بھارت سے تجارت کے رنگین غبارے

اسلم خان  پير 20 جنوری 2014
budha.goraya@yahoo.com

[email protected]

بھارت سے تجارت کی باسی کڑہی میں ابال آ رہا ہے۔ ہمارے وزیر مملکت برائے تجارت خرم دستگیر نئے خوش رنگ سندیسے لے کر آئے ہیں۔ واہگہ بارڈر تجارتی سرگرمیوں کے لیے 24 گھنٹے اور7دن کھلا رہے گا، بلاتعطل دن رات تجارت ہوا کرے گی۔ لیکن ہے کوئی جو یہ پوچھنے کی ہمت کرے‘ جناب والا! یہ تجارت کس چیز کی ہو گی‘ ایک ارب انسانوں کی بھارتی منڈی میں بیچنے کے لیے پاکستان کے پاس ہے کیا؟ بھارت سے تجارت کے سہانے خواب کی پاکستان کے لیے تعبیر کیا ہے جب کوئی صاحب دلیہ سوالات کرتا ہے تو اسے امن کا دشمن اور رجعت پسند قرار دے کر خاموش کرانے کی کوشش کی جاتی ہے، اصل حقائق‘ بے رحم اور تلخ حقائق کچھ یوں ہیں کہ بھارت پاکستان سے تجارت اپنی شرائط پر کرنا چاہتا ہے جس کے لیے گزشتہ دہائیوں میں انھوں نے بڑی مضبوط لابی بنائی ہے خاص طور پر کراچی اور لاہور کاایوان ہائے تجارت کے کرتا دھرتا تو والہانہ انداز میں اچھل اچھل کر یک طرفہ دوستی اور تجارت کے راگ الاپے جا رہے ہیں اور ہماری سرکار کسی قسم کے قومی اہداف طے کیے بغیر اس پر سر دھن رہی ہے، ویسے پاکستان کی بھارت کو برآمدات نا ہونے کے برابر ہیں۔ منڈی ہم ہیں وہ نہیں‘ صرف اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

بھارت ہم سے تجارت نہیں‘ کابل تک رسائی کے لیے راہداری کی سہولت چاہتا ہے، شاطر بھارتی نیتاؤں کی نظریں کابل ہی نہیں‘ دریائے آمو کے اس پار وسط ایشیا کی جادونگری پر جمی ہوئی ہیں جس کا خام مال‘ معدنیات اور توانائی ضروریات پوری کرنے کے لیے ایندھن تیزی سے بدلتے ہوئے ہندوستان سماج کی تمام صنعتی ضروریات پوری کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ بھارتی حکمت کار گزشتہ کئی دہائیوں نے راہداری کے حصول کے لیے ہمیں امیدوں اور آشاؤں کے خوش رنگ غباروں سے بہلانے اور ورغلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

جس وقت واہگہ سرحد پر دن رات لگاتار 24گھنٹے اور 7دن مسلسل تجارت کی خوشخبری سنائی جا رہی تھی، لائن آف کنٹرول پر کشمیر بس سروس کی بندش کے بعد تجارت بھی بند ہو چکی تھی کہ پاکستانی ٹرک ڈرائیور کی گرفتاری اور ایک ارب روپے مالیت کی ہیروئن کی اسمگلنگ کا الزام لگا کر بھارتی حکام ہماری ناک رگڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

لائن آف کنٹرول پر تجارت کی وجہ سے بھارتی مقبوضہ کشمیر سے تازہ اجناس اور پھلوں کی پاکستانی منڈیوں تک آسان رسائی نے لائن آف کنٹرول کے پار بسنے والے کسان کشمیریوں کی زندگیاں بدل کر رکھ دی ہیں جن کی اجناس کھیتوں میں گل سڑجاتی تھیں اور پھل باغات سے باہر نہیں جاپاتے تھے۔

یہ سودا ہمارے لیے بھی برا ثابت نہیں ہوا، ہماری منڈیوں میں پھلوں کی فراوانی نے قیمتوں میں توازن پیدا کردیاہے، اب تو طرفہ تماشا یہ ہے کہ شرقپور کا امرود اور سری نگر کا سیب ملتے جلتے یکساں نرخوں پر دستیاب ہے۔ بھارت سری نگر کو اپنے ریلوے نیٹ ورک سے ملانے کے لیے دشوار گزار ترین علاقوں میں سیکڑوں کلو میٹر ریلوے لائن بچھا رہا ہے جس کے بعد لائن آف کنٹرول پر ہونے والی تجارت بھی توازن میں آ جائے گی۔

پاکستان میں ایک موثر حلقہ آسان ویزے اور آزاد سرحد کے لیے زمین آسمان کے قلاب ملاتا رہتا ہے، خود ہمارے وزیراعظم نواز شریف بھی پاسپورٹ پر بین الاقوامی سرحد کے دو طرفہ آزادانہ آمدورفت کی خواہش ظاہر کر چکے ہیں جس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ خود بھارتی چالباز ہیں جو اپنے اہداف کے حصول کے لیے  1996 میں پاکستان کو ترجیحی پسندیدہ ملک (Most Favorite Nation) کا درجہ دے چکے ہیں لیکن پاکستانیوں کو ویزے کے حصول کے لیے جن ذلتوں سے گزرنا پڑتا ہے، اس کا ذکر سن کر منہ دوسری طرف پھیر لیتے ہیں۔

گزشتہ سال بھارت نے یک طرفہ بزرگ اور بچوں کے لیے سرحد پر Visa on Arriral کی سہولت کا آغاز کیا جس کا واحد مقصد پاکستان کے خلاف پراپیگنڈہ کرنا اور اپنی انسان دوستی اور بزرگوں کے احترام کا یقین دلانا تھا لیکن جب یہی بزرگ ویزے کے لیے اسلام آباد ہائی کمیشن سے رجوع کرتے ہیں تو پھر ان کی حالت زار پر رحم کھانے کے بجائے تمام قواعد و ضوابط سختی سے لاگو کر دیے جاتے ہیں، خاص طور پر بھارتی پنجاب کے ویزے کو ان بزرگوں کے لیے ناممکن بنا دیا گیا ہے۔

بھارت کے ساتھ ہمہ قسم کے تعلقات کی حکمت عملی وضح کرنے کے لیے حکومت کو زیادہ تردد کی ضرورت نہیں ہے۔ صدر مملکت ممنون حسین‘ میدان تجارت کے شناور رہے ہیں، بھارتی ذہنیت کو اس کی اتھاہ گہرائیوں تک ان سے بخوبی کون سمجھ  سکتا ہے جن کے خاندان نے تحریک آزادی کے بعد تین مرتبہ ہجرت کا اعزاز حاصل کیا، پہلے آگرہ سے حیدر آباد دکن‘ حیدر آباد دکن کے سقوط کے بعد آگرہ واپسی اور بعدازاں پاکستان منتقلی‘ اس لیے جناب نواز شریف کو بھارت سے معاملات کرنے سے پہلے صدر ممنون حسین سے مشورہ کرنا چاہیے۔ ویسے ہمارے پیارے ’شری‘ عبدالستار بھی اسلام آباد ہی میں ہوتے ہیں۔ ایک دہائی تک دہلی میں پاکستان کی نمایندگی کا اعزاز رکھنے والے عبدالستار‘ سیکریٹری خارجہ اور وزیر خارجہ بھی رہے ہیں۔ بزرگ دانشور اور سفارت کار نے تحریک پاکستان اور اپنی سفارت کاری کی نصف صدی پر معرکۃ الراء کتاب بھی لکھی ہے ان سے بھی مشورہ کیا جانا چاہیے۔

نا تمام خواہشات کے خوبصورت رنگین غباروں کے پیچھے ہلکان ہونے اور امیدوں کے دیپ جلانے کے بجائے ہمیں تمام معاملات کو قومی مفادات اور نفع و نقصان کی میزان پر پرکھنا ہو گا۔

اگر ایک بار ہم نے عاقب نا اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھارت کو راہداری کی سہولت فراہم کر دی تو پھر اسے واپس لینا ممکن نہیں رہے گا کہ کمان سے نکلا تیر اور منہ سے نکلی بات کبھی واپس نہیں آیا کرتی۔ جسے عالمی قوانین کے مطابق اعلان جنگ سمجھا جائے گا۔

احتیاط‘ احتیاط‘ پس احتیاط لازم ہے! صدر ممنون حسین اور جناب عبدالستار کی موجودگی میں بھارتی عزائم کو سمجھنے میں ہماری قیادت کو کسی قسم کی دشواری نہیں ہو سکتی لیکن ان بزرگوں سے کوئی عقل کی بات پوچھے بھی تو!

کہتے ہیں کہ دور کے ڈھول سہانے ہوتے ہیں، سرحد پار بجنے والے ڈھول تو کچھ زیادہ ہی سہانے لگ رہے ہیں۔ ایک ارب انسانوں کی منڈی سے تجارت کر کے خوشحالی کا خواب دکھانے والے بخوبی جانتے ہیں کہ پاکستان جیسا زرعی ملک پیاز اور ٹماٹر تو بھارت سے منگوا کر کھا رہا ہے۔ کون سی خوشحالی‘ کیسی تجارت‘ ناتمام خواہشات کے رنگین غباروں سے دل بہلانا اچھا مشغلہ ہے۔

حرف آخر یہ کہ زندہ دلان لاہور کو نوید ہو کہ دہلی کے مشہور و معروف حلوائی ہلدی رام حکومت پنجاب کے ٹاؤن شپ میں قائم کردہ ’’چٹ پٹ فوڈ مارکیٹ میں اپنی دکان کھول رہے ہیں۔ہلدی رام کی مصنوعات پہلے میگا اسٹوروں میں دبئی کے ذریعے منگوا کر بیچی جا رہی تھیں۔اب لاہوریوں کی لذت کام و دہن کے لیے ہلدی رام اپنی دکان کھول رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔