کورونا وبا نے پاک بھارت سرحدی علاقوں میں رہنے والوں کی زندگیاں بدل دیں

آصف محمود  پير 14 جون 2021
پاک بھارت سرحد کھلی تھی تو یہاں مسافروں کی وجہ سے کافی رونق رہتی تھی فوٹو: فائل

پاک بھارت سرحد کھلی تھی تو یہاں مسافروں کی وجہ سے کافی رونق رہتی تھی فوٹو: فائل

 لاہور: کوویڈ 19 نے 2 برسوں کے دوران لاہور کے واہگہ بارڈر پر کام کرنے والے مزدوروں اور قریبی دیہات کے لوگوں کی زندگیوں کو بدل دیا ہے۔

پاک بھارت سرحد بند ہونے سے بارڈر کی رونقیں بھی ماند پڑچکی ہیں جب کہ ڈھابے اور چائے کے ہوٹل بھی ویران پڑے ہیں، کئی مزدوروں نے گھروں کا چولہا جلانے کے لئے متبادل کام ٖڈھونڈ لیا ہے جب کہ بعض ایسے ہیں جو آج بھی اس امید پر ہرروز واہگہ بارڈر پہنچتے ہیں کہ شاید آج بارڈر کھل جائے اور انہیں کوئی کام مل جائے گا۔

42 سالہ محمد سلطان کا تعلق واہگہ بارڈر کے ایک قریبی گاؤں سے ہے، وہ اور ان کا چھوٹا بھائی گزشتہ 15 سال سے بارڈر پر بطور قلی کام کرتے رہے ہیں لیکن اب دونوں ملکوں کے مابین سرحد بند ہونے سے ان کا کام ختم ہوچکا ہے۔ محمد سلطان اب ویلڈنگ کا کام کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ دن بہت اچھے اور یادگار تھے، ہم لوگ صبح 9 بجے بارڈر پر پہنچ جاتے ،یہاں چائے پیتے اور گپ شپ شروع ہوجاتی، پھرجیسے ہی کوئی پاکستانی مسافر انڈیا جانے کے لئے یہاں پہنچتا یا پھر انڈیا سے کوئی مسافر یہاں آتا ہم خوش ہوجاتے کیونکہ ہماری روزی روٹی انہیں سے چلتی ہے۔ ہم ان کا سامان کسٹم اور امیگریشن سے کلیئرکروانے میں مدد کرتے ،پاکستانیوں کاسامان زیرو لائن پر بھارتی پانڈیوں کے سپرد کرتے جبکہ بھارتی مسافروں کا سامان یہاں ان کی گاڑی تک پہنچاتے۔

محمد سلطان کے مطابق ویسے توپانڈیوں کے لئے فی پھیرے کا سرکاری ریٹ طے شدہ ہے لیکن پاکستان اورانڈیا میں عموما طے شدہ ریٹ کی بجائے منہ مانگے پیسے وصول کئے جاتے ہیں۔ ہم لوگ روزانہ پندرہ سوسے دو ہزار روپے تک کمالیتے تھے۔

بارڈر پر کچھ ایسے لوگ بھی کام کرتے ہیں جو مسافروں کے لئے ٹرانسپورٹ کا انتظام کرتے اور پھر اپنا کمیشن لیتے ہیں لیکن اب ان کا کام بند ہوچکا ہے۔ 55 سالہ محمدرفیق کہتے ہیں جب بارڈر اوپن تھا مسافروں کی وجہ سے کافی رونق رہتی تھی، اب ان کا سامان اٹھانے کے ساتھ ساتھ حال احوال بھی پوچھ لیتے، دونوں ملکوں کے شہری اپنی اپنی حکومت کی برائی کرتے اور مہنگائی کا رونا روتے، بھارت سے جو نوجوان پہلی بار پاکستان آتے ان کی حیرانگی قابل دید ہوتی تھی۔ان کا اکثرسوال ہوتا کہ پاکستان میں کوئی خطرہ تو نہیں ہے، انہوں نے انڈین فلموں میں پاکستان کی جو تصویردیکھی تھی اب یہاں پہنچنے پراس کے برعکس نظر آتا تھا۔ وہ اب بھی روزانہ دعاکرتے ہیں کہ کورونا کی وباختم ہوجائے اوربارڈر پھر سے کھل جائیں۔

بارڈر سے چند فرلانگ کے فاصلے پر چائے کا ایک ہوٹل ہے جہاں اب اکا دکا گاہگ نظر آتے ہیں حالانکہ یہاں چائے پینے والوں کا رش ہوتا تھا۔ پھرچائے کے ساتھ ساتھ پاک بھارت تعلقات، سیاست سمیت تمام موضوعات پربحث ہوتی ، یہاں زیادہ ترڈرائیور اورمہمانوں کو لینے یا الوادع کرنے آنے والے شہری جمع ہوتے تھے۔ جب کہ بارڈرپر کام کرنے والے پانڈیوں کے لئے بھی یہاں کی چائے ایک خاص سوغات تھی لیکن اب گزشتہ دوسال سے یہاں کی رونق ماند پڑچکی ہے۔

چائے کی دکان کے مالک رمضان نے بتایا کہ پہلے ان کا ڈیڑھ سے دو من دودھ صرف چائے میں استعمال ہوتا تھا لیکن اب بمشکل 8 سے 10 لیٹردودھ استعمال ہوتاہے۔ وہ گزشتہ کئی برسوں سے یہ دکان چلارہے ہیں، انہیں امید ہے کہ ایک دن یہاں کی رونقیں پھر سے بحال ہوں گی،

واہگہ بارڈر کے قریبی دیہات سے تعلق رکھنے افرادکی بڑی تعدادکاروزگارکسی نہ کسی طریقے سے بارڈر سے ہی جڑا ہے۔ ان میں سے کئی لوگ تجارتی سامان کی لوڈنگ اور ان لوڈنگ کا کام کرتے ہیں جبکہ دیگر قلیوں اور ٹیکسی ڈرائیورکے طور پر کام کرتے ہیں۔

واہگہ بارڈر پراس تبدیلی میں کورونا کے ساتھ ساتھ بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیرکی خصوصی حیثیت ختم کئے جانے کے اقدام کا بھی بڑا کردارہے، بھارت کے اس عمل کی وجہ سے پاکستان دوٹوک جواب دے چکا ہے کہ جب تک بھارت کشمیرکی خصوصی حیثیت بحال نہیں کرتااس کے ساتھ مزاکرات ہوں گے نہ ہی تجارت بحال ہوسکتی ہے۔سمجھوتہ ایکسپریس اوردوستی بس کے ذریعے آنے جانے والے مسافر نئے کہانیاں، نئے واقعات اور امیدیں لے کر آتے جاتے تھے مگراب ان کہانیوں کے خوبصورت کردار اور رنگ کورونا وبا کی وجہ سے پھیکے پڑچکے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔