صوبہ پنجاب کا بجٹ

ایڈیٹوریل  بدھ 16 جون 2021
پنجاب حکومت کو عام آدمی کی مشکلات کو حل کرنے کی غرض سے اپنی ترجیحات طے کرنے اور ان پر عملدرآمد کی ضرورت ہے۔ (فوٹو، فائل)

پنجاب حکومت کو عام آدمی کی مشکلات کو حل کرنے کی غرض سے اپنی ترجیحات طے کرنے اور ان پر عملدرآمد کی ضرورت ہے۔ (فوٹو، فائل)

صوبہ پنجاب کا آیندہ مالی سال 22۔2021 کے لیے 2653 ارب روپے حجم کا بجٹ پیش کر دیا گیا ہے۔آیندہ مالی سال کے بجٹ میں محصولات کے لیے 405 ارب کا ہدف مقررکیا گیا ہے، جاری اخراجات کا تخمینہ 1428 ارب جب کہ ترقیاتی بجٹ میں 66 فیصد اضافہ تجویزکیا گیا اور ترقیاتی پروگرام کے لیے 560 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

صحت کے لیے مجموعی طورپر 369 ارب روپے اور تعلیم کے لیے 442 ارب روپے مختص کیے گئے جو گزشتہ سال کی نسبت تعلیم کے بجٹ سے 13 فیصد زائد ہے۔ جنوبی پنجاب کے لیے 189ارب روپے کے ترقیاتی فنڈز رکھنے کی تجویز ہے۔ تمام سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10فیصد اضافہ جب کہ صوبے میں مزدوروں کی کم سے کم اجرت 20 ہزار ماہانہ مقررکرنے کا اعلان کیا گیاہے۔

پنجاب آبادی کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے، لیکن اسی تناسب سے اس کے وسائل بہت کم اور مسائل زیادہ ہیں۔ حسب روایت صوبائی ترجمان اسے بہترین بجٹ قرار دے رہے ہیں، جب کہ اپوزیشن شدید تنقیدکا نشانہ بنا رہی ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب آفس نے مالی سال دوہزار بیس،اکیس کے اعدادوشمارکا موازنہ جاری کرتے ہوئے اخراجات میں بچت اورکفایت شعاری کا دعویٰ کیا ہے۔

مہنگائی ، بیروزگاری اورکاروبار کی خستہ حالی اور عالمی سطح پرکورونا وبا کے پھیلاؤ نے پنجابی عوام کے مصائب وآلام میں کئی گنا اضافہ کردیا ہے ، لاکھوں محنت کش جو خلیجی ریاستوں سمیت مغربی ممالک میں حصول روزگارکی غرض سے موجود تھے، وہ بے روزگار ہوکر وطن واپس آچکے ہیں ، ان کے قیمتی زرمبادلہ سے بلاشبہ ملکی معیشت کو استحکام ملتا تھا ، یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکومت پنجاب نے ان محنت کشوں کو روزگار کی فراہمی کے لیے کوئی لائحہ عمل مرتب کیا ہے تو اس کا جواب نفی میں ہے۔

گو پنجاب کے معاشی حالات میں قدرے بہتری آئی ہے لیکن صورتحال کو قطعی طور پر اطمینان بخش قرار نہیں دیا جاسکتا ۔بجٹ کو اعداد وشمارکا گورکھ دھندہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا ،جوکہ عام آدمی کی سمجھ سے بالاتر ہے ، البتہ ہمیں پنجاب حکومت کی ترجیحات اوراعلانات کا جائزہ لینا ہوگا جو عام آدمی کو ریلیف فراہم کرنے کا سبب بنے سکتے ہیں یا پھر ان مسائل کو نظر اندازکرنے کا سبب بنتے نظر آتے ہیں۔ یہ بات خوش آیند ہے کہ پنجاب حکومت نے صحت اور تعلیم کو ترجیحات میں شامل کر رکھا ہے جب کہ زرعی انکم ٹیکس میں اضافے کی تجویز زیر غور ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ صوبہ پنجاب ترقی کی طرف جا رہا ہے۔

تاہم زرعی شعبے پر مزید توجہ مرکوزکرنے کی ضرورت ہے۔ زراعت ایک ایسا شعبہ ہے جس میں سرمایہ کاری ملک کے دیگر شعبہ جات پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ ایک کسان جب گنے کی بہتر پیداوار لاتا ہے تو اس سے ملک میں چینی کی صنعت کو فروغ حاصل ہوتا ہے، گندم کی بہتر پیداوار گندم کی برآمدات پر اثر انداز ہوتی ہے جب کہ کپاس کی پیداوار سے ٹیکسٹائل کی صنعت پر اثر پڑتا ہے، بنیادی طور پر پنجاب ایک زرعی صوبہ ہے جہاں حکومت کی توجہ زراعت سے ہٹ کر سرمایہ کاری اور صنعتکاری کی طرف جاتی دکھائی دے رہی ہے۔

پنجاب کے کسان معاشی بدحالی اور غربت کا شکار ہیں جس پر توجہ دینے کی بے حد ضرورت ہے۔صنعتوں کا پہیہ جام ہونے اورکورونا وائرس کے باعث پنجاب میں ہر شعبے میں عوام عدم تحفظ اور معاشی پریشانیوں کا شکارہیں جنھیں ریلیف دیا جانا چاہیے۔ عوامی مسائل کا جب جائزہ لیا جاتا ہے تو ان میں پنجاب میں بجلی کی لوڈشیڈنگ بدترین شکل میں سامنے آئی ہے۔

حکومتی دعوے کے مطابق ملک میں ضرورت سے زیادہ بجلی پیدا ہوتی ہے۔ ضرورت سے زیادہ بجلی کو اسٹور نہیں کیا جا سکتا ، تو اس کے استعمال کے ذرایع تو پیدا کیے جا سکتے ہیں، بجلی کا بوسیدہ ترسیلی نظام بھی بجلی کے تسلسل میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، ہر ماہ بجلی کی قیمت میں اضافہ کیا جاتا ہے جب کہ فالتو بجلی ضایع ہو جاتی ہے۔ پنجاب کے باسیوں اور بالخصوص کسانوں کو نرخوں میں ریلیف کیوں نہیں دیا جا رہا، جب کہ شارٹ فال کی صورت میں ترجیحات کا تعین بھی نظر نہیں آتا ، گو پہلی ترجیح اسپتال اور گھریلو صارفین ہونی چاہیے۔صحت اور تعلیم کے شعبوں میں بجٹ اضافہ حکومت پنجاب کا قابل تحسین اقدام ہے ۔

پنجاب حکومت کو عام آدمی کی مشکلات کو حل کرنے کی غرض سے اپنی ترجیحات طے کرنے اور ان پر عملدرآمد کی ضرورت ہے ، ان سطور کے ذریعے ہم یہی توقع رکھتے ہیں کہ حکومت پنجاب ، معاشی بدحالی، غربت اور مصنوعی مہنگائی کے مسائل پر قابو پانے میں اپنا کردار ادا کرے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔