فلسطینی تنازعہ؛ مسلم دنیا کے سیکولر اور مذہبی دانشوروں کے چند مغالطے

تزئین حسن  اتوار 13 جون 2021
ایک ایسے وقت میں جب اسرائیل کے انصاف پسند یہودی بھی انسانیت کے خلاف اسرائیل کے جرائم پراحتجاج کر رہے ہیں۔ فوٹو : فائل

ایک ایسے وقت میں جب اسرائیل کے انصاف پسند یہودی بھی انسانیت کے خلاف اسرائیل کے جرائم پراحتجاج کر رہے ہیں۔ فوٹو : فائل

الان پاپے اسرائیلی اسکالر ہیں۔ ان کے والدین 1930ء میں جرمنی سے فلسطین کے شہر حیفہ آئے، جہاں یہ 1954میں پیدا ہوئے ۔ الان نے اٹھارہ برس کی عمر میں اسرائیلی ڈیفنس فورسز میں شمولیت اختیار کی اور 1973ء کی عرب اسرائیل جنگ میں انہوں نے گولان کی پہاڑیوں پر خدمات انجام دیں۔

1984ء میں الان نے حیفہ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی۔ ان کی پی ایچ ڈی کا موضوع اسرائیلی اور برطانوی ڈی کلاسیفائیڈ آرکائیوز کی روشنی میں اسرائیل کے قیام کی تاریخ کا نئے سرے سے جائزہ لینا تھا۔1984ء سے2007 تک الان حیفہ یونیورسٹی میں پڑھاتے رہے ۔2007 ء میں اسرائیل کے سیاسی، معاشی اور اکیڈیمک بائیکاٹ کے حق میں ان کے بیان پر ان سے یہ کہہ کر استعفیٰ لیا گیا کہ ’’ بائیکاٹ کا آغاز آپ کو خود اپنے آپ سے کرنا چاہیے ۔‘‘ آج کل یہ برطانیہ کی ایکزیٹر یونیورسٹی میں فلسطینی اسٹڈیز سینٹر کے سربراہ ہیں۔

یہ اپنی تحقیق کے دوران تاریخ کے اس اہم موڑ کے حوالے سے کئی اہم حقائق منظرعام پر لائے ہیں جو اسرائیل کے ریاستی بیانیہ سے مختلف ہے۔ الان کا کہنا ہے، یہ بیانیہ کہ 1948ء میں ساڑھے سات لاکھ فلسطینیوں نے رضاکارانہ اپنے گھروں کو چھوڑ کر ہمسایہ ممالک میں ہجرت کی، ریکارڈز کے مطابق صحیح نہیں ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے:’ یہ بھی غلط ہے کہ فلسطینیوں کا انخلا اسرائیل کی ریاست کے اعلان کے بعد عرب حملے سے شروع ہوا۔ ان کے مطابق حقیقت یہ ہے کہ فلسطینیوں کی ایتھنک کلینسنگ (نسلی صفائے) کے احکامات اس سے دو ماہ قبل، دس مارچ 1948 کو ہی صیہونی ملٹری یونٹس کو روانہ کر دیئے گئے تھے۔‘

ہمارے ہاں اسرائیل فلسطین تنازعہ کے حوالے سے بہت سی غلط فہمیاں موجود ہیں۔ اکثر پڑھے لکھے لوگ بلکہ سنجیدہ اسکالر بھی یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ فلسطینی اگر اقوام متحدہ کا تقسیم فلسطین کا فیصلہ خوشی سے مان لیتے تو آج ان کی اپنی ریاست قائم ہوتی اور یہ اس میں محفوظ زندگی گزار رہے ہوتے۔

اس مضمون کا مقصد اسرائیلی دعوؤں کے مقابلے میں کچھ شواہد سامنے لانا ہے مثلاً یہ دعویٰ کہ اسرائیل نے فلسطینی علاقوں پر قبضہ عرب حملے کے بعد اشتعال میں آ کر کیا ، ورنہ اگرعرب یو این کے فارمولا کو وقت پر تسلیم کر لیتے اور اسرائیل کے خلاف جنگی کاروائی نہ کرتے تو فلسطینیوں کواپنی ریاست قائم کرنے کا پورا حق دیا جاتا۔

الان اپنی 2006 ء میں شائع کردہ کتاب’ فلسطینیوں کی ایتھنک کلینسنگ‘(Ethnic cleansing of Palestine) میں لکھتے ہیں کہ اسرائیل کے قیام سے دو ماہ قبل، دس مارچ 1948 ء ہی کو تل ابیب کے ہگانہ (صیہونی ملیشیا جو بعد میں اسرائیلی ڈیفنس فورسز میں تبدیل ہو گئی) کے ہیڈ کوارٹرمیں فلسطینیوں کی منظم ایتھنک کلینسنگ یعنی فلسطینیوںکو قتل و غارت گری کے ذریعے بے دخل کرنے کے پہلے سے طے شدہ منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے احکامات پہلے سے گراؤنڈ پر موجود اسرائیلی ملٹری ٹروپس کو روانہ کر دئیے گئے تھے۔

اس پلان کا مقصد صیہونی ریاست کو فلسطینیوں سے ’ پاک ‘ کرنا تھا اور ان کی شہری اور دیہی زندگی کو مکمل طور پر تباہ کرنا تھا۔ یاد رہے کہ دس مارچ کو فلسطین پر برطانوی مینڈیٹ قائم تھا، اس کی انتظامیہ اور فوج فلسطین میں موجود تھی۔ اور واضح رہے کہ کسی مذہبی، نسلی یا قومی گروہ کو منظم یعنی institutionalize طریقے سے ختم کرنا ، اس کی سرزمین سے بے دخل کرنا ایتھنک کلینسنگ کہلاتا ہے۔ اگرچہ یہ ابھی بین الاقومی قانون کا حصہ نہیں بنی لیکن اس کا شمار انسانیت کے خلاف بڑے جرائم  (crime against humanity) میں ہوتا ہے۔

الان اس امر کے شواہد سامنے لاتے ہیں کہ ایتھنک کلینسنگ کے احکامات کے ساتھ ان پر عمل درآمد کے طریقوں کی بھی تحریری وضاحت موجود تھی، جن میں قتل و غارت گری، آبادی کا محاصرہ کرنا ، بم باری کرنا ، ڈرانا ، دھمکانا ، گھروں، جائیدادوں اور ( قیمتی ) اشیاء کو آگ لگانا ، گھروں کو منہدم کرنا شامل تھا۔ اس فہرست میں سب سے آخری عمل فلسطینیوں کو بھگانے کے بعد بارودی سرنگوں کی تنصیب شامل تھی تاکہ اگر کوئی پلٹنا چاہے تو مارا جائے۔

الان کے مطابق عرب مسلمانوں کے برعکس صیہونیوں کے پاس فلسطین کے ایک ایک گاؤں اور علاقے کا پورا ریکارڈ موجود تھا اور یہ پلاننگ طویل غور و فکر اور کوئی دس سالہ تحقیق کا نتیجہ تھی۔ یہ سب کچھ جس پلان کے تحت کیا گیا اس کو پلان ڈی یا ڈالٹ کہا گیا۔ الان کا کہنا ہے کہ ڈی کلاسیفائیڈ دستاویزات کے مطابق فلسطینیوں کی ’ ایتھنک کلینسنگ ‘ کے اس منصوبے کے دوران فلسطینی مسلمانوں اور عیسائیوں کی ساڑھے سات لاکھ نہیں بلکہ آٹھ لاکھ کی تعداد کو ہمسایہ ملکوں اردن، شام اور لبنان کی سرحدوں کے اس پار دھکیل دیا گیا تھا ۔

بعض مقامات پر اسرائیلی فوج نے گن پوائنٹ پر میلوں پیدل چلا کر فلسطینیوں کو فلسطین چھوڑنے پر مجبور کیا۔ راستے میں بڑے پیمانے پر ہلاکتیں بھی ہوئیں۔531 فلسطینی دیہاتوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا اور گیارہ شہری علاقوں کو تباہ کیا گیا۔ اسرائیل نے مجوزہ یواین پلان کے مطابق فلسطین کے57 فیصد پر نہیں بلکہ 78 فیصد علاقے پر قبضہ کر لیا۔

دوسری طرف اسرائیلی ریاستی بیانیہ میں یہ ہے کہ فلسطینیوں نے عارضی طور پر اپنے گھر حملہ آورعرب فوج کے لئے رضاکارانہ طور پر چھوڑ دیئے تھے۔ الان کے مطابق 15مئی کوعرب فوجوں کے فلسطین میں داخلے سے قبل ڈھائی لاکھ فلسطینیوں کو  مذکورہ بالا طریقوں کی مدد سے باہر دھکیلا جا چکا تھا۔ عام طور سے15 مئی کے بعد وقوع پزیر دیر یٰسین نامی گاؤں کے قتل عام کا بہت تذکرہ ہوتا ہے جسے ’ نقبہ ‘ کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ اس قتل عام کو اتنی شہرت اس لئے حاصل ہوئی کہ خود اسرائیل نے باقی رہ جانے والے فلسطینیوں کو ہجرت پر مجبور کرنے کے لئے دیر یٰسین کے قتل عام کی میڈیا کے ذریعے بہت زیادہ پبلسٹی کی۔

الان کے مطابق دیر یٰسین کی بربریت فلسطینیوں کی ایتھنک کلینسنگ کے آخری مرحلے کا آغاز تھی۔ یاد رہے کہ آئن اسٹائن نے چار دسمبر1948 ء کو دیر یٰسین کے قتل عام کا تذکرہ ’ نیویارک ٹائمز‘ کے ایڈیٹر کو لکھے جانے والے ایک مشترکہ خط میں کیا کہ ’ اسرائیل کو قائم کرنے والی جماعت نازیوں کی طرح فاشسٹ اور دہشت گردوں پر مشتمل ہے اور اس کے لیڈر منیخم بیگن کو، جو خود ایک دہشت گرد ہے، امریکا آمد پر خوش آمدید نہیں کہا جانا چاہئے۔‘ یہ مشترکہ خط ایک اشتہار کی صورت میں بیگن کی امریکا آمد کے موقع پر نیو یارک ٹائمز میں شائع ہوا ۔ یاد  رہے کہ منیخم بیگن جو صیہونی ملیشیا ارگن کے ممبر تھے، بعد ازاں اسرائیل کے چھٹے وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہوئے۔

آئن اسٹائن کا بیان اور ارگن ملیشیا کے ایک ممبر کا اسرائیلی ریاست کے سربراہ کے منصب پر فائز ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ فلسطینیوں کے خلاف ایتھنک کلینسنگ کسی وقتی اشتعال کا نتیجہ نہیں تھی اور فسادیوں یا دہشت گردوں کی کاروائی نہیں تھی بلکہ اسرائیل قائم کرنے والے صیہونیوں کا سوچا سمجھا منصوبہ تھا۔

ہمارے ہاں دانش ور یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ بربریت جو دیر یٰسین میں ہوئی در اصل دہشت گرد تنظیموں کا کام تھا، اسرائیلی ریاست کا اس میں کوئی ہاتھ نہیں تھا۔ آرکائیوز اس کی تردید کرتے ہیں۔ اگر واقعی ایسا تھا تو اسرائیلی ریاست کو ’ رائٹ آف ریٹرن ‘ کے بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق جبری بے دخل کیے جانے والے فلسطینیوں کی گھر واپسی میں رکاوٹ نہیں ڈالنی چاہیے تھی۔

یاد رہے کہ الان پاپے واحد اسکالرنہیں جو اپنی تحقیق میں اسرائیل کی ایتھنک کلینسنگ (نسلی صفائی) کے ثبوت پیش کرتے ہیں۔ نوے کی دھائی میں جب 1978 میں آرکائیوز ڈی کلاسیفائی ہوئیں تو متعدد اسرائیلی محققین نے اسرائیلی ریاستی بیانیہ کو جھوٹا قرار دیا۔ الان اپنی 2014ء کی ایک اور کتاب’ آئیڈیا آف اسرائیل ‘ میں ان تمام صیہونی مخالف اسرائیلی مصنفین کی تحقیق کا نچوڑ پیش کرتے ہیں۔ اس سے قبل فلسطینی مہاجرین کے منہ بولے بیانات کو اسرائیل اور عالمی میڈیا آسانی سے رد کر دیا کرتا تھا لیکن اب ان کی تصدیق خود اسرائیلی آرکائیوز سے ہو رہی ہے اور خود اسرائیلی محققین کر رہے ہیں۔

٭ 1948 میں عرب آرمی نے حملے میں پہل نہیں کی تھی

اس طرح اسرائیل اور اس کے حامیوںکا یہ دعویٰ بھی غلط ہے کہ حملے میں پہل عرب آرمی نے کی۔1948ء کی جنگ میں اردن کی عرب لیجین کی قیادت کرنے والے برطانوی جنرل گلب جنھیں گلاب پاشا بھی کہا جاتا ہے ، کے مطابق یہ غلط ہے کہ عرب افواج نے پہلے حملہ کیا تھا۔ تاریخوں کا جائزہ لیا جائے تو فلسطینی علاقوں پر منظم حملے جدید اسلحہ سے لیس صیہونی ملیشیاؤں نے برطانوی مینڈیٹ کے دوران ہی شروع کر دیئے تھے۔

٭فلسطین میں ’ ایتھنک کلینسنگ ‘ کا منصوبہ ہولوکوسٹ سے بہت پہلے کا ہے

متعدد اسکالرز اپنی تحقیق میں اس امر کے شواہد سامنے لے کر آئے ہیں کہ فلسطینیوں کی ایتھنک کلینسنگ، جسے صیہونی اپنی زبان میں منتقلی transfer کہتے تھے، کے ذریعے پورے فلسطین پر قبضہ صیہونیوں کے پلان میں بہت پہلے سے شامل تھا۔ الان اس بات کے شواہد بھی پیش کرتے ہیں کہ صیہونی اداروں نے1939ء سے ہی فلسطین کے دیہاتوںکا ڈیٹا جمع کرنا شروع کر دیا تھا جس میں گاؤں کے بالغ مردوں کی عمریں، مختار کا نام، پانی کی سپلائی، زمین کی زرخیزی، پھلوں اور اناج کی کوالٹی اور فلسطینی بغاوت سے گاؤں اور اس کے مکینوں کا تعلق بھی شامل تھا۔

یاد رہے کہ یہ کام دوسری جنگ عظیم شروع ہونے سے پہلے شروع کیا گیا اور اس کا مقصد وقت پڑنے پر ایتھنک کلینسنگ کا آغاز تھا۔ یہاں اس مغالطے کی بھی نفی ہوتی ہے جس کے مطابق اسرائیل کا قیام ہولوکوسٹ کے مارے یہودیوں کو آباد کرنے کے لئے ضروری تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ فلسطینیوں کی ایتھنک کلینسنگ ہولوکوسٹ سے بہت پہلے پلان کی جا چکی تھی۔

الان اپنا کتاب کا آغاز اسرائیل کے پہلے وزیراعظم بن گوریاں کے اس بیان سے کرتے ہیں جو انھوں نے جون 1938ء میں جیوش ایجنسی کی ایگزیکٹو میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے دیا:’  میں لازمی منتقلی کے حق میں ہوں اور مجھے اس میں کوئی غیر اخلاقی امر نظر نہیں آتا۔‘ امریکا کی اوہائیو یونیورسٹی کے محقق جان کویگلی اپنی کتاب 2016 میں شائع شدہ کتاب:The International diplomacy of the Founders of Israel: Deception at the United Nations in the Quest for Palestine ( ترجمہ : ’’ اسرائیل کے بانیوں کی عالمی ڈپلومیسی : فلسطین کے قیام کیلیے اقوام متحدہ کو کس طرح دھوکا دیا گیا۔‘‘ ) میں برطانیہ کے روسی سفیر سے موشے شرٹوک نامی صیہونی لیڈر نے1939ء میں برطانیہ کے روسی سفیر کو اسرائیل کے قیام کے نتیجے میں عرب فلسطینیوں کے مسئلے کا حل یہ بتایا کہ انہیں ہمسایہ ممالک میں منتقل ( ایتھنک کلینسنگ کے لئے صیہونی یہی لفظ استعمال کرتے تھے) کر دیا جائے گا۔

یاد رہے کہ صیہونی یہ حل امریکی یا برطانوی حکومت سے گفتگو میں کبھی زبان پر نہ لاتے تھے۔ اسی طرح آئن اسٹائن جیسی معروف شخصیات کو صیہونیوں نے اسرائیل کے قیام کے لئے استعمال کیا لیکن انہیں بھنک بھی نہ پڑنے دی کہ عرب فلسطینیوں کو فلسطین سے مکمل طور پر نکال دینے کا کوئی پلان زیرغور ہے۔

یاد رہے کہ یہ وہ وقت تھا جب فلسطین میں برطانوی مینڈیٹ1936-39ء تک فلسطینیوں کی مسلح تحریک کے دوران یورپ سے یہودی منتقلی کو کم کرنے پر مجبور ہوئی تھی اور صیہونیوں نے برطانوی مینڈیٹ کے خلاف دہشت گردی کی کاروائیاں شروع کی تھیں۔ ہمارے بہت سے معذرت خواہانہ دانش ور دہشت گردی کو مسلم ایجاد بلکہ بعض تو اسلام کا ایک رکن سمجھتے ہیں لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ اسامہ بن لادن سے کوئی 70، 80 سال پہلے فلسطین میں برطانیہ کو اپنے مقصد کے لئے جھکانے کے لئے صیہونی ملیشیاؤں نے جی بھر کر دہشت گردی ہی نہیں کی بلکہ اس کے نئے نئے طریقے بھی ایجاد کیے۔

٭عرب ریڈیوز نے فلسطینیوں کو گھر چھوڑنے کا مشورہ نہیں دیا

فلسطینیوں کے رضاکارانہ ہجرت کے حوالے سے اسرائیلی ریاست کا ایک بیانیہ یہ بھی ہے کہ ہمسایہ ملکوں کے عرب ریڈیوز مسلسل فلسطینیوں کو ہجرت کا مشورہ دے رہے تھے۔ اس دعوے کو بھی آرکائیوز کی مدد سے تاریخ کا دوبارہ تجزیہ کرنے والے ماہرین مسترد کرتے ہیں۔ نارمن فنکل اسٹین اپنی کتاب Beyond Chutzpah: On the Misuse of Antisemitism and the Abuse of History میں لکھتے ہیں کہ اس دعویٰ کو1960ء کی دہائی میں ہی دو محقیقین، فلسطین کے ولید خالدی اور آئرلینڈ کے ارسکن چائلڈرز نے عرب ریڈیو بروڈکاسٹ کے آرکائیوز کی جانچ کے بعد غلط ثابت کر دیا تھا لیکن مصنف کا کہنا ہے کہ اس کے بعد بھی اسرائیلی میڈیا اس دعوے کو دہراتا رہا کہ فلسطینی عرب ریڈیو سے نشر کردہ پیغامات کی وجہ سے اپنے گھر چھوڑ کر گئے۔ یاد رہے کہ الان کی طرح امریکی اسکالر نارمن فنکل اسٹین بھی یہودی والدین بلکہ ہولو کاسٹ سے بچ جانے والوں کی اولاد ہیں۔ یہ ’’ہولوکاسٹ انڈسٹری‘‘ سمیت تنازعہ پر متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔

الان کے مطابق یہ واضح طور پر منظم ایتھنک کلینسنگ کا کیس ہے لیکن برطانوی صحافی جوناتھن کک کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کو فلسطین سے ختم کرنا دراصل صیہونیت کی ہی کورولری ہے۔ کورولری ریاضی کے تھیورم میں آفاقی حقیقت کے اظہار کے متبادل طریقے کو کہا جاتا ہے۔ یعنی فلسطین میں اسرائیلی ریاست کا قیام اور فلسطینیوں کو ان کی زمینوں سے بے دخل کرنا صیہونیت نامی حقیقت کے دو رخ ہیں۔

٭یہ ایتھنک کلینسنگ نہیں جینو سائیڈ ہے

جوناتھن کک  برطانوی صحافی ہیں جو مقبوضہ فلسطین کے شہر ناصرہ میں مقیم ہیں اور فلسطین اسرائیل تنازعہ پر تین کتابیں لکھ چکے ہیں، وہ اپنی 2008 کی شائع کردہ کتابDisappearing Palestine میں ساٹھ سال کی ایتھنک کلینسنگ کے ثبوت پیش کرتے ہیں، لیکن آخری باب میں ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل جو کچھ کر رہا ہے یہ در اصل جینو سائیڈ یعنی فلسطینی قوم کو جزوی یا کلی طور پر ختم کرنے کے ارادتاً عمل کے زمرے میں آتا ہے۔

جیسا کہ ہم بتا چکے ہیں کہ ایتھنک کلینسنگ کا لفظ اگرچہ اقوام متحدہ کی کاروائیوں میں استعمال ہوتا آیا ہے مثلاً یوگو سلاویہ اور روہنگیا قوم کے حوالے سے لیکن اسے باقاعدہ قانون کی شکل نہیں دی جا سکی ہے۔ جینو سائیڈ یعنی کسی قوم کو ختم کرنے کے ارادتاً عمل کو 1948 میں ہی قانون کی شکل دے دی گی تھی۔ Convention on the Prevention and Punishment of the Crime of Genocide

٭اقوام متحدہ کا تقسیم فلسطین کا فارمولا

اقوام متحدہ کے تقسیم فلسطین کے فارمولا کے مطابق فلسطین کے66 فیصد عرب فلسطینیوںکو سر زمین کا 43 فیصد سے کچھ کم حصہ دیا گیا تھا جبکہ 33 فیصد یہودیوں کو سر زمین کا 57 فیصد سے زیادہ حصہ دیا گیا تھا۔ یہ تقسیم بھی اتنی عجیب تھی کہ فلسطینیوں کو الاٹ کیے جانے والے حصے میں آٹھ لاکھ عرب فلسطینی اور دس ہزار یہودی موجود تھے، جبکہ صیہونیوں کو الاٹ کیے گئے حصے میں پانچ لاکھ یہودی اور چار لاکھ چالیس ہزار فلسطینی آبادی موجود تھی۔ اس کے علاوہ یروشلم کو بین الاقوامی نگرانی میں دیدیا گیا تھا یعنی اس تقسیم کے مطابق 12لاکھ چالیس ہزار فلسطینیوں کو ان کی سر زمین کا 43 فیصد اور پانچ لاکھ یہودیوں کو فلسطین کا 57 فیصد حصہ دیا گیا تھا۔

یہی نہیں، اسرائیل کے قیام کے وقت تک صیہونی اپنی تمام تر کوشش کے بعد فلسطین کی صرف چھ فیصد زرعی زمین خریدنے میں کامیاب ہوئے تھے لیکن فلسطین کی زرخیز ترین زمین یو این کے مجوزہ پلان میں اسرائیل کو دی گئی، جو نہ دی گئی، اس پر بھی اسرائیل پلان ڈی کے تحت قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس سے ہمارے ہاں اس طبقے کے نظریات کا رد ہوتا ہے جس کے مطابق اسرائیل کا قیام خود فلسطینیوں کے اپنے اعمال کا قصور ہے کہ انھوں نے اپنی زمینیں یہودیوں کو کیوں فروخت کیں؟ یہ بیانیہ در اصل مظلوم کو قصور وار ٹھہرا کر ظالم کو بری کرنے کے لئے دیا جاتا ہے۔

٭دیر یٰسین میں جو کچھ ہوا وہ ایک ٹریلر تھا

اسرائیل کے قیام کے لئے صیہونیوں کا ساتھ دینے والے بھی 1948ء  میں منظر عام پر آنے والے دیر یٰسین کے قتل عام کو دیکھ کر دنگ رہ گئے لیکن اب جو کچھ اسرائیلی آرکائیوز سے سامنے آ رہا ہے، اس کے مطابق دیر یٰسین کا واقعہ جسے فلسطینی ’ نقبہ ‘ کا نام دیتے ہیں اصل بربریت کے مقابلے میں ایک ٹریلر سے زیادہ کچھ نہیں۔

٭برطانوی افسران نے صیہونی ملیشیاؤں کو جنگی تربیت دی

ایسا نہیں تھا کہ فلسطینیوں کی طرف سے کوئی مزاحمت نہیں ہوئی۔ فلسطینی 1920 کی دہائی سے یورپی یہودیوں کی بڑے پیمانے پر منتقلی کو خطرہ تصور کر رہے تھے۔ 1936-39 ء کے دوران انہوں نے برطانوی مینڈیٹ سے بغاوت بھی کی۔ اس بغاوت کے نتیجے میں ان کی قیادت کو جلاوطن کر دیا گیا اور انہیں نہتا کر دیا گیا۔ دوسری طرف الان کے مطابق صیہونی ملیشیاؤں کو خود برطانوی افسروں نے ٹریننگ دی جن میں معروف برطانوی افسر چارلس ونگیٹ بھی شامل تھا۔ برطانیہ نے فلسطینی بغاوت کچلنے کے دوران ہگانہ کو بھی اپنی کاروائیوں میں اپنے ساتھ رکھا۔ انہیں باقاعدہ فلسطینی گاؤں میں آپریشن کی ٹریننگ دی گئی۔ بعد ازاں ہگانہ کے ممبران کی بڑی تعداد دوسری جنگ عظیم میں برطانیہ کے ساتھ لڑی اورمزید ٹریننگ بھی حاصل کی۔

صیہونیوں کے پاس جدید اسلحہ بھی موجود تھا لیکن فلسطینی بالکل نہتے تھے۔ صیہونی نہتے فلسطینیوں کو قتل و غارت گری کر کے ڈرا دھمکا کر، سرحد کے اس پار دھکیلنے کے لئے پوری طرح تیار تھے۔ یہاں یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ اسرائیلی ریاست برطانوی مینڈیٹ ختم ہونے کے بعد کسی بین الاقوامی قانون کی پابند رہی نہ ہی اقوام متحدہ کے پلان تقسیم فلسطین پر عمل کیا لیکن ہمارے دانش ور فلسطینیوں کو اس بات کا مشورہ ضرور دیتے ہیں کہ انہیں اس پلان کو قبول کر لینا چاہیے تھا۔ الان کا یہ بھی کہنا ہے کہ فلسطین کے شہر اکّا اور بعض دوسرے شہروں میں پینے کے پانی کی سپلائی میں زہر بھی ملایا گیا اور خواتین کے ریپ بھی ہوئے لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوئی۔

٭رائٹ آف ریٹرن کا بین الاقوامی قانون

رائٹ آف ریٹرن کے بین الاقوامی قانون کے تحت اسرائیل ان پناہ گزین فلسطینیوں کو حالات ٹھیک ہونے پر واپس ان کے گھروں میں آباد کرنے کا پابند تھا۔ اقوام متحدہ کی ممبر شپ حاصل کرنے سے پیشتر اسرائیل نے اس حق سے انکار نہیں کیا تھا۔ بعد ازاں اس مسئلے پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجود اسرائیل نے عمل کرنے سے انکار کر دیا۔ سرحد کے پار دھکیلے جانے والے جو پناہ گزین کسی طرح سرحد پار کر کہ اپنے گاؤں واپس آنے میں کامیاب ہو جاتے انہیں گرفتار کر لیا جاتا، ان سے جبری مزدوری کروائی جاتی، انہیں انفلٹریٹر یعنی در انداز قرار دے کر فوری شوٹ کرنے کا حکم دے دیا گیا۔ یہاں تک کہ یورپ سے آئے آباد کاروں کو بھی اسلحہ دے کر ’’ دراندازوں‘‘ کو شوٹ کرنے کی ہدایت کی گئی۔

جوناتھن کک کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کو قتل و غارت گری اور خوف و ہراس سے ان کے گھروں سے بے دخل کر کے وہاں نہ صرف گھروں کو بلڈوز کیا گیا بلکہ پھلوں کے درخت اور فصلوں کو بھی۔ آخرکار وہاں ایسی جھاڑیاں لگا دی گئیں جو واپس آنے والوں کی غذائی ضروریات پوری نہیں کر سکتی تھیں۔ اس پر بھی بس نہیں کیا گیا بلکہ ان دیہاتوں کے گرد خاردار باڑ لگا کر انہیں کلوز ملٹری زون قرار دے دیا گیا جہاں داخل ہونے والے در انداز کو فوری شوٹ کرنے کا حکم تھا۔ جوناتھن کک کے مطابق ایسا اس لئے کیا گیا کہ اگر کسی طرح فلسطینی سرحد پار کر کے واپس آنے میں کامیاب ہو بھی جائیں تو دوبارہ گھر بنا کر اپنے درختوں اور کھیتوں سے غذا حاصل نہ کرسکیں۔

یہ سب کچھ اتنی تیزی سے کیا گیا کہ ایک سال کے اندر اندر بھی جو لوگ پلٹنے میں کامیاب ہوئے انہیں اپنے گاؤں کی جگہ کلوز ملٹری زون ہی دیکھنے کو ملے۔ یاد رہے کہ جھاڑیاں جو انار، انگور، سیب کے درختوں اور گندم ، باجرے کے کھیتوں کو تباہ کرکے لگائی گئیں وہ بہت تیزی سے بڑھنے والی جھاڑیاں تھیں جن میں آگ بھی بہت تیزی سے لگتی ہے۔  قارئین میں سے بعض کو اسرائیل میں لگنے والی آگ کے واقعات  یاد ہوںگے جنھیں بجھانے کے لئے ترکی نے بھی مدد دی تھی۔ جس سرعت کے ساتھ اس ساری پلاننگ پر عمل کیا گیا ہے، اس سے صاف واضح ہے کہ فلسطینیوں کی ایتھنک کلینسنگ کے منصوبے کے ہر ہر حصے پر نہ صرف ہوم ورک اسرائیل کے قیام سے پیشتر موجود تھا بلکہ ہر طرح کے وسائل بھی صیہونیوں کے پاس موجود تھے۔ ایسے میں یہ سوچنا کہ اگر فلسطینی اقوام متحدہ کے تقسیم فلسطین کے منصوبے کو اگر مان لیتے تو آج ان کا اپنا وطن ہوتا اور وہ اسرائیل کی جارحیت کا شکار نہ ہوتے خام خیالی کے علاوہ اور کیا کہا جا سکتا ہے۔

٭1948 کی جنگ سے قبل اردن اور صیہونیوں کا معاہدہ

1948ء کی عرب اسرائیل جنگ کا ایک بہت اہم کردار اردن کی عرب لیجین کا برطانوی جرنیل گلب بھی تھا جو گلاب پاشا کے نام سے معروف تھا۔ یہ پہلی جنگ عظیم کے دوران مشرق وسطیٰ میں وارد ہوا اور اردن کی آزادی کے بعد وہاں کی افواج کا کمانڈر تھا۔ اب یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ مغربی کنارے اور اقوام متحدہ کے مجوزہ تقسیم کے پلان میں فلسطینی حصے کے بدلے میں اردن کے شاہ حسین برطانیہ اور صیہونی لیڈران سے معاہدہ کر چکے تھے کہ صیہونی فوج کے خلاف کوئی مزاحمت نہیں کی جائے گی۔

صیہونیت کے حامی، اسرائیلی مصنف مورس بینی کی کتاب’ روڈ ٹو یروشلم : گلب پاشا، فلسطینی اور یہودی‘ (Road to Jerusalam: Glubb Pasha, Palestine and the Jews) میں مصنف کا کہنا ہے کہ پہلی عرب اسرائیل جنگ میں اردن کی ارب لیجین کی فلسطین میں آمد کا مقصد، صیہونی ملیٹنٹس یا اسرائیلی فوج سے لڑنا نہیں بلکہ مجوزہ فلسطینی حصے پر کنٹرول حاصل کر کے اردن میں شامل کرنا تھا۔ گلب پاشا نے اس جنگ میں اردن اور برطانیہ دونوں کے مفادات کی پاسداری کرتے ہوئے صیہونی فوج سے کوئی تعرض نہ کیا۔ یہ بات بھی مورس کی کتاب اور دیگر ریکارڈز سے سامنے آ چکی ہے کہ اردن کی حکومت کا باقاعدہ برطانیہ اور صیہونیوں سے معاہدہ موجود تھا۔

مورس کا کہنا ہے کہ اگر اس معاہدے کی خلاف ورزی کسی نے کی تو وہ اسرائیل تھا کیونکہ اس نے، مجوزہ پلان میں جو زمین فلسطین کو دی گئی تھی،کے علاوہ بھی علاقے پر قبضہ کیا جبکہ اردن کی عرب لیجین نے مشرقی یروشلم کے علاوہ جس پر پلان کے مطابق اقوام متحدہ کا کنٹرول رہنا تھا، پلان میں اسرائیل کو الاٹ کے گئے کسی علاقے کو اپنے کنٹرول میں لینے کی کوشش نہیں کی گئی۔

گلب پاشا اپنی ایک تحریر میں اقوام متحدہ کے پلان میں نگیو کے صحرا کو اسرائیل کی تحویل میں دینے پر جھلاتے نظر آتے ہیں کیونکہ وہاں لاکھوں فلسطینی آباد تھے لیکن اس علاقے کو بھی اردن کی لیجین نے اپنے قبضے میں کرنے کی کوشش نہیں کی۔ مورس کا کتاب کے آخر میں یہ بھی کہنا ہے کہ اردن کی حد تک تو یہ بات اب مصدقہ ہے کہ اردن کی فوج اسرائیلی فوج سے لڑنے کے لئے فلسطین میں داخل نہیں ہوئی تھی لیکن باقی ملکوں عراق، مصر، شام کے ریکارڈز جب تک ڈی کلاسیفائی نہیں ہوتے دیگر ممالک کے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے۔

اردن کی فوج کی کمان کرنے والا گلب پاشا 1948ء کی جنگ کے بعد وہ اردن میں ٹھہرے ہوئے فلسطینیوں کے رائٹ آف ریٹرن یعنی اپنے گھروں میں واپسی کے حق میں مسلسل عالمی میڈیا میں آواز اٹھانے کی کوشش کرتا رہا۔ اس نے فلسطینی پناہ گزینوں کو سرحد پار کرنے پر شوٹ کرنے کے خلاف بھی آواز اٹھائی اور اسرائیلی فوج کی اردن کی سرزمین پر فلسطینی پناہ گزینوں کے گاؤں پر حملے اور مکینوں کو قتل کرنے پر بھی آواز اٹھائی۔

٭1967 کی جنگ

1967ء میں گلب کی جبری ریٹائرمنٹ کے بعد اسرائیل کو بالآخر موقع مل گیا، اس نے مصر، شام اور اردن پراچانک حملہ کر دیا۔ اس جنگ میں اسرائیل نے فلسطین کے100فیصد علاقے کے ساتھ ساتھ شام کی گولان کی پہاڑیوں اور مصر کے صحرائے سینا پر بھی قبضہ کر لیا۔ اس بار بھی بڑی تعداد میں فلسطینیوں کو سرحد پار دھکیلا گیا، دیگرکو غزہ اور مغربی کنارے میں دھکیل دیا گیا۔

یاد رہے، 1928ء میں کلوگ برائیڈن پیکٹ اور 1945 میں تشکیل دیے گئے’ اقوام متحدہ کے چارٹر ‘ کے آرٹیکل دو کے تحت اب کسی ملک پر طاقت کے ذریعے قبضہ کرنا بین الاقوامی قانون کے تحت غیر قانونی قرار پایا۔ اسرائیل نے فوری طور پر مشرقی یروشلم کو مغربی یروشلم کے ساتھ الحاق کرکے اسے ایک ہی میونسپلیٹی میں شامل کر لیا۔ یہ اس وقت کیا گیا جب اقوام متحدہ کا اجلاس نیویارک میں جاری تھا اور مقبوضہ علاقوں کے حوالے سے قرارداد پیش ہو رہی تھی۔

عالمی ادارہ اسرائیل کے خلاف قرارداد کے علاوہ کچھ نہ کر سکا لیکن ایک اہم فیصلہ کن بات یہ ہوئی کہ فلسطین کی سرزمین کے اس 22 فیصد حصے کو مقبوضہ علاقہ اور اسرائیل کے اس علاقے پر قبضے کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا۔ ان تینوں علاقوں میں اسرائیل نے صیہونی بستیاں بسانی شروع کیں لیکن بعد ازاں غزہ کے علاقے سے بستیاں ختم کر لیں، اگرچہ کنٹرول پوری طرح ختم نہیں کیا گیا۔

1993 ء میں اوسلو میں امن مذاکرات کا آغاز ہوا تو یاسرعرفات کے ساتھ ساتھ دنیا کو بھی یہ امید تھی کہ کم از کم 1967ء میں چھینا گیا فلسطین کا22 فیصد علاقہ واپس کر دیا جائے گا اور مقبوضہ علاقے سے بستیاں ختم کرکے ان کا کنٹرول فلسطینی ریاست کے حوالے کر دیا جائے گا لیکن ہوا یوں کہ مذاکرات کے دوران اسرائیل نے مشرقی یروشلم اور مغربی کنارے میں بستیوں کی تعمیر تیز کر دی۔

سن 2000 میں کیمپ ڈیوڈ میں اسرائیلی وزیر اعظم ایہود بارک نے یاسرعرفات کو مشرقی یروشلم کو بھول کر مغربی کنارے اور غزہ کے علاقے کے اسی فیصد رقبے پر فلسطینی ریاست کے قیام کی پیشکش کی، جو یاسرعرفات جیسا امن پسند لیڈر بھی قبول نہ کر سکا، اس لئے امریکا اور اسرائیل نے مذاکرات کی ناکامی کا الزام عرفات پر ہی لگایا لیکن سن2002 میں اسرائیل نے غزہ اور مغربی کنارے کی فلسطینی بستیوں کو اسرائیل کے باقی ماندہ علاقے سے الگ کرنے کے لئے ایک آہنی دیوار کی تعمیر شروع کر دی جس میں غزہ اور مغربی کنارے کے بیشتر حصے سے بھی فلسطینیوں کو محروم کر دیا گیا۔

اس وقت اس دیوار کے اندر جو فلسطینی محصور ہیں، ان کے پاس کل فلسطین کے رقبے کا دس فیصد سے بھی کم ہے اور یہ حصہ بھی مختلف خطوں میں تقسیم ہے، جس میں فلسطینی ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں جانے کے لئے، کبھی کبھی ہسپتال اور اسکول جانے کے لئے بھی اسرائیلی چیک پوسٹوں سے گزرنے کے پابند ہیں۔ صرف مغربی کنارے سے ملازمت کے لئے اسرائیل کے شہروں میں جانے والے 70 ہزار لوگوں کو روزانہ متعدد چیک پوسٹوں سے گزرنا پڑتا ہے۔

فلسطینی ٹوٹی پھوٹی اتھارٹی کو اپنے بحری، بری، اور فضائی راستوں کو استعمال کرنے اور اپنی تجارت، در آمد، برآمد خود کنٹرول کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ پچھلے 73سال میں، اسرائیل اس 10فیصد حصے میں بھی مکمل خود مختاری کے ساتھ فلسطینی ریاست کے قیام میں مسلسل رکاوٹ ڈالتا رہا ہے۔ ان سب حقائق کی معمولی سی معلومات رکھنے والا بھی یہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ اگر فلسطینیوں نے اقوام متحدہ کا ’ تقسیم فلسطین فارمولا‘ قبول کیا ہوتا تو آج فلسطینی اپنی ریاست کے مالک ہوتے۔

ایک ایسے وقت میں جب اسرائیل کے ان جرائم پر خود انصاف پسند یہودی شدیداحتجاج کر رہے ہیں، مسلم دنیا کے مذہبی اور سیکولر دانش وروں کے اسرائیل کی زبان بولنے پر صرف افسوس اور اذیت ہی نہیں تعجب بھی ہوتا ہے کہ ہمارے دانشور کس دنیا میں رہتے ہیں؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔