’’او جانے والے میں تیرے قربان خداحافظ‘‘ سید احمد شاہ سعید گیلانی

نوید جان  اتوار 13 جون 2021
انہوں نے پاکستانی فلموں کو بہت سے لازوال گیت دیئے

انہوں نے پاکستانی فلموں کو بہت سے لازوال گیت دیئے

اتنا بڑا نام لیکن اپنوں کے لیے بیگانہ، ان کے اپنے شہرکے باسی بھی ان کی عظمت سے بے خبر، شاید اس کی وجہ ان کی جانب سے خود کو خودنمائی اورنمود ونمائش سے کوسوں دوررکھنا یا ایک من موجی کی طرح اپنے شب و روز بسرکرنا ہے۔

جب پشاورسے تعلق رکھنے والے  نامورنغمہ نگار، شاعروادیب سید احمد شاہ سعید گیلانی رواں سال پانچ اپریل کی صبح اس دنیا سے کوچ کرگئے تو اکادکا اخبارات اور ٹی وی چینلز پر ان سے متعلق چھوٹی موٹی لیکن زیادہ تر نامکمل خبریں پڑھنے کوملیں۔

تاہم اتنا ضرور ہوا کہ کئی لوگوں کو پہلی مرتبہ علم ہوا کہ ایسی ایک شخصیت پشاورمیں مقیم تھیں جن کو نہ صرف پاکستان بلکہ بھارت میں بھی اپنے گیتوں، فلموں اورشاعری کی وجہ سے مقبولیت حاصل تھی، یہی نہیں بلکہ دونوں ممالک کے مشہورگائیکوں نے ان کے لکھے ہوئے سینکڑوں گیت بھی گائے۔

اسی طرح جب پاکستان فلم انڈسٹری کا سب سے مقبول فلم ’’بندش‘‘ کایہ  گیت:

سونا نہ چاندی نہ کوئی محل جان من تجھ کو میں دے سکوں گا

پھر بھی یہ وعدہ ہے تجھ سے تو جو کرے پیار مجھ سے

چھوٹا ساگھر تجھ کو دوں گا دکھ سکھ کا ساتھی بنوں گا

سنایا جاتا ہے تو یہ جان کر سب کی حیرت کی انتہا ہو جاتی ہے کہ اس کو لکھنے والے کا تعلق پشاور سے ہے اور یہ اتنی بڑی شخصیت تھیں۔ کم آمیزی کے باعث بہت کم لوگ ان کو جانتے اور پہچانتے تھے، یوں تو وہ دوستوں کے دوست اور یاروں  کے یار تھے لیکن افسوس کہ آخری سفر پر زیادہ تردوستوں نے ان کو بھلا دیا۔

سرزمین پشاورکے معززسادات گھرانے سے تعلق رکھنے والے نامورشاعر اور نغمہ نگار سید احمد شاہ سعید گیلانی 14 نومبر1941 کو پشاور شہرکے تاریخی علاقے چوک شادی پیرکے محلہ کوٹلہ فیل بانان کے کوچہ آغہ سید محمد شاہ  میں پیدا ہوئے۔ ان کے آباؤاجداد کا شجرہ نسب پشاورمیں مدفون سخی سید حسن بادشاہ عرف میراں سرکار، لاہورمیں مدفون شاہ محمد غوث اور مکلی میں مدفون عبداللہ شاہ صحابی سے جا ملتا ہے۔ سعید گیلانی کے والد سید امراللہ شاہ بھی نامی گرامی شاعر تھے، ’’وحشی‘‘ تخلص کرتے تھے، ان کے پردادا آغہ سید محمد شاہ بھی ہندکو، اردو اور فارسی کے نامورشاعر تھے، یہیں پرایک پورا محلہ ان کے داداکے نام سے موسوم ہے۔

سعید گیلانی نے ابتدائی تعلیم گورنمنٹ سکول محلہ سیٹھیان سے حاصل کی، ایف اے اسلامیہ کالج سے کیا،1965 میں ایڈورڈزکالج سے بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ زمانہ طالب علمی سے ان کی طبعیت شعرگوئی کی جانب مائل تھی۔ 1960ء میں گورنمنٹ کالج کیملپورمیں ایک مشاعرہ میں انہوں نے ایک غزل پڑھی جس پر انہیں انعام ملا۔ گوکہ سعید گیلانی کی مادری زبان ہندکو تھی تاہم ان کے ذہن کی آبیاری میں ان کے استاد، اردواور ہندکو کے معروف ادیب پروفیسر طہٰ خان کا بڑا ہاتھ تھا۔ شاعری میں انہوں نے معروف شاعر سید فارغ بخاری کے آگے زانوائے تلمذ تہہ کیا جس کے بعد ان کی شہرت میں اضافہ ہوتاگیا۔ انہوں نے ’’سعید‘‘ تخلص اختیارکیا، جس کے بعد ان کو باقاعدہ مشاعروں میں بلایاجانے لگا، ساتھ ہی ان کاکلام بھی ادبی جریدوں کی زینت بننے لگا۔

پشاور میں ان کی دوستی اپنے ہم عصروں سید سجاد ہمدانی، یونس قیاسی اور قاسم حسرت سے تھی۔ شہرکے علمی و ادبی حلقوں میں یہ چاروں اکٹھے شرکت کرتے، جس کے سبب انہیں ’’چارکے ٹولے‘‘ سے یادکیا جانے لگا۔ ان کی نشست و برخاست پشاورکے قصہ خوانی بازار میں واقع عصمت انونو ہوٹل اور خیبر بازار کے کیسینوکیفے میں رہتی۔ پندرہ برس کی مشق سخن کے بعد سجاد ہمدانی توکھاریاں شہرچلے گئے جہاں انہوں نے درس وتدریس کا پیشہ اختیار کیا اور بڑے اچھے افسانہ نگار ثابت ہوئے۔

قاسم حسرت شاعری کے ساتھ ساتھ پشاور کے ایک پرنٹنگ پریس سے بطور مشین آپریٹر وابستہ ہوگئے۔ یونس قیاسی ڈرامے اور اخبار میں کالم لکھنے لگے جب کہ سعید گیلانی  نے لاہورکا رخ کیا۔ سعید گیلانی 1970ء میں والدہ کے علاج کے لیے لاہور چلے گئے تو انہوں نے وہاں اردو اور پنجابی گیت لکھنے کاسلسلہ شروع کیا جوکئی دہائیوں تک چلتا رہا، اس دوران لاہور میں ان کا حلقہ دوستاں وسیع ہوتا چلا گیا، تاہم پاکستان فلم انڈسٹری کے خراب حالات اورذاتی وجوہات کے سبب وہ دوبارہ پشاورمیں اپنے پرانے محلے فیل بانان میں واپس آ گئے۔ یہاں آ کر انہوں نے ہندکو زبان میں شاعری اور نثر لکھنے کا آغاز کیا۔

خیبر پختون خوا کے معروف لکھاری ابراہیم اضیاء اپنی کتاب ’’پشاورکے فن کار‘‘ میں لکھتے ہیں کہ 1970ء میں وہ لاہورچلے گئے جہاں انہوں نے اردو اور پنجابی فلموں کے گیت لکھنے شروع کیے، ان کے پہلے ہی گیت نے انہیں بے پناہ مقبولیت بخشی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ فلمی دنیا کے افق پرچھاگئے۔1971ء میں انہوں نے فلم ساز، ہدایت کار اور اداکار رنگیلا کی فلم’’دل اوردنیا‘‘ کے لیے اپنا پہلا گیت لکھا،کمال احمد کی موسیقی میں اس گیت کو رونا لیلیٰ نے گایا، اس گیت کے بول تھے:

چمپا اور چنبیلی یہ کلیاں نئی نویلی

تحفہ پھولوں کا یہ انمول، لیتے جانا بابوجی بن مول

سعید گیلانی کی دوسری فلم’’دلہن ایک رات کی‘‘ تھی، اس فلم میں ان کے گیت ملکہ ترنم نورجہان نے گائے جو بے حد مقبول ہوئے۔

او جانے والے میں تیرے قربان خداحافظ

او میرے حسیں خوابوں کے مہمان خداحافظ

میرے جانان خدا حافظ

اس کے بعد وہ نامورفلمی ادارے شباب پروڈکشنزسے وابستہ ہوئے اوراس ادارے کی کئی فلموں ’’بہن بھائی‘‘، ’’آزمائش‘‘ ، ’’کبھی الوداع نہ کہنا‘‘ ، ’’آپ سے کیا پردہ‘‘ اور ’’ترانہ‘‘ وغیرہ کے گیت لکھے۔ فلم ’’بہن بھائی‘‘ کا یہ گیت بہت مشہورہوا۔

دوساتھی بچپن کے پیار کی ریت نبھائیں گے

چند دوسرے مشہور گیت یہ ہیں:

ہم نہ رہیں  گے لیکن ہم کو یاد کرے سارا زمانہ (آزمائش)

میرا پیار بھی تو میری زندگی بھی ہے تو (کبھی الوداع نہ کہنا)

تو میرے پیارکاگیت ہے میری آوازہے (آواز)

دیکھو رات ملن کی آئی لو بجنے لگی شہنائی (آپ سے کیا پردہ)

کٹ کٹ باجرہ میں کوٹھے اتے پانی آں (بنکاک کے چور)

چند چمکے دنیا دیکھے (طاقت کا طوفان)

اور فلم ’’ہانگ کانگ کے شعلے‘‘ کی یہ منقبت:

علی علی دم علی علی

ان گیتوں کے علاوہ ان کے دیگر بے شمار گیت مقبول ہوئے، خصوصاً فلم ’’بندش‘‘ میں روبن گھوش کی موسیقی میں اخلاق احمد کی آوازمیں یہ گیت بے حد مقبول ہوا۔

سونا نہ چاندی نہ کوئی محل جان من تجھ کو میں دے سکوں گا

پھر بھی یہ وعدہ ہے تجھ سے تو جو کرے پیار مجھ سے

چھوٹا سا گھر تجھ کو دوں گا دکھ سکھ کاساتھی بنوں گا

اردوگیتوں کے علاوہ پنجابی فلموں میں بھی انہوں نے بے شمار مقبول گیت لکھے، فلم ’’باوجی‘‘ کایہ گیت:

بے ایمانا تینوں میں کیویں سمجھاواں

جس دن تیراپیار بھلاواں شالامیں مرجاواں

کچھ دوسرے مشہور گیت اور ان کی فلموں کے نام یہ ہیں:

میں یوں ملوں تجھے تیرا لباس ہوجاؤں (نکاح)

فلم ’’جیوا‘‘ کا یہ سپر ہٹ گیت:

جانو سن ذرا نظریں تو ملا

آنکھوں میں بسالوں تجھے اپنابنالوں تجھے

آ میرے پاس آ آ آ

ملکہ ترنم نورجہاں کی زندگی کاآخری گیت بھی ان کے نوک قلم سے نکلا۔ فلم’’سخی بادشاہ‘‘ کا یہ گیت:

کی دم دا بھروسا یار دم آوے نہ آوے

چھڈ جھگڑے تے کریے پیار دم آوے نہ آوے

سعید گیلانی ایک طویل عرصے تک فلموں کے لیے گیت لکھتے رہے اس دوران انہوں نے تقریباً پانچ ہزار سے زائد گیت لکھے۔ انہوں نے جن موسیقاروں کے ساتھ کام کیا، ان میں اے حمید، کمال احمد، روبن گھوش، وجاہت عطرے، ذوالفقارعلی، ایم اشرف  اور ان کے بیٹے ایم ارشد، ناشاد کے بیٹے واجد ناشاد اوران کے پوتے نوید ناشاد اوردیگر شامل ہیں۔

1985ء میں سعید گیلانی نے شاہد میر کی فلم ’’ناراض‘‘کی کہانی بھی لکھی، اس فلم کے ہدایت کار جاوید فاضل اور موسیقار ایم اشرف تھے۔ اداکاروں میں ندیم، شبنم، فیصل، عارفہ اورطالش نمایاں تھے، اس فلم کے گیت بھی انہوں نے لکھے جو بے حد مقبول ہوئے۔

خواب پھر خواب ہیں خوابوں سے کرو پیار کبھی

کون جانے انہیں ملے یا نہ ملے

اسی فلم میں ملکہ ترنم نورجہاں کی آواز میں یہ پنجابی گیت:

مکھڑاگلاب دا دو نین میرے متوالے

جدو منوں دیکھ لیندے تھاں مردے کنوارے دل والے

سعید گیلانی نے فلم ’’ناراض‘‘ کی کہانی لکھنے پر نیشنل ایوارڈ بھی حاصل کیا۔ انہوں نے فلموں میں المیہ اورطربیہ ہرقسم کے گیت لکھے۔ انہیں اردو اور پنجابی زبانوں پر ملکہ حاصل تھا، ان کے لکھے ہوئے گیت عوام وخواص میں بے حد مقبول ہوئے۔ ان کے چند فلمی گیت انڈین گلوکاروں الکایاگنک، کویتا کرشنا مورتی، ادت نارائن اورکمارسانو نے گائے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے گیتوں کو میڈم نورجہاں، مہدی حسن، احمد رشدی، ناہید اختر، وارث بیگ، ناہید اختر، مہناز، سملیٰ آغا، اخلاق احمد، رونالیلیٰ اور دیگر نے گایا۔

فلم ’’تڑپ‘‘ میں واجد علی ناشاد کی موسیقی میں الکایاگنک کا یہ گیت:

دو ہونٹوںکی پیاس بجھا دو اب سجنا

پیار میں تجھ سے کرتی ہوں جتنا

میں جانوں یا رب سجنا

اسی فلم  میں کمار سانوکی آواز میں یہ گیت:

آپ سے تم ہوئے تم سے تو ہو گئے

ایک دوجے کی ہم آواز ہو گئے

انہوں نے پی ٹی وی لاہورکے لیے پنجابی اور اردو گیت اور پی ٹی وی پشاورکے لیے ہندکو اور اردوگیت لکھے۔ ان کی ہندکو شاعری کا مجموعہ ’’چوٹاں عشق دیاں‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ سعید گیلانی بڑے مرنجاں مرنج اورانتہائی نیک طبعیت انسان تھے۔ مرحوم سعید گیلانی کاایک بڑا کارنامہ ’’حرفی نامہ‘‘ ہے جو دسمبر 2018ء میں منظرعام پرآئی۔ ’’حرفی نامہ‘‘ گنداھارا ہندکو اکیڈمی کے تحت شائع ہوئی، یہ دراصل ہندکو زبان کے شاعر، ادیب اور محقق علی اویس خیال کی کتاب ’’ورثہ‘‘ کا منظوم  اردوترجمہ ہے۔

’’ورثہ‘‘ میں ہندکو زبان کے قدیم وجدید شعرا کا حرفیوں پر مشتمل کلام جمع کیاگیا تھا،اس میں1740ء سے لے کر 1993ء تک کے منتخب ہندکو شعرا کا غیرمطبوعہ کلام منظر عام پر لایا گیا،جس کا سعید گیلانی نے ہندکو سے اردو میں منظوم ترجمہ کیا۔

مرحوم سعید گیلانی کے صاحبزادے سید ارشد عباس نے بتایا اگرچہ والد صاحب کاحلقہ احباب کافی وسیع تھا اوران کی وفات کے بعد انہوں نے جان پہچان کے بعض لوگوں کو بروقت مطلع بھی کیا لیکن نمازہ جنازہ پر شعر و ادب کی دنیا سے تعلق رکھنے والے فقط تین چار لوگ ہی آسکے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ میرے والد نے اتناکام کیا لیکن حکومتی سطح پر ان کی پذیرائی نہ ہونا ان کے اور ان کے فن کے ساتھ زیادتی ہے۔ مرحوم سعید گیلانی کو جب جوانی میں شاعری سے شغف ہوا تو انہوں نے اپنے والد سید امراللہ شاہ جو خود بھی اپنے زمانے کے ایک جانے مانے شاعرتھے، سے ذکر کیا کہ وہ اپنی شاعری کی اصلاح لینا چاہتے ہیں، والد نے انہیں  فارغ بخاری  سے ملوا دیا۔ پشاورکے علاقے کریم پورہ میں اس وقت فارغ بخاری کی ڈسپنسری ہواکرتی تھی جہاں اکثر شعرا کا تانتا بندھا رہتا، جن میں احمد فراز، خاطرغزنوی، محسن احسان، اشرف بخاری ودیگرشامل تھے۔

سعید گیلانی کے حوالے سے لکھے گئے پی ایچ ڈی مقالے میں تاج مسیح نامی ایک سکالر نے مرحوم کی زبانی اس بات کو کچھ اس طرح لکھاہے: ’’میں شروع میں ان شعرا کو صرف سنتا تھا، پھر فارغ بخاری نے میری ایک غزل دیکھی اورکہا کہ اس زمین میں کل ایک اورغزل لکھ کر لانا، میںغزلیں لکھتا رہا، آٹھ دن بعد انہوں نے کچھ اشعارمنتخب کیے اورباقی کے بارے میں کہا کہ ان میں کمی ہے۔ دو ماہ تک میں ان سے اصلاح لیتا رہا اوران سے شاعری کے گر سیکھتا رہا۔‘‘

ان کی وفات کے بعد ان کی بیٹی نے بتایاکہ ان کے والدکی چارکتابیں ابھی بھی زیراشاعت ہیں البتہ کتابوں کی مکمل فہرست خاندان کے کسی فرد کومعلوم نہیں۔ عارضہ قلب، مرض الموت ثابت ہوا۔ اہل خانہ کے مطابق وہ اپنے دوجواں سال نواسوں کی ناگہانی موت کے بعد افسردہ رہنے لگے تھے، بیماریوں نے انہیں جکڑ لیا تھا اور وہ بمشکل چل پھرسکتے تھے۔

یہی وجہ تھی کہ ان کا دوستوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھناکم ہوگیا اور وہ مشاعروں کی محافل کے بجائے گھرکے ایک کونے میں زندگی گزارنے لگے۔ سید سعید گیلانی کی چار بیٹیاں اورایک بیٹا ہے۔ سعید گیلانی مرحوم کی وفات کے بعد ان کے کمرے سے بس چند پرانی تصویریں اورکتابیں ہی مل سکی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔