شین فرخ بھی رخصت ہوئیں

زاہدہ حنا  اتوار 20 جون 2021
zahedahina@gmail.com

[email protected]

70 کی دہائی شروع ہورہی تھی جب شین فرخ سے راہ و رسم ہوئی۔ یہ وہ دن تھے جب میں ’’ اخبارِ خواتین‘‘ سے رخصت ہوئی تھی اور شین اس ادارے میں داخل ہوئی تھیں۔

ریٹائرمنٹ تک وہ ’’ اخبارِ خواتین‘‘ میں ہی رہیں۔ ان دنوں وہ لاہور سے نئی نئی آئی تھیں اور وائی ڈبلیو سی اے میں ٹہری ہوئی تھیں۔ میں کئی مرتبہ وہاں ان سے ملنے گئی۔ مدھم بلب اداس راہداریاں اور تیکھے مزاج والی شین ، جن کا اصل نام شوکت فرخ تھا اور جسے انھوں نے ’’شین‘‘ فرخ کرلیا تھا۔ اس کے بعد وہ ہائوسنگ سوسائٹی میں منتقل ہوئیں۔ بھٹو صاحب کا دور آیا ، انھوں نے صحافیوں کے لیے جرنلسٹ سوسائٹی آبادکی، ایک پلاٹ شین کو بھی ملا۔

انھوں نے بہت مشقت اور بھاگ دوڑ کے بعد 400 گزکے اس پلاٹ پر اپنی مرضی کا ایک گھر تعمیرکرایا اور اب 17 جون 2021 کو اسی گھر سے رخصت ہوئیں۔ اوپرکی منزل تعمیر ہوچکی تھی۔ یوں تو اس میں بہت سے کرایہ دار رہے لیکن یہ شین کی خوش نصیبی کہ عطیہ دائود اور خدا بخش ابڑو دو برس سے اوپری منزل پر رہتے تھے اور ان کی اس طرح دیکھ ریکھ کرتے تھے کہ کیا اپنی اولاد کرے۔ ان ہی دونوں نے شین کو ان کے گھر سے رخصت کیا اور وہی ان کے ماتم دار اور غم گسار تھے۔

شین نے 12 مارچ 1938 کو ساہیوال میں آنکھ کھولی۔ 1959 میں پنجاب یونیورسٹی سے جغرافیہ میں ایم اے کیا ،کچھ دنوں پڑھایا۔ کراچی آئیں اور فری لانس جرنلزم کے بعد اخبارِ خواتین سے وابستہ ہوئیں اورآخر وقت تک رہیں۔ شین کو مصوری سے بے حد لگائو تھا۔ اردو میں شاید وہ واحد آرٹ کریٹک تھیں۔

چند برس پہلے ان کا ایک سوانحی ناول ’’مدار‘‘ سامنے آیا جو ہمارے صف اول کے مصور علی امام کے بارے میں ہے۔ مختلف موضوعات پر شین فرخ کی کئی کتابیں اس سے پہلے بھی شایع ہوچکی ہیں لیکن ’’مدار‘‘ کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔

علی امام کی زندگی کو انھوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور وہ جو چھپے ہوئے گوشے تھے انھیں دریافت کرنے کے لیے انھوں نے علی امام سے طویل باتیں کیں۔ کسی بھی ایسے ماحول میں جہاں ادیبوں ، مصوروں اور فنون لطیفہ کے مختلف شعبوں سے وابستہ افراد کی زندگیاں داؤ پر لگی ہوئی ہوں ، جہاں ان کے روزگار کا کوئی بندوبست نہ ہو وہاں مشہور مصور ماتیس کا یہ جملہ کتنی معنویت رکھتا ہے کہ ’’تخلیقی کام جرأت وحوصلے پر منحصر ہے۔‘‘

شین فرخ نے ملک کے نامور مصور علی امام کی زندگی کو جس طرح قلم بند کیا ، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کے ابتدائی دورکے مصوروں کے لیے زندگی کس قدرکٹھن اور خطرات سے پُر تھی۔ علی امام پرکفر کا فتویٰ لگتا ہے۔ ان کے بچوں کی تعلیم خطرے میں پڑجاتی ہے، ان کی جان کسی وقت بھی لی جاسکتی ہے، یہاں تک کہ وہ اور ان کی شریک حیات شہناز نہ چاہتے ہوئے بھی اس بات پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ اپنے بچوں کو ملک سے باہر بھیج دیں۔ وہ آرٹس کونسل کراچی کے پرنسپل ہیں ، اپنے طالب علموں کے لیے مرشدکی حیثیت رکھتے ہیں لیکن سرکار جانتی ہے کہ باحوصلہ لوگوں کوکس طرح توڑا جاسکتا ہے۔

علی امام کی چند ہفتوں پہلے شادی ہوئی ہے، ایسے میں روزگار کی کسی بھی شخص کے لیے کتنی اہمیت ہوسکتی ہے، ہم سب جانتے ہیں۔ ایک صبح علی امام اپنے آفس میں داخل ہوتے ہیں تو ایک لفافہ ان کا منتظر ہے۔ اس میں ایک خط ہے جس میں انھیں بتایا گیا ہے کہ ’’ وہ بہت مغرب زدہ ہیں، نئی نسل کو گمراہ کررہے ہیں، ضرورت سے زیادہ آزاد خیال ہیں، مشرقی اقدار سے ناواقف ہیں اور ہماری ثقافتی روایات کو برباد کررہے ہیں، اگر آپ اپنی صفائی میں کچھ کہنا چاہیں تو بورڈ کی میٹنگ طلب کی جاسکتی ہے۔‘‘

علی امام سکون سے یہ خط پڑھتے ہیں اور پھر پرنسپل کے عہدے سے استعفیٰ دے دیتے ہیں ، لیکن انھیں روزگارکے لیے کچھ توکرنا ہے۔ وہ کرائے کے مکان میں ایک گیلری قائم کرلیتے ہیں، عقبی حصے میں وہ ان کی بیوی شہناز اور دو بچے رہتے ہیں۔ یہ گیلری مصوروں اور مجسمہ سازوں کے لیے اپنی بانہیں کھولے ان کی منتظر ہے اور پھر یہ شہر کے متعدد فنکاروں کا ٹھکانہ بن جاتی ہے۔ یہیں ملک کے نامور مجسمہ ساز اور سنگ تراش شاہد سجاد کا بھی آنا جانا ہے۔ وہ دل برداشتہ ہوکرکہتے ہیں ’’ ہم جس ماحول اور جن حالات میں رہ رہے ہیں، وہ چاہے ہماری کُل زندگی ہو، ہمارے خواب ہوں یا ہماری توانائیاں ، وہ سب سلب ہوکر رہ گئی ہیں، ساکت ہوچکی ہیں۔‘‘

پاکستان پر مختلف آمریتوں میں جوکچھ گذری ، اس نے عام لوگوں پر اور فنکاروں پرکیا اثرات مرتب کیے، شین نے انھیں سلیقے سے اپنے بیانیے میں پُرو لیا انھوں نے لکھا’’ یہ لوگ جو اس چھت کے نیچے جمع ہیں ان کے چہروں پر بے یقینی لکھی ہے۔ ارے بابا، کچھ توکہو ، یہ کچھ کہتے ہی نہیں۔ جب بھٹوکو پھانسی ہوئی تھی۔ یہ لوگ غمزدہ تھے، دکھی تھے لیکن گزشتہ 8-7 برسوں میں یہ اپنا رد عمل ظاہر کرنے کا ڈھنگ بھول گئے۔ وہ بے حس اور خالی خالی نظر آتے ہیں۔ عینی (ناول کا ایک بنیادی کردار) آج بھی ،گزشتہ کئی برسوں کی طرح شاہراہ فیصل سے گزری تھی۔ اپنے دوستوں سے ملاقات اور نیو ایئر منانے کے لیے۔

گزشتہ برسوں میں شہر کی اس بڑی سڑک کے کنارے انسانی کھوپڑیاں سجی ہوتی تھیں جن کی پاسبانی چند باریش حضرات کرتے تھے۔ یہ وارننگ ہوتی کہ خبردار کوئی خوشی نہ منانا ، خبردار موسیقی کی دھن پر جھومنے نہ لگنا۔ ان تمام برسوں کے دوران کہیں سے کوئی سریلی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ صرف ہدایات ملتی تھیں۔ چادر اور چار دیواری کی حرمت بچاؤ۔ وی سی آر پر پابندی لگا دی گئی تھی کہ لوگ اس پر فحش فلمیں دیکھتے ہیں جو اخلاق پر برا اثر ڈالتی ہیں۔‘‘

علی امام نے ایک سرسبز و شاداب جنگل کے درمیان آنکھ کھولی ، باپ فاریسٹ افسر ، ڈارکی ڈار اڑتے ہوئے پرندے ، آزاد ہوائیں، کوبرا سانپ، شیر اور انسان ایک ہی مٹی پر چلتے ہوئے۔ علی امام باپ کی خواہش پر سائنس پڑھنے کے لیے راضی نہیں تھے، انھیں لکیریں، رنگ اور آسمان کی وسعت اپنی طرف بلاتی تھی۔ وہ گھر سے بمبئی کے لیے نکلے اورکٹھن وقت گزار کر ، انگلستان چلے گئے۔ وہ رہ نوردِ شوق تھے اور ان کا یہ شوق انھیں کہاں کہاں نہیں لے گیا۔ آخرکار وہ لوٹے اور لاہور اورکراچی میں مصوری کا پودا لگا کر اسے سینچنے لگے۔ انھوں نے محبتیں کیں ، بے وفائیاں کیں ، شادی کی ، بچوں کے باپ بنے لیکن ہر مرحلے پر انھیں سیاست دوراں کا سامنا کرنا پڑا۔ نوجوانی میں وہ کمیونسٹ پارٹی کے ممبر تھے ، جیل کاٹی اور یہ جانا کہ زنداں کی سلاخیں آزاد بندوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔

’’ مدار‘‘ ہمارے ایک ایسے فنکارکا قصہ روز و شب ہے جو اپنی ذہنی اور تخلیقی آزادی کے لیے تمام دنیاوی آسائشیں قربان کرسکتا تھا۔ وہ سمجھتا تھا کہ اسے اپنے تمام دوستوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہیے، شاید یہی خواہش تھی جس نے اسے، انڈس گیلری کی بنیاد رکھنے پر اکسایا۔ زیادہ سے زیادہ مصوروں کی بنائی ہوئی تصویریں ایک جگہ نظر آئیں۔ مل بیٹھنے کا ، مکالمے کا سامان ہو اور دائیں بازو کی سیاست جس طرح آزاد سوچ پر پہرا بٹھا رہی تھی ، اس کا کوئی توڑ کیا جاسکے۔

علی امام کی زندگی کو لفظوں کا لباس پہناتے ہوئے شین نے وہ معاملات بھی اٹھائے جو مغربی مصوری کی دنیا میں اپنا ایک الگ مقام رکھتے تھے۔ انھوں نے ڈاڈا ازم کے بارے میں لکھا کہ یہ دراصل جنگ کے خلاف احتجاج تھا۔ ڈاڈا ازم سے وابستہ ہونے والے مصوروں اور ادیبوں نے جرمن نسل پرستی اور جنگ زدگی کے خلاف شدید رد عمل کا اظہار کیا۔ علی امام بھی یہی موقف رکھتے تھے۔ وہ پاکستان آتے ہیں تو 1965ء کی پاک انڈیا جنگ ختم ہوچکی ہے۔ لوگوں کو تاسف ہے کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اس لیے کہ یہ جنگ دونوں طرف کے لوگوں کے لیے محض گھاٹے کا سودا تھی۔

’’مدار‘‘ کے بارے میں سلیمہ ہاشمی نے یہ کہہ کر دریا کو ایک کوزے میں بند کر دیا ہے کہ ’’ یہ تصنیف جس آرٹسٹ کی زندگی کی دستاویز ہے وہ یقینی طور پر مرکزی نقطہ ہے۔ لیکن وہ وسیع کینوس پر ایک موٹف کی مانند ہے۔ ان کے امیج کو موزیک کی مانند وضع کیا گیا ہے۔ ایک کشادہ تصویر میں سر تا سر رنگ و نقش کے دریا بہتے ہیں اور ہر موج اپنے جلو میں منطقی اور تاریخی مفہوم سمیٹے ہوئے ہے۔‘‘

شین فرخ ،کارِ فرہاد کی قائل تھیں لیکن وہ اپنے تیشے کا استعمال فرہاد کی طرح نہیں کرتیں، انھوں نے ’’مدار‘‘ ایسا ناول لکھا جو اردو میں اپنی مثال آپ ہے۔

شین نے ایک تنہا اور تلخ زندگی گزاری۔ ان کے دوست بہت تھے لیکن کچھ معاملات ایسے ہوتے ہیں جو دوسراہٹ کا مطالبہ کرتے ہیں۔ خاندان کے بعض افراد نے انھیں بہت صدمے پہنچائے لیکن وہ بھی اپنی جگہ پر جمی رہیں اور اب چلی گئی ہیں لیکن کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ مالی اعتبار سے کسی کی زیر بار احسان ہوئیں۔

انھوں نے خود نوشت بھی لکھی اور یورپ کے سیر سپاٹے بھی، ’’مدار‘‘ انھیں بہت پسند تھا۔ میں نے اس کے بارے میں لکھا تو بہت خوش ہوئیں۔ ان دنوں میری ان کی بول چال بند تھی۔ ہم دونوں ایک دوسرے سے لڑتے جھگڑے رہتے اور پھر من جاتے۔ یہی وجہ ہے کہ آج انھیں رخصت کرتے ہوئے میں نے ’’مدار‘‘ پر لکھا ہے۔ زندگی نے مہلت دی تو ’’ جینے کا جرم ‘‘ اور ’’ گھومتا پہیہ ‘‘ پر بھی کچھ لکھوں گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔