- کامن ویلتھ گیمز، ارشد ندیم گولڈ میڈل حاصل کرنے میں کامیاب
- آٹھویں جماعت کے طالب علم نے حاضر دماغی سے ڈکیتی کی کوشش ناکام بنادی
- ملک بھر میں دو روز کے لیے موبائل سروس بند رکھنے کا فیصلہ
- پنجاب میں موٹر سائیکل کی ڈبل سواری پر پابندی عائد
- اسلامک گیمز: پاکستانی ٹیبل ٹینس کھلاڑی کوارٹر فائنل میں پہنچ گئے
- کیوبا میں تیل ذخیرہ کرنے والے ٹینکر پر آسمانی بجلی گرگئی، 1 ہلاک، 121 زخمی
- پاکستانی طالبعلموں نے زرعی شعبے کے لیے موسمیاتی اسٹیشن تیارکرلیا
- بلوچستان ہیلی کاپٹر حادثے اور شہدا کے خلاف پروپیگنڈا کرنے والوں کے خلاف تحقیقات کا آغاز
- پاکپتن سے خود کو ایس ایچ او ظاہر کرنے والا نوسرباز گرفتار
- کراچی میں ہندو نوجوان کی درخت سے لکٹی ہوئی لاش برآمد
- فارن فنڈنگ میں اب پی ٹی آئی کے کسی جواب کی ضرورت نہیں، وزیر اطلاعات
- یزیدی حکومت سے نمٹنے کے لیے 13 اگست کو لائحہ عمل کا اعلان کروں گا، عمران خان
- راولپنڈی: کنویں میں گرنے والی بھینس کو کئی گھنٹوں بعد باحفاظت نکال لیا گیا
- نوجوان نسل عمران خان کے بہکاوے میں نہ آئے، شرجیل انعام میمن
- پسند کی شادی کی خواہش؛باپ نے بیٹی کے قتل کیلیے ایک لاکھ روپے سپاری دیدی
- لاہور: اغوا کا ڈرامہ رچاکر والدین سے 5 لاکھ روپے تاوان مانگنے والا 14 سالہ لڑکا گرفتار
- بنگلادیش؛ پٹرولیم مصنوعات میں 52 فیصد اضافے پر ہنگامے پھوٹ پڑے
- شہدا کا تمسخر اڑانے والوں کا احتساب ضروری ہے، وزیر اعظم
- راولپنڈی میں دو ملزمان کی گھر میں گھس کر خاتون سے زیادتی
- اسرائیل کی غزہ پر وحشیانہ بمباری؛ سلامتی کونسل نے اجلاس طلب کرلیا
جمہوری تحریک
ساری جمہوریت صرف چند خاندانوں کے عیش کے لیے سجائی جا رہی ہے ۔ قومی دولت لوٹنے والوں کو اس وقت جمہوریت یاد آتی ہے جب وہ اقتدار سے باہر ہوتے ہیں جب وہ اقتدار میں ہوتے ہیں تو انھیں امن بہت عزیز ہوتا ہے جب وہ اقتدار سے باہر ہوتے ہیں تو ماہی بے آب کی طرح تڑپتے رہتے ہیں۔
آج کل بھی صورتحال کچھ ایسی ہی ہے ان جمہوریت کے پرستاروں کو نہ دن میں چین ہے نہ رات میں، بس جمہوریت کی رٹ لگائے ہوئے ہیں جب کہ ان ارب پتیوں کا جمہوریت سے کوئی واسطہ نہیں۔ اگر جمہوریت لانی ہے تو 22 کروڑ عوام کو اختیارات دو، صرف دو تین خاندانوں کی خواہش جمہوریت نہیں کہلا سکتی۔
یہ دو چار خاندان ہمیشہ سے جمہوریت کے سر پر سوار ہیں اور ملک کے سیاہ اور سفید کے مالک بنے ہوئے ہیں اب اس فریب کو ختم ہونا چاہیے اور عوامی جمہوریت کا راستہ چھوڑنا چاہیے۔ ملک کے عوام جب تک جمہوریت کا حصہ نہیں بنیں گے جمہوریت محض ایک فراڈ کے علاوہ کچھ نہیں اور اب اس فراڈ کو ختم ہونا چاہیے۔
بلوچستان ایک پسماندہ صوبہ ہے جہاں کے عوام انتہائی سیدے سادھے ہیں انھیں جمہوریت کے نام پر بے وقوف بنانے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔ چنانچہ آج کل یہ کھیل جاری ہے اور غریب عوام کا پولیس سے سامنا کر دیا گیا ہے اور جمہوریت کے شہنشاہ اپنے محلوں میں آرام سے بیٹھے ہوئے ہیں۔ عوام اپنی سادگی کی وجہ سے ان شاطروں کے فریب میں آجاتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ آخر اس ملک کے لکھاری کیوں خاموش ہیں اور کب تک خاموش رہیں گے۔ تہتر سال سے یہ ارب پتی اشرافیہ اپنی دولت کے سہارے اقتدار پر قابض ہے اور اپنی آنے والی نسلوں کو بھی حکومت کرنے کے لیے تیار کر رہی ہے۔ ولی عہدوں کا ایک طبقہ دولت کے بل پر عوام کے سروں پر سوار رہنے کی منصوبہ بندی میں لگا ہوا ہے۔ شہزادوں کو عوام میں لا کر زندہ باد کے نعرے لگواتا ہے اور اشرافیہ کے شہزادے الٹی سیدھی تقریر جھاڑ کر رخصت ہو جاتے ہیں۔
بلوچستان ایک ایسا صوبہ ہے جہاں دہشت گردی روزمرہ کا کھیل بن گیا ہے غریب اور مخلص عوام اپنی سادگی اور پرکاری کی وجہ سے ایلیٹ کی باتوں میں آ رہے ہیں۔ بلوچستان اسمبلی پر حملہ کرکے جمہوریت کا جو سبق عوام کو پڑھایا جا رہا ہے وہ صرف قانون کو توڑ کر افراتفری پیدا کرنا ہے۔ ان کو عوام کے مستقبل کا کوئی خیال نہیں ، بس انھیں کسی طرح اقتدار چاہیے، اشرافیہ کو بس یہ تاثر دینا ہے کہ عوام حکومت کے خلاف لڑ رہے ہیں۔
اسی عوام دشمنی کو جمہوریت کی جنگ کا نام دیا گیا ہے عوام ان شہزادے اور شہزادیوں سے یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ تم نے عوام کے کون سے مسائل حل کیے؟ سوائے لوٹ مار کے کچھ نہیں کیا۔ اب عمران خان کو ہٹانے کی تحریک چلائی جا رہی ہے کیا اس تحریک کو جمہوریت کی تحریک کہا جاسکتا ہے؟ کیا مستقل ہنگامہ آرائی کو جمہوریت کہا جاسکتا ہے؟ یہ ایسے سوال ہیں جن پر عوام کو سوچنا چاہیے۔
اربوں روپوں کے مالک اس جمہوری تحریک پر جو دولت لٹا رہے ہیں وہ کس کی ہے اس کے اصل مالک کون ہیں؟ یہ وہ دولت ہے جو ماضی میں لوٹی گئی ہے ۔ کیا ہمارے عوام کو یاد نہیں کہ جب لوٹ مارکی دولت کو رکھنے کے لیے جگہ نہیں رہی تو اس دولت کو غریب خاندانوں کے اکاؤنٹ میں ڈال دیا گیا۔ بے چارے غریب پریشان تھے کہ وہ یکایک اتنے امیر کیسے بن گئے۔
یہ کھیل نیا نہیں ہے، عشروں سے کھیلا جا رہا ہے۔ کیا عوام نہیں جانتے کہ ان شہزادوں کے خلاف عدالتوں میں کتنے کیس ہیں۔ اسی حوالے سے سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ قومی مفاد کے یہ کیس برسوں سے چل رہے ہیں جن کا کوئی فیصلہ ہی نہیں ہو پاتا۔ اسی سہولت کی وجہ سے ایلیٹ اور بے جگری سے اپنے کاموں میں جٹی ہوئی ہے ، حکومت شدید دباؤ میں ہے اور جارحانہ رویوں کو بھلا چکی ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔