وفاقی بجٹ 2021-22

شکیل فاروقی  منگل 22 جون 2021
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

تھا انتظار جس کا وہ شاہکار آگیا۔ وزیر خزانہ شوکت ترین نے 2021-22کا وفاقی بجٹ 11جون کو قومی اسمبلی میں پیش کردیا۔

یہ بجٹ ایسی چل چلاتی دھوپ کی تپش کے موقعے پر پیش کیا گیا جب وفاقی دارالحکومت کا درجہ حرارت انتہائی عروج پر تھا اور دوسری جانب افراط زر میں مسلسل اضافے کی وجہ سے مہنگائی میں روز افزوں چڑھائی کے نتیجے میں اشیائے ضروریہ کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی تھیں اور عام آدمی کو روٹیوں کے لالے پڑے ہوئے تھے اور نچلا طبقہ ہی نہیں بلکہ محدود آمدنی والا متوسط طبقہ بھی اپنی سفید پوشی کا بھرم قائم رکھنے میں ناکام ہو چکا تھا۔ ان حالات میں غربت اور بے روزگاری کے ماروں کی نگاہیں بجٹ میں ملنے والی متوقع ریلیف پر مرکوز تھیں۔ آخرکار ہوا وہی جو ہونا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے آشا نراشا میں تبدیل ہوگئی۔ کیفیت یہ ہوئی کہ:

میں نے چاند اور ستاروں کی تمنا کی تھی

مجھ کو راتوں کی سیاہی کے سوا کچھ نہ ملا

بجٹ حسب روایت اعداد و شمار کا گورکھ دھندا نکلا۔ ہوگا وہی جو ہمیشہ سے ہوتا چلا آ یا ہے۔ اس بجٹ کے بعد بھی روز بروز منی بجٹ آنے کا سلسلہ شروع ہو جائے گا اور تاجر عوام کی چمڑی ادھیڑتے رہیں گے اور حالات کے جبر سے مجبور ہو کر لوگ چوری چکاری اور رشوت خوری پر اتر آئیں گے جس کے نتیجے میں معاشرتی بگاڑ میں مزید اضافہ ہوگا۔ اس بجٹ سے سب سے زیادہ مایوسی تنخواہ اور پنشن پر گزارا کرنے والے سرکاری ملازمین کی ہوئی جن کی اشک شوئی کے لیے محض 10 فیصد اضافے کی نوید سنائی گئی۔

جب سے موجودہ حکومت آئی ہے تب سے سرکاری ملازمین اور پنشنرز کے معاوضوں میں پھوٹی کوڑی کا بھی اضافہ نہیں ہوا ہے ، اس لیے ان بے چاروں کی تنخواہوں اور پنشن میں صرف 10فیصد کا اضافہ اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ حکومت کا یہ سلوک زخموں پر نمک چھڑکنے کے مصداق ہے۔ ستم ظریفی یہ کہ یہ ناانصافی اس حکومت کے دور میں کی گئی ہے جس کا نام ہی تحریک انصاف ہے۔

سرکاری ملازمین کی تسلی کے لیے ہمارا مخلصانہ مشورہ یہ ہے کہ وہ ناحق پریشان نہ ہوں اور اسے بھاگتے چور کی لنگوٹی سمجھتے ہوئے خوشی خوشی قبول کر لیں اور صبر سے کام لیں اور شکر ادا کریں کہ یہ بھی مل گیا۔ بے شک اللہ تعالیٰ بھی صبر و شکر کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ انگریزی کی مشہور کہاوت ہے کہ “beggars can’t be choosers”۔ ہمارے خیال میں حکومت کا یہ اقدام حاتم طائی کی قبر پر لات مارنے کے مترادف ہے۔ بقول غالب:

ہم کو ان سے ہے وفا کی امید

جو نہیں جانتے کہ وفا کیا ہے

جہاں تک حکومت کا تعلق ہے تو اسے اپنے الللوں تللوں سے بھلا اتنی فرصت کہا ہے کہ وہ اپنے ملازمین کے بکھیڑوں میں پڑے۔ ویسے بھی سابق حکمران لوٹ مار کرکے خزانہ خالی کرکے جا چکے ہیں۔ سانپ نکل گیا اب لکیر پیٹنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ رہی بات عوام سے کیے گئے الیکشن سے قبل وعدوں کا تو کیا گلہ شکوہ کہ رات گئی بات گئی۔جب آیندہ انتخابات ہوں گے تب دیکھ لیا جائے ، کیونکہ کہاوت یہ ہے کہ:

کاٹ کی ہانڈی محض ایک بار ہی چولہے پر چڑھتی ہے۔ انگریزی زبان کی کہاوت ہے کہ:

You can be fool some people for sometime

but you can not be fool the people all the time.

احمد فراز سے معذرت کے ساتھ:

سنا ہے کہہ کے مکرنا ہے گُر سیاست کا

اگر یہ سچ ہے تو پھر کہہ مُکرکے دیکھتے ہیں

یہ حقیقت صرف پی ٹی آئی کی حکومت تک ہی محدود نہیںبلکہ اس حمام میں سب کے سب ننگے ہیں۔ پانی سر سے اونچا ہوگیا تو شاعر کو یہ کہنے پر مجبور ہونا پڑا:

مرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو

گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں

وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ اس بجٹ میں کوئی نئے ٹیکس نہیں لگائے گئے، جن سے عوام کو کسی مشکل کا سامنا کرنا پڑے لیکن یہ یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ بوتل سے نکلا ہوا افراط زر اور مہنگائی کا جن دوبارہ بوتل میں بند ہو جائے گا۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ بجٹ عوام دوست ہے جب کہ پیپلز پارٹی کے مفتیانے کرام اسے عوام پر حملہ قرار دے رہے ہیں۔

بہرحال یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ اصل میں یہ بجٹ عوام دولت ہے یا عوام دشمن۔ اس بجٹ کی سب سے ناقابل ذکر بات یہ ہے کہ اس کی زک کاسمیٹک پروڈکٹس پر پڑی ہے جو بیرونی ممالک سے درآمد کیے جاتے ہیں چنانچہ فیشن ایبل خواتین اس پر بہت ناراض اور برہم ہیں کہ یہ ان کے آرائش و زیبائش کے بنیادی حق پر ڈاکا ہے۔

ہمیں یاد ہے کہ ہمارے معاشیات کے محترم اساتذہ نے ہمیں پبلک فنانس کے جو رموز سمجھائے تھے وہ عملی طور پر ہمارے کام آ رہے ہیں۔ ان میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ٹیکس وہ اچھا ہے جو باالواسطہ عام آدمی کو متاثر نہ کرے۔ پاکستان کے نامور معیشت دان ڈاکٹر محبوب الحق (مرحوم) نے بحیثیت وزیر خزانہ کے پرائس انڈیکس کے نام سے تنخواہوں کا ایسا نظام متعارف کرایا تھا جو اشیا کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کے ساتھ منسلک تھا۔ افسوس کہ اس نظام کو مستقل طور پر اپنایا نہیں گیا جس کی وجہ سے حکومت اور سرکاری ملازمین کے درمیان خلا پیدا ہو گیا۔ مختصر یہ کہ یہ بجٹ ایک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔