کوچۂ سخن

عارف عزیز  پير 21 جون 2021
 فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

غزل
اک دعا ہے جو مرے سر پہ تنی رہتی ہے
ورنہ ہر وقت کہاں چھائوں گھنی رہتی ہے
پیاس لگتی ہے تو اصغر کا خیال آتا ہے
دل میں پیوست وہ نیزے کی انی رہتی ہے
مجھ کو زنجیر بپا رکھتے ہیں حالات مرے
اور ہمراہ غریب الوطنی رہتی ہے
کارگر اب نہیں ہوتی ہے دکھاوے کی ہنسی
وہ اداسی ہے کہ بس جاں پہ بنی رہتی ہے
ہار جاتی ہے یہاں امن پسندی میری
ذہن اور دل میں بہر وقت ٹھنی رہتی ہے
الجھے رہتے ہیں کئی خار مرے دامن سے
اور موضوعِ سخن گل بدنی رہتی ہے
راستے عشق کے آسان نہیں ہیں جاذبؔ
پیش ِ فرہاد سدا کوہ کنی رہتی ہے
(اکرم جاذب۔ منڈی بہائُ الدّین)

۔۔۔
غزل
ہم خون کے دریا میں بھی خوں ڈھونڈ رہے
مدت سے یہی کارِ جنوں ڈھونڈ رہے تھے
گزرے ہیں گلی سے ابھی دو تین مسافر
جو شہرِ خراباں میں سکوں ڈھونڈ رہے تھے
مر مر پہ جو چلتے تھے کسی اور نگر میں
وہ آ کے یہاں زاد و زبوں ڈھونڈ رہے تھے
جو لوگ اوائل میں سہارا تھے جہاں کا
وہ لوگ بڑھاپے میں ستوں ڈھونڈ رہے تھے
کل شب میں نے گلیوں میں یہ دیکھے تھے مناظر
خاموش طبع شہری فسوں ڈھونڈرہے تھے
(اسد رضا سحر۔ احمد پور سیال)

۔۔۔
غزل
گاہے یہ توجہ، یہ کرم کس کے لیے ہیں
اور گاہے تغافل کے ستم کس کے لیے ہیں
ہنگامِ شب و روز میں الجھے ہوئے لوگو
یہ عیش و طرب رنج و الم کس کے لیے ہیں
لشکر تو کسی جنگ پہ آمادہ نہیں ہیں
ہاتھوں میں مگر تیغ و علم کس کے لیے ہیں
ہم پر بھی کبھی کھول کوئی مقصدِہستی
ہم کو بھی بتا دوست کہ ہم کس کے لیے ہیں
جب تجھ کو بچھڑنے کا کوئی دکھ بھی نہیں ہے
اے دوست پھر آنکھیں تری نم کس کے لیے ہیں
وہ کون ہے جو لے گا ترے گال کا بوسہ
آخر یہ تری زلف کے خم کس کے لیے ہیں
(مزمل بانڈے ۔ وادی نیلم، کشمیر)

۔۔۔
غزل
ہمارے خواب میں جب دل کیا وہ آئے گئے
اب اس سے بڑھ کے نہیں رابطے بڑھائے گئے
انہی کے دل میں سکونت رہی سدا اپنی
ہم ان کے ہجر میں ہجرت زدہ نہ پائے گئے
یہ گھر کسی کی زیارت سے رہ گیا محروم
امیدِ خام پہ دیوار و در سجائے گئے
تمھاری قربتیں جھولی میں آ گریں اک دن
دعا کے واسطے جب ہاتھ تھے اٹھائے گئے
بس ایک لمحۂ پرکیف تھا کہ جس کے لیے
نہ جانے کتنے مہ و سال تھے گنوائے گئے
دکھائے اُس کی محبت نے یہ حسیں منظر
ستارے توڑ کے اسما ؔ زمیں پہ لائے گئے
(اسما ہادیہ۔ لاہور)

۔۔۔
غزل
چل پڑی کیسی ہوا، آپ نہیں سمجھیں گے
کون ہے کس کا خدا؟آپ نہیں سمجھیں گے
میں سمجھتا تھا ،سمجھتا ہوں سبھی غم اس کے
پھر مجھے اس نے کہا،’’آپ نہیں سمجھیں گے‘‘
بے سکونی میں اداسی کا سمندر مل کر
دل مرا کیسے بنا،آپ نہیں سمجھیں گے
آپ نے چھوڑ دیا،کیسے سمجھ سکتے ہیں!
آپ نے چھوڑ دیا،آپ نہیں سمجھیں گے
ایک آواز نے تحریک اسے دینی ہے
خامشی دے گی صدا، آپ نہیں سمجھیں گے
کس طریقے سے محبت میں ملا ہے یہ کمال
یہ سفر کیسے ہوا،آپ نہیں سمجھیں گے
(عاجزکمال رانا۔ خوشاب)

۔۔۔
غزل
یہ آئینے سے بھی حل مسئلہ نہیں ہوتا
کہ میرا خود سے کبھی سامنا نہیں ہوتا
پسِ افق کی سناتا ہوں اس لیے باتیں
بس آنکھ پر ہی مرا اکتفا نہیں ہوتا
تمام وقت ضمانت نہیںکُھلوں تم پر
کبھی کبھی تو میں خود پر بھی وا نہیں ہوتا
کروں صداؤں کی تشریح دوستا کیسے
کہ مجھ سے چپ کا ابھی ترجمہ نہیں ہوتا
ہے اور جس کو ملیں حسبِ آرزو خوشیاں
مجھے تو حسبِ طلب غم عطا نہیں ہوتا
بغیر اذن مکانِ بدن میں آیا کرو
یہاں پہ کوئی بھی میرے سوا نہیں ہوتا
کسی کا چھوڑا اٹھانا نہیں مری فطرت
یونہی تو میرا تخیل جدا نہیں ہوتا
(عزم الحسنین عزمی۔ ڈوڈے گجرات)

۔۔۔
غزل
اے خالقِ جہان یہ کیا بن کے آگئی؟
مخلوق ہم پہ تیری، خدا بن کے آگئی
بہتر ہوئے شکستہ بدن کیا شفا کے بعد
وہ یادِ خوش جمال وبا بن کے آگئی
جلنے لگی تھی شمعِ محبت، یہ کیا ہوا
شب کیوں ہمارے بیچ ہَوا بن کے آگئی!
کالا لباس سب نے ہے پہنا ہوا مگر
دیکھو وہ باقیوں سے جدا بن کے آگئی
ہم جب گھٹن سے مرنے لگے تھے تب آئی وہ
بولی کہ لو میں آب و ہوا بن کے آگئی
کچھ مصرعے پھر رہے تھے مرے دل میں دربدر
پھر اک غزل کہیں سے عطا بن کے آگئی
جس کے سبب علیل تھے مہدی، وہ ایک روز
ہاتھوں میں پھول تھامے، دوا بن کے آگئی!
(شہزاد مہدی۔ اسکردو)

۔۔۔
غزل
ھُو کا عالم طاری ہے، سرشاری ہے
دنیا سے بیزاری ہے ،سرشاری ہے
حضرت جی کی صحبت سے اورنسبت سے
عشق مسلسل جاری ہے، سرشاری ہے
عشق ملا آسانی میں، سلطانی میں
ہر جانب دشواری ہے، سرشاری ہے
خوشبو بستی ہے سانسوں میں، لہجوں میں
جگہ جگہ گُلکاری ہے، سرشاری ہے
فیض ملا سرکاروں سے سب یاروں سے
شعروں میں تہ داری ہے ،سرشاری ہے
ہر جانب زنجیریں ہیں، زنجیریں ہیں
بس اِک گریہ زاری ہے، سرشاری ہے
(اسد عباس خان ۔فتح پور پرٹی)

۔۔۔
غزل
نوکِ سناں پہ علم و ہنر بولتا رہا
دھڑ سے الگ ہوا بھی تو سر بولتا رہا
اک عمر تیری چاپ کو ترسے ہیں کان بھی
اک عمر تیرے نام پہ گھر بولتا رہا
اک دن میں بازیاب ہوا اپنی قید سے
آسیب میرے منہ پہ مگر بولتا رہا
وہ شخص میری آنکھ کی بینائی لے گیا
جس کو میں اپنا نورِ نظر بولتا رہا
پنچھی شکاریوں کا غضب جھیلتے رہے
سائے کے ساتھ ساتھ شجر بولتا رہا
مجھ کو پھر اپنی دردِ اذاں روکنی پڑی
وہ میرے ساتھ وقتِ سحر بولتا رہا
کاٹوں گا میں زبان خود اس بد زبان کی
ساجد میں اپنے حق میں اگر بولتا رہا
(ساجد رضا خان۔اسلام والا ،جھنگ)

۔۔۔
غزل
تیرگی ہی تیرگی ہے، روشنی درکار ہے
اس جہاں کو اب سحر کی آگہی درکار ہے
حسن ِشوخ و شنگ سے ہم کو کوئی مطلب ہی نہیں
ہم فقیروں کو تمہاری سادگی درکار ہے
اس دلِ بیمار کی حالت سے اندازہ ہوا
اب اسے جینے کی خاطر زندگی درکار ہے
دور شہروں سے نئی آباد ہیں کیوں بستیاں
جانتا ہوں اب بشر کو خامشی درکار ہے
دل سے نفرت کی عمارت کو گرانے کے لیے
اک محبت کرنے والا آدمی درکار ہے
ہر طرف تاریکیاں ہیں ہر طرف ہُو کا سماں
غم ہی غم ہے زندگی میں اک خوشی درکار ہے
اس میں ساگرؔ دل کی باتیں دل سے کرنے کے لیے
زندگی بھر بس ہمیں اب شاعری درکار ہے
(صدام ساگر۔ گوجرانوالہ)

۔۔۔
غزل
مرے دماغ میں پستی سے خوش گمانی کیوں
ہوں خاک زاد مگر خواب آسمانی کیوں
اس اک سوال کا ملتا نہیں جواب کوئی
تمام عمر کا حاصل ہے رایگانی کیوں
اُس اونچے طبقے کی روشن خیال لڑکی کو
لبھا گئی ہے میری اَدھ کھلی جوانی کیوں
کہانی گو نے بتایا نہیں یہ بھید کبھی
الائو بجھنے سے پہلے بُجھی کہانی کیوں
کسی نے پوچھا نہیں آج تک حسین اختر
میں کرتا رہتا ہوں دن رات نوحہ خوانی کیوں
(حسین اختر۔چکوال)

۔۔۔
غزل
سچ کہنے کی پاداش میں،ہاں، مار ڈالیے
طوقِ ستم گلے میں سرِ دار ڈالیے
’’جی خوش ہوا ہے راہ کو پُرخار دیکھ کر‘‘
پھولوں کو اب نہ راہ میں بیکار ڈالیے
ہم جیتنے ہی والے تھے پر عین وقت پر
اوپر سے حکم آیا کہ ہتھیار ڈالیے
اصلاح کرنے والے بھی کہتے ہیں آخرش
تنقید کر رہا ہے اسے مار ڈالیے
حارثؔ جنہیں ہمارے سخن کی خبر نہیں
آج ان کے گھر میں جائیے اخبار ڈالیے
(حارث انعام۔ نوشہرہ)

کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم ، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں، معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے ایکسپریس) ، 5 ایکسپریس وے ، کورنگی روڈ ، کراچی

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔