ویکسین کی عدم دستیابی

ایڈیٹوریل  پير 21 جون 2021
کورونا ویکسین کے حوالے سے منفی پروپیگنڈا بھی سوشل میڈیا پر جاری وساری ہے   فوٹو: فائل

کورونا ویکسین کے حوالے سے منفی پروپیگنڈا بھی سوشل میڈیا پر جاری وساری ہے فوٹو: فائل

کورونا ویکسین کی قلت کے باعث پنجاب اورسندھ میں ویکسی نیشن سینٹرز ایک روز کے لیے بند کردیے گئے ہیں ، عوام کو شدید مشکلات کا سامنا ہے، اگر سینٹرز میں ویکسین موجود نہیں ہے تو میسیج کے ذریعے عوام کو آگاہ کیا جائے تاکہ بروقت پتا چل سکے اور کسی دشواری کا انھیں سامنا نہ کرنے پڑے۔ اس ضمن میں حکومت کو چاہیے کہ ویکسی نیشن کے نظام کو مزید بہتر بنایا جائے۔

یہ امر خوش آیند ہے کہ پاکستان میں کورونا مریضوں کی شرح اموات میں کافی کمی واقع ہو رہی ہے، حکومتی سطح پر ویکسی نیشن کاجو عمل شروع کیا گیا تھا ، اس میں یکدم رکاوٹ پیدا ہونا ، ناقص حکمت عملی کی نشاندہی کررہا ہے۔ حکومت کی جانب سے کورونا ویکسین لگوانا لازمی قرار دیا گیا ہے، لیکن اب ویکسین ختم ہونے کی وجہ سے عوام حد درجہ پریشان ہیں۔

چندروز پیشتر این سی او سی کے سربراہ اسد عمر کہہ چکے ہیں کہ اب تک ویکسین 50 لاکھ سے زیادہ لوگوں کو لگائی جا چکی ہے، عوام ویکسین لگوائیں تاکہ ہم بندشیں مزید کم کر سکیں اور پاکستان کی ترقی کا سفر تیز تر ہو اور عوام اپنی زندگی آزادی کے ساتھ کورونا کے خوف کے بغیر گزار سکیں۔

وفاقی وزیر کی خواہش کا احترام اپنی جگہ لیکن درحقیقت ہم کورونا کی ہلاکت خیزی سے اپنے عوام کو بچانے کے لیے دیرپا منصوبہ بندی کرنے میں ناکام نظر آرہے ہیں، آج ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں کورونا تباہی مچا رہا ہے، وہاں سے جو تفصیلات سامنے آ رہی ہیں وہ ہمارے لیے الارمنگ ہونی چاہیے، جب کہ افغانستان میں بھی کورونا وائرس کی لہر سراٹھا رہی ہے۔

ان سطور کے ذریعے ہم ایک اور انتہائی اہم مسئلے کی جانب حکومت کی توجہ مبذول کروانا چاہتے ہیں کہ ، فائزر ویکسین حج پر جانے والے افراد ، ورک ویزہ ہولڈراور بیرون ممالک تعلیم کی غرض سے جانے والے طالب علموں کو لگوانا ضروری ہے ، لیکن صورتحال یہ ہے کہ پنجاب میں فائزر ویکسین دستیاب نہیں ہے، جس کی وجہ سے عوام اور طالب علموں کو شدید ترین مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہاہے ، اسے ہم ایک قومی نقصان قرار دے سکتے ہیں ۔

وفاقی حکومت سے ان سطور کی ذریعے درخواست ہے کہ وہ حجاج ، ورک ویزہ ہولڈرمحنت کشوں اور طالب عملوں کے لیے فائزر ویکسین کی فراہمی کو ہنگامی اورجنگی بنیادوں پر یقینی بنائے۔ دوسری جانب حکومت کے مطابق پندرہ لاکھ ویکسین کی کھیپ پہنچی رہی ہے جب کہ اگلے دس روز میںمزید پچاس لاکھ ویکسین کی خوراکیں پہنچ جائیں گی ۔

پاکستان میں کورونا کی تیسری لہر خطرناک ثابت ہوئی ہے، پہلی اور دوسری لہر میں ہمارے کم آبادی والے علاقے اور گاؤں دیہات محفوظ تھے مگر اب کورونا وائرس گاؤں دیہات تک بھی پہنچ چکا ہے، تاہم گاؤں دیہات کے لوگ اسے سنجیدہ لینے کے لیے تیار ہیں اور نہ ہی کورونا ٹیسٹ کروا رہے ہیں، اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں کورونا کیسز کی جو تعداد بتائی جا رہی ہے اصل تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہے۔

طبی ماہرین کا ماننا ہے کہ اب زندگی پہلے جیسی نہیں رہے گی، کیونکہ کورونا جلد ختم ہونے والا نہیں ہے، آیندہ کی زندگی کورونا کے ساتھ ہی گزارنی ہوگی، ایسا ممکن نہیں ہے کہ طویل عرصہ تک بازار اور کاروبار کو بند رکھ کر لوگوں کو ایس او پیز پر عمل کرایا جا سکے، پاکستان جیسا ترقی پذیر ملک اس کا متحمل نہیں ہو سکتا، عوام کو طویل عرصہ تک گھروں میں بند رکھنا بھی مشکل ہے، لے دیکر ویکسین کا راستہ ہی باقی بچتا ہے سو ہمیں اس طرف سنجیدگی کے ساتھ سوچ کر اس کا دیرپا حل نکالنا ہوگا، جن ممالک نے اپنے شہریوں کو ویکسین لگانے کا عمل جلدی سے مکمل کیا ہے وہاں پر کورونا مثبت کیسز کی شرح نہایت کم ہے۔

تاہم پاکستان اپنے شہریوں کو آبادی کے لحاظ سے ویکسین فراہم کرنے میں خطے کے دیگر ممالک کی نسبت بہت پیچھے ہے۔خبر کے مطابق ویکسین کی ایک سپلائی 20 جون تک آ رہی ہے جس کے نتیجے میں ویکسین کی موجودہ کمی کو پیر یعنی 21 جون تک قابو کر لیا جائے گا، آنے والی اس کھیپ سے 12 سے 13 لاکھ تک کی آبادی کو ویکسین لگائی جا سکے گی۔

اس سے حکومت کو موجودہ کمی کو پوراکرنے میں مدد ملے گی اور جون کے اواخر اور جولائی کے وسط تک کافی لوگوں کو ویکسین لگائی جا سکے گی۔اس کے علاوہ پاکستان نے تقریباً ایک ارب روپے کی اضافی ویکسین مختلف ممالک سے منگوانے کا بھی معاہدہ کیا ہے۔ ان میں سائنو فارم، سائنو ویک، کین سائنو، فائزر اور سپوتنک شامل ہیں اور یہ ویکسین رواں ماہ جون کے آخری دس دن میں پاکستان پہنچنا شروع ہو جائیں گی۔ حکومتی دعوے بظاہر خوش کن ہیں ، لیکن زمینی حقائق کی روشن میں صورتحال کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے ۔

اب تک پاکستان میں سرکاری سطح پر ویکسین کی پچاس لاکھ سے زائد خوراکیں پہنچی ہیں جن میں سے 20لاکھ ڈوزز چین کی جانب سے عطیہ کی گئی ہیں اور 25لاکھ خوراکیں حکومت کی جانب سے خریدی گئی ہیں، 22کروڑ آبادی کی ضرورت کو سامنے رکھیں تو یہ بہت کم ہیں۔ وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر کے مطابق حکومت کا ہدف ہے کہ وہ ملک میں اٹھارہ سال سے زیادہ عمر کے افراد کو ویکسین فراہم کر سکے، یہ دس کروڑ کے قریب تعداد بنتی ہے جس رفتار سے شہریوں کو ویکسین کی ڈوز دی جارہی ہے اگر صورتحال ایسے ہی رہی تو ویکسین لگانے کا عمل 2023تک جاسکتا ہے۔

امریکا اور یورپی ممالک اپنے شہریوں کو ویکسین لگانے کا ہدف 2021 میں پورا کر لیں گے جب کہ بھارت ڈیڑھ ارب آبادی کا ملک ہونے کے باوجود 2022میں یہ ہدف پورا کرے گا، خطے کے دیگر ممالک کے حساب سے دیکھا جائے تو پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوگا جو تاخیر سے  ویکسین لگانے کا ہدف پورا کریں گے، اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت کی طرف سے شہریوں کو فوری اور ہنگامی بنیادوں پر ویکسین لگانے کی کوئی عملی شکل دکھائی نہیں دیتی، حکومت پرامیدہے کہ عالمی ادارہ صحت کی جانب سے ترقی پذیر ممالک کے لیے ویکسین فراہمی کے کوویکس پروگرام کے تحت پاکستان کو پہلے مرحلے میں 30جون تک ایک کروڑ چالیس لاکھ کے قریب ویکسین کی خوراکیں مل جائیں گی۔ یہ اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ پاکستان میں عوام کی اکثریت کو ویکسین کے لیے طویل عرصہ تک اپنی باری کا انتظار کرنا پڑے گا۔

ایسے حالات میں حکومتی وزراء کی طرف سے اگر یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ اگلے چند ماہ میں پانچ کروڑ آبادی کو ویکسین لگانے کا ہدف پورا کر لیں گے تو عقل اسے ماننے کے لیے تیار نہیں، جب کہ وفاقی وزیر کی جانب سے ایک اجلاس میں یہ بھی کہا گیا کہ ’’ ویکسین کی فکر نہ کریں ، ویکسین لگوانے کے بارے میں سوچیں‘‘جب کہ دوسری جانب وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کورونا ویکسین نہ لگوانے والے سرکاری ملازمین کی تنخواہیں روکنے کی ہدایت جاری کرچکے ہیں۔

سندھ حکومت نے ایک کروڑ اسی لاکھ افراد کو ویکسین لگانے کا ہدف طے کیا اور ہر روز دو لاکھ افراد کو ویکسین لگانے کے لیے مختلف اضلاع میں 75000 ڈوزز لگانے کا ہدف طے کیا گیا۔کراچی میں ویکسین لگانے کا ہدف چالیس ہزار سے شروع ہوا تھا اور جب یہ ہدف ایک لاکھ دس ہزار تک پہنچا تو ویکسین کی کمی واقع ہو گئی۔اسی ہدف میں مختلف ڈویژن، ٹریڈ پارٹنر اور ان کمپنیوں کو بھی شامل کیا گیا جہاں ملازمت پر مامور افراد کو ویکسین لگانا ضروری تھی۔

پاکستان میں بہت سارے افراد سمجھتے ہیں کہ کورونا ویکسین مرد حضرات کی تولیدی صحت ختم کرے گی اور اس میں فائیو جی ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا ہے، تاہم درحقیقت ایسا کچھ بھی نہیں۔ ماہرین صحت، حکومتی عہدیداروں اور مذہبی رہنماؤں نے کورونا ویکسین سے متعلق لوگوں میں پائے جانے والے ایسے خطرناک خیالات اور سازشوں سے نمٹنے کے لیے بر وقت حکمت عملی بنانے کی ضرورت پر زور دیا ہے، یہاں تک اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی کورونا ویکسین سے متعلق پھیلنے والی افواہوں کو غلط اور مغربی سازش قرار دیا ہے۔

ہم ان سطور کے ذریعے متعدد بار پہلے بھی یہ عرض کرچکے ہیں کہ کورونا ویکسین کے حوالے سے جو منفی پروپیگنڈا سوشل میڈیا پر جاری وساری ہے ، اس کی روک تھام کے لیے حکومت راست اقدام کرے تاکہ عوام کو گمراہی سے بچایا جاسکے ۔

ایمنسٹی کے مطابق 70 غریب ممالک اگلے سال تک اپنے 10 میں سے ایک شہری کو ویکسین فراہم کرپائیں گے،جب کہ امریکی ہیلتھ انسٹی ٹیوٹ نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ جنوبی ایشیاء میںکورونا کیسز میں غیرمعمولی اضافے کے نتیجے میں مئی کے وسط تک عالمی سطح پر ایک دن میں وائرس کا شکار افراد کی تعداد ڈیڑھ کروڑ تک پہنچ سکتی ہے۔

پرائیویٹ سیکٹر میں اگرچہ ویکسین لگوانے کی اجازت دی گئی ہے، تاہم اس کی قیمت زیادہ ہونے کے باعث عام شہری افورڈ نہیں کر سکتا ہے، اگر ویکسین کی عام دستیابی اور قیمت کنٹرول کی جاتی تو شاید کروڑوں کی تعداد میں لوگ اپنے خرچے پر ہی ویکسین لگوا لیتے۔ کورونا ویکسین کی عام دستیابی یقینی بنانا ہی مسئلے کا حل ہے اس ضمن میں جس قدر تاخیر کی جائے گی تباہی کا باعث بنے گی،لہٰذا حکومت پر بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ویکسین کی قلت پر فوری طور پر قابو پائے اور وافر مقدار میں کورونا ویکسین کو درآمد کرے تاکہ پاکستانیوں کی جانیں بچائی جاسکیں اور معمولات زندگی دوبارہ بحال ہوسکیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔