سرجری کے دوران ازخود تصاویر کھینچنے اور محفوظ کرنے والا بایوسینسر

ویب ڈیسک  ہفتہ 19 جون 2021
تصویر میں دل کے اوپر بایوسینسر دکھائی دے رہا ہے جو جراحی کے پورے عمل کی عکس بندی کرسکتا ہے،تصویر میں اسے خنزیر کے دل پر لگایا گیا ہے۔ فوٹو: پوردوا یونیورسٹی

تصویر میں دل کے اوپر بایوسینسر دکھائی دے رہا ہے جو جراحی کے پورے عمل کی عکس بندی کرسکتا ہے،تصویر میں اسے خنزیر کے دل پر لگایا گیا ہے۔ فوٹو: پوردوا یونیورسٹی

 نیویارک: وہ دن دور نہیں جب سرجن جراحی کے دوران اہم بافتوں (ٹشوز) اور اعضا کی ازخود تصاویر لے سکیں گے۔ اس اہم بایوسینسر کی ایجاد کا سرا پوردوا یونیورسٹی کے سر ہے جنہوں نے اسے تھری ڈی پرنٹر کی مدد سے تیار کیا ہے۔

پوردا یونیورسٹی کے پروفیسر چی ہوان لی اور ان کے ساتھیوں نے یہ بایوسینسر بنایا ہے جو تصاویر لے کر انہیں جمع کرتر رہتا ہے۔ اس سے ایک جانب تو پورے آپریشن کے عمل کی ریکارڈنگ ہوجاتی ہے جو بعد ازاں طلبا و طالبات کے لیے رہنما ہوسکتی ہے تو دوسری جانب اس سے طبی اغلاط کی نشاندہی بھی کی جاسکتی ہے۔

پروفیسر چی ہوان کہتے ہیں کہ یہ عمل دل کی سرجرری میں بہت مددگار ہوسکتا ہے کیونکہ وہاں کئی حساس گوشے ہوتے ہیں اور اس طرح دل کی دھڑکن کو نارمل رکھنے میں بھی رہنمائی مل سکتی ہے۔ اس سے قبل آپریشن کی عکس بندی کے جو نظام بنائے جاتے رہے ہیں وہ بہت مشکل ہوتے ہیں اور ریکارڈنگ کے دوران تصویر لینے کے عمل میں بھی رکاوٹ ہوتی ہے۔

یہ سینسر بہت دیرپا، باریک اور لچکدار ہے جو اعضا کی سطح کی تصویر لیتا رہتا ہے۔ بسا اوقات اس سے مرض کے اصل مقام کو جاننے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔  اسے خاص نرم بایوروشنائی (اِنک) سے چھاپا گیا ہے جو کسی اضافی گوند کے بغیر ہی اعضا سے چپک جاتا ہے لیکن اس میں کئی ایک بایوسینسر ہیں جو مختلف حصوں کی تصاویر لیتے رہتے ہیں۔

فی الحال اسے چوہوں اور خنزیروں کے آپریشن میں آزمایا گیا ہے۔ دوسری جانب یہ لحاظ سے انسانی جسم کے لیے قابلِ قبول بھی ہے۔ پہلے مرحلے میں اس سے دل کی دھڑکن کی خرابی کے مقام کا انکشاف بھی کیا گیا ہے جو ایک اہم پیش رفت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔