دنیا کی سب سے گہری عظیم بندرگاہ

ایم قادر خان  جمعـء 18 جون 2021

گوادر پاکستان کے انتہائی جنوب مغرب اور دنیا کے سب سے بڑے بحری تجارتی راستے پر واقع ہے یہ صوبہ بلوچستان کا خوبصورت شہر ہے جو اپنے شاندار محل وقوع اور اپنی جدید ترین بندرگاہ کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہے۔ گوادر، بلوچی زبان کے دو الفاظ سے بنا ہے ’’گوا‘‘ یعنی کھلی فضا اور ’’در‘‘ کا مطلب دروازہ ہے۔

ساٹھ کلو میٹر طویل ساحلی پٹی والے شہر میں اکیسویں صدی کی ضرورتوں سے آراستہ بندرگاہ کی تکمیل کا وقت قریب ہے۔ اس کی اہمیت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ آنے والے وقت میں گوادر نہ صرف پاکستان بلکہ چین ، تاجکستان ، روس اور دیگر ممالک کی پہلی تجارت گاہ ہوگا اور زیادہ دارو مدار اسی بندرگاہ پر ہوگا۔

گوادر اور اس کے گرد و نواح کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ یہ علاقہ وادی قلاچ اور وادی دشت بھی کہلاتا ہے۔ اس کا زیادہ رقبہ بے آباد اور بنجر ہے یہ مکران کی تاریخ میں ہمیشہ سے خاص اہمیت کا حامل رہا۔ ایک روایت کے مطابق حضرت داؤدؑ کے زمانے میں جب قحط پڑا تو وادیٔ سیستان سے بہت سے افراد کوچ کرکے وادیٔ مکران کے علاقے میں آئے۔ مکران کا یہ علاقہ ہزاروں سال ایران کا حصہ رہا۔ ایرانی بادشاہ کاؤس اور افراسیاب کے دور میں یہ ایران کی عمل داری میں تھا۔ 325 قبل از مسیح میں سکندر جب برصغیر سے واپس یونان جا رہا تھا تو اس نے یہ علاقہ دریافت کیا۔

اس کی بحری فوج کے سپہ سالار نے اپنے جہاز اس کی بندرگاہ پر لنگر اندازکیے، اہم سمندری راستہ پر واقع ہونے کی وجہ سے سکندر نے اس علاقے کو فتح کرکے اپنے ایک جنرل کو یہاں کا حکمران بنا دیا۔ 303 قبل از مسیح میں برصغیر کے حکمران چندر گپت نے حملہ کرکے یونانی جنرل سے یہ علاقہ چھین لیا اور اپنی حکومت میں شامل کرلیا۔ 711 میں مسلمان سپہ سالار محمد بن قاسم نے یہ علاقہ فتح کرلیا ، ہندوستان کے مغل بادشاہوں کے زمانے میں یہ علاقہ مغل سلطنت کا حصہ رہا۔ 1715 کے قریب مسقط کے حکمران اس علاقے میں تجارت کرنے لگے جن میں زیادہ تر ہاتھی دانت اور اس کی دیگر مصنوعات، گرم مسالہ جات اور افریقی غلاموں کی تجارت ہوتی تھی۔

1783 میں مسقط کے بادشاہ کا اپنے بھائی سعد سلطان سے جھگڑا ہو گیا جس پر سعد سلطان نے خان آف قلات میر نصیر خان کو خط لکھا جس میں اس نے یہاں آنے کی خواہش ظاہر کی۔ چنانچہ خان آف قلات نے نہ صرف سلطان کو یہاں آنے کو کہا بلکہ گوادر کا علاقہ اور وہاں کی آمدن بھی لامحدود وقت کے لیے سعد سلطان کے نام کردی۔

جس کے بعد سلطان نے گوادر میں آکر رہائش اختیار کرلی۔ 1797 میں سعد سلطان نے اپنی کھوئی ہوئی حکومت حاصل کرلی وہ مسقط واپس چلا گیا۔ 1804 میں سعد سلطان کی وفات کے بعد اس کے بیٹے حکمران بن گئے تو اس دور میں پھر ایک بار بلیدیوں نے قبضہ کرلیا جس پر مسقط سے فوجیوں نے آکر اس علاقے کو بلیدیوں سے وا گزار کرایا۔ اس واقعہ کے 34 سال بعد پہلی افغان جنگ میں برطانیہ کی توجہ اس علاقے پر ہوئی۔ 1861 میں برطانیہ کی فوج میجرگولڈ اسمتھ نے آکر اس علاقے پر قبضہ کرلیا۔

1823 میں گوادر نے اپنا ایک اسٹیٹ پولیٹیکل ایجنٹ مقررکیا۔ چنانچہ ہندوستان میں برطانیہ کی برٹش انڈیا ڈیلیگیشن کمپنی کے جہازوں نے گوادر اور پسنی کی بندرگاہوں کو استعمال کرنا شروع کردیا۔ 1823 میں ہی گوادر میں پہلا تار گھر یعنی ٹیلی گراف آفس قائم ہوا جب کہ پسنی میں بھی تارگھر بنایا گیا۔ 1894 میں گوادر میں پہلا ڈاک خانہ قائم ہوا۔ 1903 میں پسنی اور 1904 میں اورماڑا میں ڈاک گھر قائم ہوئے۔

1947 میں برصغیر کی تقسیم ہوئی تو بھارت اور پاکستان کے نام سے دو بڑی ریاستیں وجود میں آئیں تو گوادر اور اس کے گرد و نواح کے علاقے قلات میں شامل تھے۔ 1955 میں علاقے کو مکران کا ضلع بنا دیا۔ 1958 میں مسقط نے دس ملین ڈالر کے عوض گوادر اور اس کے گرد و نواح کا علاقہ واپس پاکستان کو دے دیا ، جس پر پاکستان کی حکومت نے گوادرکو تحصیل کا درجہ دے کر اسے ضلع مکران میں شامل کردیا۔

یکم جولائی 1970 کو جب ون یونٹ کا خاتمہ ہوا تو بلوچستان کو اس کی حیثیت دی گئی تو مکران کو ضلعی اختیار مل گیا۔1977 میں مکران کو ڈویژن کا درجہ دے دیا گیا اور یکم جولائی 1977 کو کیچ (تربت)، پنجگور اور گوادر تین اضلاع بنا دیے گئے۔

گوادر ایک چھوٹا سا شہر ہے جس کی آبادی ایک لاکھ کے قریب ہے۔ اس شہر کو سمندر نے تین طرف سے اپنے گھیرے میں لیا ہوا ہے اور ہر وقت یہاں سمندری ہوائیں چلتی رہتی ہیں ، جس کی وجہ سے یہ ایک خوبصورت اور دلکش منظر پیش کرتا ہے، یہ واقعی ہوا کا دروازہ ہے۔ ساحل سمندر کے علاوہ شہر کے اردگرد مٹی کی بلند و بالا چٹانیں موجود ہیں۔

اس شہر کے باسیوں کا زیادہ ترگزر بسر مچھلی کے شکار پر ہوتا ہے اور دیگر اقتصادی و معاشی ضروریات ہمسایہ ممالک ایران ، متحدہ عرب امارات اور عمان سے پوری ہوتی ہیں۔ 1954 میں جیولوجیکل سروے نے گوادر کو ڈیپ سی یونٹ کا مقام قرار دیا ہے۔ اس بندرگاہ پر عملی کام 2002 میں شروع ہوا یہ اہم منصوبہ 2007 میں مکمل ہوا، گوادر کی بندرگاہ دنیا کی سب سے گہری بندرگاہ ہے۔

14 نومبر 2016 میں گوادر پورٹ کا باقاعدہ افتتاح ہوا۔ یہ شہر پاکستان اور چین کا گیٹ وے بھی ہے۔ سی پیک حکومت پاکستان، چین دوستی کی ایک شاندار مثال ہے۔ سی پیک کے ذریعے سے گوادر سے لے کر چین کے شہر تک سڑکیں اور ریلوے کا نیٹ ورک بنایا جا رہا ہے۔

یہ پروجیکٹ پاکستان کو ترقی اور خوشحالی سے مالا مال کرے گا۔ گوادر شہر مستقبل میں ایک بین الاقوامی حیثیت اختیار کرے گا ، نہ صرف بلوچستان بلکہ پاکستان کا اقتصادی لحاظ سے ایک نہایت اہم شہر بن جائے گا۔

کاروباری حضرات کی سہولت کے لیے گوادر میں بزنس سینٹر تعمیرکیا گیا ہے جوکہ گوادر فری زون علاقے میں واقع ہے۔ یہ عمارت دفتر، رہائش، کیٹرنگ، تفریح اور سیکیورٹی کو مدنظر رکھتے ہوئے تعمیر کی گئی ہے۔ یہاں موجود ماڈل کی مدد سے گوادر میں مستقبل میں بننے والے پروجیکٹ کو دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ عمارت پانچ منزلہ ہے۔ گوادر میں عمانی دورکے قلعے عمارات آج بھی شہر کے مختلف حصوں میں ملتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔