہر بھی اپنی تحریکِ طب جاری کروں۔‘‘

مذکورہ بالا تمام باتوں کا بہ خوبی اندازہ زیرِتبصرہ کتاب ’’ روبرو‘‘  پڑھ کر ہوتا ہے۔ شہید حکیم محمدسعید سے پی ٹی وی اور مختلف اخبارات و رسائل وجرائد نے جو ا نٹرویوز لیے تھے، یہ ان کا منتخب کردہ مجموعہ ہے اور حقیقت تو یہ ہے کہ باربارپڑھنے کے قابل ہے۔ ۵۵۲ صفحات پر مشتمل سوالات و جوابات سے شہید حکیم محمدسعید کی جامعیتِ فکر پر خوب روشنی پڑتی ہے۔ کتاب میں بعض سوالات کے دیے گئے جوابات تدبّر و تفکّر کی دعوت دیتے ہیں۔

کئی سوالات کے جوابات بہت مدلّل و تفصیلی دیے  گئے ہیں، وہ کتاب میں پڑھے جاسکتے ہیں۔بعض کے صرف سوالات  اور بعض کے مختصر جوابات ذیل میں دیے جارہے ہیں، تاکہ شہید حکیم محمدسعید کی حق گوئی وبے باکی اور ان کے مزاج کی اُٹھان کا اندازہ ہوجائے کہ وہ لگی لپٹی بالکل نہیں رکھتے تھے او ران کی فکر سورج کی طرح روشن تھی اور وہ خیال اور اس کے اظہار کی آزادی کے قائل تھے۔

س : آپ کا فلسفۂ زندگی کیا ہے؟

ج : خدمت۔ اور کوئی فلسفہ نہیں ہے۔انسان کو پیدا بھی اسی لیے کیاگیا ہے۔

س :آپ کی اچھی صحت کا راز کیا ہے؟

ج :  میری صحت کا راز یہ ہے کہ میں کسی سے انتقام نہیں لیتا، اس لیے ہر نفرت سے محفوظ ہوںاورمیرا دل ہرکدورت سے پاک ہے۔

انتقام اور نفرت کا کوئی شعلہ میرے دل میں نہیں بھڑکتا۔ وہ جو میرے متفقین نہیں ہیں، میں اُن کے لیے اچھائیاں کرتاہوں۔اُن کا احترام کرتا ہوں۔اُن سے محبت کرتاہوں۔ کراچی کے ایک وائس چانسلر نے میرے اور میرے تعلیمی اداروں کے خلاف ایک باربات کی۔ میں نے اُن کو خط لکھا:’’مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ نے اپنی نیکیاں میرے نامۂ اعمال میں تحریر کردی ہیں۔

میں شکریہ ا دا کرتاہوں اور آپ کی خدمت میں شیرینی بھجواتاہوں، قبول فرمائیے گا۔‘‘ میری اچھی صحت کا راز یہ ہے کہ میں وقت کو اللہ تعالیٰ کی نعمت سمجھتاہوں اور امانت کا درجہ دیتاہوں۔ وقت کے صحیح استعمال کو دیانت قرار دیتاہوں او راُس کے غلط استعمال کو خیانت سمجھتاہوں۔میرے لیے یہ سب سے بڑی طمانیت ہے، جو مجھے صحت مند رکھتی ہے۔ ایک اور راز یہ ہے کہ میں زندہ رہنے کے لیے کھاتاہوں اور کھانے کے لیے زندہ رہنا توہینِ انسانیت سمجھتاہوں۔ اعتدالِ غذا  اور کم خوری میرا صحت مند مزاج ہے۔ الحمدللہ۔‘‘

س :  پسندیدہ مقام ؟

ج :  پاکستان سے زیادہ بھی کوئی پسندیدہ مقام ہوسکتا ہے۔اس سے قطع نظر قرارآتاہے مدینہ منورہ جاکر۔ میں نے 1972ء میں پہلا حج کیا تھا، یہ تعلق اس وقت سے قائم ہے۔پھر ہزار راتیں قدم ہائے   رسول ﷺ میں گزاری ہیں۔

س : پسندیدہ خوش بُو؟

ج : گلاب ، اس لیے کہ گلاب اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺ کا پسندیدہ پھول ہے۔

س : کیسے بچے آپ کو اچھے لگتے ہیں ؟

ج : کیسا بچہ؟ بچہ تو بچہ ہوتا ہے۔معصوم ہوتاہے۔ دل اُس کا آئینہ ہوتا ہے۔ اُسے جھوٹ بولنا نہیںآتا۔یہ مکروفریب نہیں کرتا۔یہ ایذارسانیاں نہیں کرتا۔ یہ محبت کا متلاشی ہوتا ہے اور مسکراہٹوں سے اپنی محبت کا اظہار کرتا ہے۔ان معصوموں کو جب اونٹوں پر بٹھاکر ستایا جاتا ہے تو اندازہ ہوتا ہے کہ انسان کس قدرظالم ہے۔

س : آ پ ہر ماہ پاکستان کے مختلف شہروںمیں ہمدرد مطب میں مریضوں کا فری معائنہ کرتے ہیں۔آپ مریضوں سے دوسرے حکیموں اور ڈاکٹروں کی طرح چارسو، پانچ سو رُپے فیس کیو ں نہیں لیتے، آخر اس کی وجہ کیا ہے؟

ج : طب پیشہ نہیں ہے، فن ہے، فنِ شریف ہے۔ جس طرح اسلام میں تعلیم دینے کا معاوضہ لینا بُرا ہے، اُسی طرح مریض کی خدمت کا صلہ لینا میرے نزدیک اچھا نہیں ہے۔ جب پیسہ ذہن میں آتا ہے تو شفا جاتی رہتی ہے۔

سوالات : طبّی سائنس نے جو زبردست ترقی کی ہے اور اس میدان میں جو پیش رفت ہوئی ہے، کیا طبِ اسلامی اس کا مقابلہ کرسکتی ہے؟ پاکستان میں طبِ یونانی کامستقبل کیا ہے؟ طبِ یونانی کو کن مقامات پرا یلوپیتھی پر فوقیت حاصل ہے؟ طبِ یونانی بعض امراضِ مخصوصہ سے ہی کیوں منسوب ہوکر رہ گئی  ہے؟ حکمت میں کس کس مرض کی دوا ہے؟ پاکستان میں کتنی قسم کی جڑی بوٹیاں ملتی ہیں؟ کیا خمیرہ وکشتے مضر ہوسکتے ہیں، کیوں کہ ا ن میں جواہرات وغیرہ شامل کیے جاتے ہیں؟ ان تمام سوالات کے جوابات کتاب میں پڑھے جاسکتے ہیں۔

شہید حکیم محمدسعید انسانی تاریخ کا وہ نابغہ ہیں، جن کے اثرات رواں صدی پربڑی شدت سے پڑرہے ہیں۔ ہم سب شہید حکیم محمدسعید کے عہد میں سانس لے رہے ہیں۔ یہ کتاب اُن کی حق گوئی اورہمت و جرأت کی بہترین مثال ہے۔ یہ انتہائی منفرد و لاثانی کتاب ہے۔ ہر ترقی پسند ذہن کو اس کتاب کا ضرور مطالعہ کرناچاہیے۔ کتاب میں شہید حکیم محمد سعید کی انتہائی خوب صورت تصاویر بھی شامل ہیں۔ ہمدردفاؤنڈیشن نے اپنی روایات کے مطابق کتابت وطباعت پر خاص توجہ دی ہے۔ رفیع الزّماں زبیری صاحب نے بہت اچھا کیا کہ شہید حکیم محمدسعید کے تمام بکھرے ہوئے انٹرویوز کوایک جگہ جمع کردیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔